مفتی الیاس قاسمی کا متنازعہ بیان - ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-06

مفتی الیاس قاسمی کا متنازعہ بیان - ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

maulana-nadeem-ansari
گذشتہ دنوں مفتی الیاس نے اپنے ایک بیان میں شنکر اور ان کی بیوی پاروتی کو اپنا سرپرست بتایا ہے اور کہا ہے کہ "شنکر مسلمانوں کے پہلے پیغمبر تھے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کا تعلق سناتن مذہب سے ہے۔ ہندوؤں کے دیوتا شنکر اور پاروتی ہمارے بھی ماں باپ ہیں، اس بات کو ماننے میں مسلمانوں کو کوئی گریز نہیں ہے"۔ انھوں نے یہ بیان بدھ کے روز ایودھیا میں دیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ" ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے"۔ مفتی موصوف نے ہندو کو مذہب کی بجاےملک سے زیادہ جڑا ہوا بتایا ہے۔ انھوں نے آر ایس ایس کے ہندو ملک والی بات پر کہا کہ" مسلم ہندو راشٹرکے مخالف نہیں ہیں۔جس طرح چین میں رہنے والا چینی، امریکہ میں رہنے والا امریکی ہے، اسی طرح ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے"۔ ان کا کہنا ہے کہ" سب مذہب ایک ہیں کیوں کہ سب کا پیغام ایک ہے"۔
مفتی محمد الیاس قاسمی کے اس بیان کے بعد زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہےاور اس بیان کی مخالفت بھی شروع ہو گئی ہے۔سنّی و شیعہ ہر دو نے ان کے اس بیان کی مخالفت کی ہے۔ فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم نے کہا ہے کہ ہم ان کے بیان سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا بیان پوری طرح سے غلط ہے۔ انھوں نے جو باتیں کہی ہیں اسے ہم نہیں مانتے، ان کا یہ سیاسی بیان ہو سکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر کلب صادق نے مفتی الیاس کے بیان پر عد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "مفتی الیاس مذہب کے نام پر تنازعہ پیدا نہ کریں"۔بابری مسجد تحریک سے جڑے ہاشم انصاری نے بھی مفتی الیاس قاسمی کی پرزور مذمت کی، انھوں نے تو یہاں تک کہا کہ یہ مولوی قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، ان کے بیان کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔بڑی بات تو یہ ہے کہ ان کا تعلق جمعیۃ علماءسے بتلایا جا رہا ہے جب کہ جمعیۃ العلماء کے دونوں دھڑوں (ارشد مدنی، محمود مدنی کی جماعت) نے ان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
اس بیان میں تین باتیں خصوصیت سے قابلِ گرفت ہیں:
(1) "شیو" پیغمبر اسلام ہیں
(2) مسلمانوں کا مذہب اصلاً سناتن دھرم ہے اور
(3) ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی "ہندو" ہیں۔

آگے ہم ان تینوں باتوں پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
نہایت افسوس ہوتا ہے کہ عمر کے اتنے مراحل طے کرنے کے بعد، اونچی نسبتوں کا حامل ایک شخص، جسے عالمِ دین کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، رواروی میں ایسی لچر بات کہہ جاتا ہےجس کی عقلی و نقلی کوئی دلیل موجود نہیں۔ کیا کسی صحیح بات کو ثابت کرنے کے لیے اس پر جھوٹے دلائل قائم کرنا ناگذیر ہے؟مطلب یہ کہ اسلام واقعی ایسا پیارا اور سچا مذہب ہے، جس میں وطنی بھائیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تعلیم دی گئی ہے، ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے، ان کی غیر مذہبی تقریبات میں آنے جانے کی اجازت دی ہے لیکن اگر بعض شر پسند اسلام کی ان تعلیمات سے آنکھیں موند کر بیٹھ رہیں اور اسلام پر دقیانوسیت کی پھبتیاں کسیں یا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی و شانتی کا دشمن کہیںتو انھیں راضی کرنے کے لیے بے سر و پیر کی باتیں کرنا تو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آخر دنیا میں سب کا ایک ہی مذہب پر جمع ہو جانےیا اس کے لیے ہمیں بے سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ ڈالنے کی تو اسلام نے کہیں ترغیب نہیں دی! رواداری اور دین بے زاری میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے! وحدتِ ادیان کی رو میںاس قدر بہہ جانا کہ اسلام کا اصل چہرہ ہی مسخ ہو کر رہ جاے، یہ تو کوئی ادنیٰ مسلمان بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ پھر آخر کیا بات ہے کہ سستی شہرت کی ہوس میں آکر ایسے لوگوں کی جانب سے اس قسم کی باتیں زبان سے نکالی جاتی ہیں؟یاد رکھیے تمام مخلوق کے دل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں، جب چاہے کسی کے دل کو کسی کی طرف پھیر دے، اس کے لیے آپ کو اپنی عاقبت برباد کرنا کوئی عقل مندی نہیں۔اسلام تو سارے جہان کو امن و سکون دینے کے لیے ہی آیا ہے، جیسا کہ اقبالؔ نے کہا تھا؎
مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بیر رکھنا

رہا مفتی موصوف کا "شنکر" کو نبی یا پیغمبر کہنا تو واضح رہے کہ رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں میں اپنے احکام پہنچانے کے لیے انھیں میں سے اپنے چُنے ہوئے بندے، کتابیں اور معجزے دے کر بھیجے ہیں، جن کو "رسول" کہتے ہیں، جن میں حضرت آدم علیہ السلام سب سے اوّل مبعوث ہوے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ ٰ سب سے آخر میں۔ روایتوں میں نبیوں اور رسولوں کا شمار ایک لاکھ چوبیس ہزار آیا ہے، بعض روایات میں ایک لاکھ چونتیس ہزار اور بعض میں دولاکھ چوبیس ہزار کا شمار آیا ہے اور یہ تعداد قطعی نہیں ہے، غالباً کثرت کے بیان کے لیے ہے تاکہ کوئی کمی نہ رہے۔ اس لیے بغیر تعیین و تحدید کے اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے، ہم اُن سب کو برحق اور رسول و نبی مانتے ہیں۔ جن نبیوں کے اسماے گرامی قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہیں، اُن کے علاوہ کسی کو مسمیّٰ نبی کہنا درست نہیں۔
حضرت آدم علیہ الاسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے درمیان جو پیغمبر آےان میں سے بعض کے اسماےگرامی قران مجید و احادیث مبارکہ میں آےہیں، جن میں مشہور نام یہ ہیں؛
(1)حضرت آدم
(2) حضرت شیث
(3) حضرت ادریس
(4) حضرت نوح
(5)حضرت ابراہیم
(6)حضرت اسماعیل
(7) حضرت اسحٰق
(8) حضرت یعقوب
(9) حضرت یوسف
(10) حضرت داؤد
(11) حضرت سلیمان
(12) حضرت ایوب
(13) حضرت موسیٰ
(14) حضرت ہارون
(15) حضرت زکریا
(16) حضرت یحییٰ
(17)حضرت الیاس
(18) حضرت یونس
(19) حضرت لوط
(20) حضرت صالح
(21) حضرت ہود
(22) حضرت ذوالکفل
(23)حضرت شعیب
(24) حضرت عزیراور
(25)حضرت عیسیٰ علیٰ نبینّا و علیہم الصلوت والسلام اور
(26) حضرت محمدﷺ۔
(مستفاد از عمدۃ الفقہ: 1؍24)

ان برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ جن کے اسماےگرامی کا ہمیں علم نہیں، ان پر اجمالاً ایمان لانا ہمارے لیے کافی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِن قَبْلِكََ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۔
اورہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے تھے بعض ان میں سے وہ ہیں جن کا حال ہم نے آپ کے سامنے بیان کر دیا اور بعض وہ ہیں کہ ہم نے آپ پر انکا حال بیان نہیں کیا۔
تاریخ انسانی میں جن شخصیات کا ذکر خیر کے ساتھ ملتا ہے کہ وہ غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے اور انھوں نے خیر کےکام کیے، بعض لو گ ان کےبارے میں کہہ دیتے ہیں کہ شایدوہ نبی تھے، یہ طرزِ عمل درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی کے ساتھ نبوت کی نسبت صرف یقینی ذریعۂ علم سے ہی کی جاسکتی ہے، اندازے سے نہیں۔ نبوت وہبی چیز ہےاورکسی کے نبی ہونے کے اثبات اور بیان کےلیےدلیلِ قطعی لازم ہے، جس کے نبی ہونے پردلیلِ قطعی نہ ہو اس کی جانب محض قرائن سے نبی ہونے کی نسبت کرنا ناجائز ہے۔

ایک بات مفتی موصوف نے مذہب کے نام پر یہ کہی کہ ہم سب "سناتن دھرمی" ہیں،جس کا مترادف "دین قیّم" ہے۔ ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں اور ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ روزِ اول سے روزِ آخر تک اللہ تعالی کا منتخب کردہ مذہب" اسلام" ہی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
ان الدین عند اللہ الاسلام۔
بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اسلام ہی سابقہ انبیاکا مذہب تھا اور اسلام ہی آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مذہب ہے۔سابقہ انبیاےکرام علیہم السلام نے بھی اپنے لاے ہوئے مذہب کے لیے اسلام کا لفظ ہی استعمال کیا اور اپنی امت کو بھی اسلام پر جمے رہنے کی وصیت کی ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ما کان ابراھیم یھودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما۔
ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ تو یکسو مسلمان تھے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس وصیت کا ذکر بھی کیا جو انھوں نے اپنی اولاد کو کی تھی:
ووصی بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب یٰبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون۔
اور ابراہیم و یعقوب (علیہما السلام ) نے اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو !بیشک اللہ نے تمھارے لیےیہ دین منتخب کیا ہے، پس تمھاری موت اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر ہر گز نہ آے۔

اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجودہے:
انت ولی فی الدنیا والاٰخرۃ توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین۔الٰہی
تو ہی دنیا و آخرت میں میرا کارساز ہے تو میری روح حالتِ اسلام میں ہی قبض کرنا۔

یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انصاف پسند اور صاف دل کے بارے میں ارشاد فرمایا :
واذا یتلیٰ علیھم قالوا اٰمنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔
اور جب ان اہل کتاب پر آیاتِ قرانی تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان لاےکہ یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو پہلے ہی سے مسلمان تھے

اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ بھی دینِ اسلام ہی لے کر آے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
ورضیت لکم الاسلام دینا۔
اور ہم نے تمھارے لیےاسلام کو ہی بطور دین پسند کیا۔
نیز فرمایا :
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاٰخرۃ من الخاسرین۔
اور جس کسی نےاسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کیا تو اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جاے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین و مذہب صرف اسلام ہی ہے، اگرچہ زمانوں اور امتوں کے احوال کے مختلف ہونے کی وجہ سے شریعتیں و احکام بدلتے رہے لیکن مذہب سب کا اسلام ہی تھا۔
رہا مفتی موصوف کا ہندوستان میں رہنے والوں کو "ہندو"کہنا، تو ہم نے ان کا پورا بیان بغور سُنا ہے، جس کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ وہ اسے ملکی نسبت سمجھ کر ہی کہہ رہے ہیں، اس لیے اس مسئلے میں ہم انھیں صرف اتنا مشورہ دینا چاہیں گے کہ جس طرح 'امریکہ' میں رہنے والے'امریکی' اور 'چین' میں رہنے والے 'چینی' ہیں،اسی طرح 'ہندوستان' میں رہنے والے 'ہندوستانی' یا' ہند' میں رہنے والے' ہندی' ہیں۔
انھیں جبراً 'ہندو'کہنا، جو کہ ہندوستان کے ایک خاص مذہب والوں کی نسبت ہے، قطعاً درست نہیں۔ امریکہ کے لوگوں کو ان کے ملک کے نام پر امریکی اور چین کے لوگوں کو ان کے ملک کے نام پرچینی کہا جاتا ہے نہ کہ ان کے مذہب کے نام پر۔یہ ان کی ملکی نسبت ہے ،ان کے مذہب کا نام نہیں۔اسی طرح ہندوستان میں رہنے والوں کو ہندوستانی یا ہند میں رہنے والوں کو" ہندی" کہا جانا چاہیے،نہ کہ" ہندو" ۔
جیسا کہ اقبالؔ نے فخریہ کہا تھااور ہم بھی اس کے معترف ہیں؎
ہندی ہیں ہم وطن ہے، ہندوستاں ہمارا

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Mufti Ilyas Qasmi's controversial statement. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں