عجیب بات ہے لوگ تجربے کے حصول کی خاطر کافی بھاگ دوڑ کرتے ہیں مگر یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ بسا اوقات تجربہ حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ وقت انہیں سکھا دیتا ہے لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہاں ، فائدہ اتنا ہوتا ہے کہ اپنی عقل کے بل آئیندہ کے لیے آدمی سنبھل جاتا ہے۔
اس نے سوچا شاید اسی تجربہ کی دھن اس کی وطن واپسی میں تاخیر کا سبب بن گئی ہے۔ مگر یہ وقت بھی تو اس کے لیے بےرحم ثابت ہوا۔ ذرا سا انتظار کر لیتا تو کیا بگڑ جاتا اس کا؟ اس تعلق سے جتنا زیادہ وہ سوچتا گیا اسی قدر اپنا قصور کم نظر آنے لگا۔ شاید کہ زیادہ غور و فکر اپنی غلطی دوسرے کے سر مسلط کر دینے کا بہانہ بن جاتی ہے۔
پھر جب وہ اپنے وطن میں داخل ہوا تو رشتوں کی سرزمین یک بیک اسے کھوکھلی دکھائی دینے لگی۔ لوگ ڈرے سہمے اور احساسِ کمتری میں گرفتار محسوس ہوئے۔ جب کبھی وہ کسی محفل میں شامل ہوتا تو وہی فرسودہ اور عامیانہ گفتگو اس کا موڈ چوپٹ کر دیتی اور وہ بول اٹھتا:
"چھوڑو یار۔ کیا رکھا ہے یہاں؟ وہی مہنگائی ، پانی کی قلت ، فضائی آلودگی، برقی کی مسدودی، سیاسی ریشہ دوانیاں، مذہبی مسلکی چپقلشیں، فلمی اسکینڈلز، ادبی چھٹ بھئیوں کی نامعقول نگارشات اور ان سب کے درمیان جبری زندگی گزارنے کا وہی صدیوں پرانا رنگ ڈھنگ طور طریقے ۔۔۔ گھر سے دفتر ، کاروبار ، بازار پھر گھر واپسی کا لگا بندھا زنگ خوردہ معمول۔ آخر کب بدلے گا یہاں کا ماحول؟"
اس کی طنزیہ تقریر سب کے چہرے فق کر دیتی اور وہ کوئی جواب دئے بغیر اس سے ترقی یافتہ ممالک کے رہن سہن ، خورد و نوش، فکر و نظر، طرز معاشرت پر ستائشی کلمات سنتے ہوئے خاموشی سے بکھر جاتے۔
مکمل افسانہ عنقریب شائع ہوگا۔
رفتہ رفتہ اسے محسوس ہوا جیسے وہ اپنی ذات میں اکیلا ہوتا جا رہا ہو۔ اس کی ساری قربانیاں بھی رائیگاں گئی تھیں۔ اپنی عمر ، اپنا وقت ، اپنی خواہشات۔ صاحبِ حیثیت بن کر جب وہ اپنے وطن پہنچا تھا تو منزل پر پہنچتے ہی پہلی سنگین خبر اس کے حواس کو منتشر کرنے منتظر تھی۔
وہ دلآویز چہرہ جس سے چوری چھپے آنکھوں کی طویل گفتگو اس کا روزمرہ کا معمول تھا اور جس سے اسکی مستقبل کی تمنائیں وابستہ تھیں وہ اب کسی اور کی امانت بن چکا تھا۔
دوسرا اعصابی دھچکہ وہ اطلاع تھی جس کے مطابق اس کی آبائی حویلی فروخت کی جا چکی تھی۔ یوں تو ایک نہ ایک دن اسے فروخت ہونا ہی تھا مگر اسے خرید کر وہ وہ سب کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا تھا کہ عزیز و اقارب کی جلدبازی نے اسے دوبارہ چوٹ پہنچا دی۔
پہلا صدمہ اس وقت ہوا تھا جب دادا جان نے محض محبت یا جذبات میں آ کر حویلی کا ایک مختصر حصہ اپنے بڑے پوتے کے نام تحریر کر ڈالا۔ اس نے اس ناانصافی پر احتجاج کرنا چاہا مگر کسی نے اس کی حمایت میں کھڑا ہونا گوارا نہیں کیا۔ خود اس کے والدین نے خاموش رہ کر دادا جان کے فیصلہ کی گویا تائید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، چونکہ اس کے تایازاد کی شادی کا موقع ہے لہذا دادا جان کا فیصلہ صحیح اور حق بجانب ہے۔ تب اس نے خود کو خاندان سے الگ سمجھتے ہوئے اپنا مستقبل سنوارنے ملک سے باہر جانا چاہا۔ مگر اس سلسلے میں دادا جان کی متوقع مالی اعانت سے وہ محروم رہا۔ تایا ابا نے اسے سمجھایا تھا:
"تم خود کو ہم سے جدا کیوں سمجھتے ہو؟ تسبیح کی موتیاں گو اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہیں مگر وہ بندھی ہوئیں تو ایک ہی ڈور میں ہوتی ہیں۔ ایک بھی موتی کا اچانک الگ ہو جانا کیا ساری موتیوں کے بکھر جانے کا باعث نہیں بنتا؟"
اس نے کہنا چاہا :
"جہاں اپنا مفاد عزیز ہو یا خود کو کچھ نقصان پہنچتا دکھائی دے تو فوراً تسبیح کے دانوں کی نصیحت کی جاتی ہے لیکن جب دوسروں کا حق نظرانداز کیا جا رہا ہو ، تب ایسے معاملے میں ہمیں تسبیح کیا مقدس کتاب کا چھوٹا سا قول تک یاد نہیں آتا۔"
مگر بزرگی کے احترام کے سبب یہ سب کچھ وہ زبان سے ادا نہ کر سکا۔
عملی زندگی کے تجربے کا شوق دل میں بسائے اپنی بےاندازہ کوششوں کے ذریعے ایک روز وہ سمندر پار پرواز کر گیا۔ وہاں اس نے کئی سال بتا دیے۔ وطن کی یاد اور پھر آبائی حویلی کی فروختگی کے اعلان پر بالآخر واپس لوٹتے ہوئے اس نے سب کو اطلاع بہم پہنچائی کہ وہ خود آبائی مکان کو خریدنے کے ارادے کے ساتھ لوٹ رہا ہے۔ اب پتا نہیں وقت نے اس سے بےوفائی کی تھی یا اس کی قسمت کھوٹی نکلی؟
"کہاں کے رشتے ناتے ، کہاں تسبیح کے دانے؟ سب اپنے لیے جیتے ہیں یہاں۔ کوئی کسی دوسرے کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ اگر مجھ سے محبت ہوتی ، خلوص ہوتا تو ملاقات کے لیے وقتاً فوقتاً میرے گھر کیوں نہیں آتے؟ کیا ڈرتے ہیں مجھ سے؟ کیا مرعوب ہیں میری دولت سے؟"
مڈنائٹ شو سے لوٹتے ہوئے بیچ سڑک پر وہ اپنے عزیز چچا زاد بھائی کے مقابل برس پڑا تھا۔ بھائی نے اسے سمجھانا چاہا :
"رشتوں کی رمز جاننے کے لیے کشادہ دلی ضروری ہے میرے بھائی۔ وہ نہیں ملتے تو خود ان کے قریب جا کر درمیانی دوری تم کیوں نہیں مٹاتے؟ ویسے سچ پوچھو تو سب تم سے دلی تعلق رکھتے ہیں۔ بھلا خون کے رشتے بھی کبھی اپنی پہچان کھوئے ہیں؟ یاد نہیں، جب تم ایک موذی مرض کے سبب بستر علالت پر تھے تو ان سب نے کیسے تمہاری خدمت کی تھی۔ پل پل تمہاری عیادت کی ذمہ داری نبھائی تھی۔"
"وہ الگ بات ہے۔ وہ محض انسانی ہمدردی ہے فطری جذبہ ہے۔ تمہیں ماننا ہوگا کہ عزیز و اقارب جب کسی کی مالی اعانت نہ کر سکیں تو اسے دو چار تسلیاں اور مٹھی بھر دعائیں دے کر سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔" اس کا لہجہ ابھی تک تلخ تھا۔
"ایسا تم سوچتے ہو۔" عم زاد نے دھیرے سے کہا۔
"نہیں! صرف میں نہیں ، تم بھی سوچتے ہو ، وہ بھی سوچتے ہیں۔"
"ٹھیک کہا تم نے۔ ہم سب سوچتے ہیں۔ لیکن جب ہم سوچنے بیٹھتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ دوسروں کی سوچ ہم سے مختلف ہوتی ہے۔ ہم اپنی بات سے اتفاق پر اصرار کرتے ہوئے نجانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم نے بھی دوسرے کے خیال سے اختلاف کیا تھا۔"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" وہ یکبارگی چونک کر بولا۔
"دادا جان ، تایا ابا اور خود تمہارے ابو نے کتنا سمجھایا تھا تمہیں کہ ملک سے باہر جا کر اپنی صلاحیتوں کا صلہ وصول کرنے کے بجائے یہیں رہ کر اپنی قوم کو فیض پہنچانا چاہیے۔ کیا ان کی صحیح سوچ سے تمہارا اختلاف غلط نہیں تھا؟"
"صحیح فیصلہ میں نے کیا تھا۔ تم ہی بتاؤ، بھلا کیا رکھا ہے یہاں کی بنجر زمینوں میں؟"
اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا تو چچا زاد بھائی نے اسے کچھ دیر تاسف سے دیکھا ، پھر کہا:
"تم نے کبھی ریل گاڑی کا سفر کیا؟ ایک دفعہ ضرور کرنا۔ کسی نہ کسی مقام سے گذرتے ہوئے پتھر کی چٹانوں کے درمیان کچھ جگہ تمہیں لہلہاتے پودے نظر آئیں گے۔ وہ دراصل درس عبرت ہیں ہم جلدباز اور بےصبر انسانوں کے لیے۔ ذرا سوچو ، زمینیں کہاں کی سنگلاخ نہیں ہوتیں؟ مگر ان کے فوائد کے حصول میں بڑا حوصلہ درکار ہے۔ ثمرآوری کے لیے پتھر کا جگر اور فولاد کا صبر چاہیے۔ ہمارے موم کے بنے دل بھلا اس آزمائش سے کیسے گذریں؟ وہ تو کبھی پرتعیش آزادانہ اور بےباکانہ ماحول کی تپش اور کبھی سونا اگلتے ریگستان کی خیرہ کن چمک سے پگھل جاتے ہیں۔"
وہ اپنے بھائی کی بات نیم دلی سے سنتا رہا۔ سڑک کا سناٹا بڑھ چلا تھا۔ ایک وہ وقت تھا جب رات دیر گئے مختلف مانوس سی آوازیں سننے میں آتی تھیں۔ کبھی رومانی سرگوشیاں کھلکھلاتیں تو کسی وقت بحث و تکرار کانوں میں گونجتی یا کہیں کسی بچے کے رونے اور مچلنے کی آوازیں سماعت سے ٹکراتی تھیں۔ مگر اب رات کا منظر آوازوں سے گویا خالی ہو گیا تھا۔ شاید راستوں نے بھی دوست احباب کی طرح چپ چاپ اپنے چہرے بدل لیے تھے۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے اس نے بھائی سے دریافت کیا:
"کیا تم بتا سکتے ہو یہ راستے کیوں چپ ہیں؟ جب سے یہاں آیا ہوں دیکھ رہا ہوں کہ سب مجھے دیکھتے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ بلاوجہ میرا احترام کرنے لگتے ہیں۔ کہیں یہ راستے بھی تم سب کی طرح مجھ سے ، میری امارت سے مرعوب تو نہیں ہو گئے؟"
"راستے بھی کبھی انسانوں سے مرعوب ہوئے ہیں؟" چچا زاد بھائی یہ کہتے ہوئے ہولے سے ہنسا۔
"کم فہمی ہے تمہاری۔ وقت نے بےشک تمہیں تجربہ کار بنایا مگر تم سنبھلے نہیں بلکہ بہک گئے ہو۔ ہمارے یہاں مخملی قالین کا فرش بےدردی سے روند کر نرم ملائم فوم کے گدوں پر لوٹنے والا ایک دن جب ننگی زمین پر لیٹتا ہے تو ایک ایک کروٹ اس بےچارے کو احساس دلاتی ہے کہ صرف وقت اس کے لیے بےرحم نہیں ہوا بلکہ زمین بھی اپنی ناقدری کا انتقام لینے پر تل گئی ہے۔
ایک ادھر تم ہو۔ اونچی اڑانوں کے زعم میں دوست احباب کی بےرخی کی کروٹیں ٹھیک طرح بوجھ نہیں پائے بلکہ اب تو یہ بھی سمجھنے لگے ہو کہ زمین تم سے خوفزدہ ہو گئی۔ نہیں میرے بھائی! راستے نہیں بدلے البتہ تمہارے مقابل چپ ضرور ہیں۔ یہ اب کچھ نہیں بولتے اس لیے کہ یہ تمہیں نہیں پہچانتے۔
جانتے ہو کیوں؟
کیونکہ تم بدل چکے ہو۔ تم وہ ، وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔"
چلتے چلتے وہ دونوں اس موڑ پر آ پہنچے جہاں انہیں جدا ہونا تھا۔ چچازاد بھائی نے اس کے کاندھے پر ہمدردی اور افسوس کے ساتھ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
"تم شاہراہوں کے راہی ہو۔ یہ گردآلود پگڈنڈی ، یہ چارکول کی محدود پرہجوم سڑک ، یہ دھول مٹی سے اٹا تنگ راستہ اب تمہارے شایان شان نہیں میرے دوست! جاؤ ، وہیں لوٹ جاؤ جہاں سے آئے ہو ۔۔۔"
اتنا کہہ کر اس کا عم زاد نڈھال قدموں سے ایک تنگ گلی کی جانب مڑ گیا۔
"ہاں! ہاں میں بدل گیا ہوں۔ اور تم ۔۔۔ تم شاید تبدیلی نہیں چاہتے۔ تم لوگ ان بوسیدہ راستوں کی انجانی اور فضول آوازوں کے قیدی ہو۔ ان کے حصار سے آزاد ہونا تمہارا مقدر نہیں۔ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تمہیں۔
تیسری دنیا کی ناخواندہ مخلوق ہو تم لوگ۔
دقیانوسی ہو تم سب۔
سنتے ہو ۔۔۔ قدامت پرست ہو تم لوگ ۔۔۔۔"
وہ چوراہے کے بیچوں بیچ کھڑا چلاتا رہا اور رات کے بےچہرہ سناٹے میں چارکول کی چکنی سڑک پر بےموسم کی برسات کے چند چھینٹے پڑے چمچماتے رہے !!
***
***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
Mob.:09000228305
taemeer[@]gmail.com
|
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز |
Urdu short story 'Raaste Khamosh haiN'. By: Syed Mukarram Niyaz
آپ کے دئے گئے فیس بک لنک پر تو کافی دلچسپ تبصرے ملے ہیں:
جواب دیںحذف کریںYousuf Aziz Zahid
خاقان ساجد سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ نثر لکھنا شعر کہنے سے ذیادہ مشکل کام ہے مشق مطالعہ اور خود احتسابی اس فن کو نکھارنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ افسانے کی سرخی نے اپنی طرف کھینچا ۔موضوع ایسا ہے کہ ذرا سی محنت اسے اچھا افسانہ بنا سکتی تھی لیکن صاحب افسانہ نے "کشٹ" ہی نہیں اُٹھایا
Shahid Jamil Ahmad
تحریر مباحثہ ، مکالمہ اور تاثر کے انداز میں لکھی گئی گے ، بیشک موضوع اچھا ھے ، اپنے اپنے ماحول تئیں کرداروں کی بات ، دلائل اور گفتگو میں وزن ھے لیکن تحریر میں کہانی پن کا عنصر نہ ھونے کی وجہ سے تحریر قاری کی دلچسپی کے ساماں سے تہی محسوس ھوئی
Shaheer Shuja
زبان و بیان کی چاشنی اپنی جگہ خوب ہے ۔۔۔۔ جس کی مصنف کے لئے داد تو بنتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر میں جیسے سب نے کہا تقریر کا عنصر زیادہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے افسانے کی فضا مکدر کی ۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال نیک خواہشات ۔۔۔
Adil Faraz
افسانہ کا موضوع نیا نہیں تھا ۔مکرم نیازی کی تقریر زیادہ اہم ہوگئی جس کے بیچ افسانہ کہیں کھو سا گیا لیکن اگر دیکھاجائے تو یہی تقریر اس افسانہ کے موضوع کو پایہ ¿ تکمیل تک پہونچاتی ہے ۔کہیں نا کہیں یہ انکا داخلی کرب بھی بیان کرتا ہے ۔بہرحال اچھا لکھاہے مکرم صاحب نے ۔
Khakan Sajid
کرشن چندراردوکے سرخیل افسانہ نگاروں میں سے ایک تھے مگر افسانے میں تقریرکرنے کی عادت نے ان کے بظاہربہت عمدہ افسانوں کوزک پہنچائی۔بیدی نے ان کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس سے لکھاتھا’’میرایارکہیں تو رکا ہوتا۔۔۔‘‘ اس افسانے کے خالق کو میرا پہلا مشورہ تو یہی ہے افسانے میں تقریر سے پرہیزکریں۔ دوسری تجویزیہ دوں گا کہ افسانہ لکھنے کے بعد اس کی بھرپورکاٹ چھانٹ کریں۔ایک جملہ اورلفظ بھی زائڈ نہیں ہونا چاہئے۔مثلا’’ پہلا پورا پیراگراف میری نگاہ میں زائد ہے۔اسے کاٹ کردیکھئے۔افسانے کی صحت پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ بہرحال پردیس میں جابسنے والوں کا احوال اوران کا المیہ آپ نے عمدگی سے بیان کیا۔نظرثانی سے افسانہ مزیدبہترہوسکتاہے۔
أمواج الساحل
بہت شکریہ ۔۔۔ پردیس بھگت جو رہے ہیں۔۔
میں تو اکثر کہتی ہوں کہ ہم تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
وطن کے لوگ تمام فیصلے اس کو مد نظر رکھے بغیر خود ہی کرتے ہیں۔۔۔ مگر پیسے لینے کے وقت اسے یاد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس پر بڑا احسان کرتے ہیں۔۔
پردیسیوں کے کئی مسائل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ خود کو تنہا پاتاہے۔۔۔ نہ یہاں اسے کوئی پہچانتا ہے نہ وہاں۔۔۔ پردیس کے لوگ کہتے ہیں تم یہاں کے باسی نہیں ہو۔ باہر سے آئے ہوئے ہو۔۔۔۔ وطن کے کہتے ہیں اب تم پہلے کی طرح نہیں رہے۔۔بدل گئے ہو۔۔ تم نے دوسرے ملک کی تہذیب کو اپنا لیاہے۔۔۔
بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںمحترم مکرم نیاز صاحب
ایک اچھا اور کامیاب افسانہ ہے،
وصی بختیاری عمری
.
افسانہ میں افسانہ نگار کا ذاتی کرب اور تجربہ شامل ہے کہانی کی جگہ پردیسیوں کی سوچ باہر کرتی ہے. افسانہ نگار کو مبارک باد اک اچھا افسانہ پڑھنے کو ملا. شکریہ مکرم نیاز بہائ.
جواب دیںحذف کریںافسانہ میں افسانہ نگار کا ذاتی کرب اور تجربہ شامل ہے کہانی کی جگہ پردیسیوں کی سوچ ظاہر کرتی ہے. افسانہ نگار کو مبارک باد اک اچھا افسانہ پڑھنے کو ملا. شکریہ مکرم نیاز بہائ.
جواب دیںحذف کریں