جسے دیکھو اسے تقدیر سے کچھ بد گمانی ہے
حصول و لاحاصل کی عجب کوئی کہانی ہے
جو کھویا ہے یہاں وہ ، ستم ظریفی قسمت کی
جو پایا ہے یہاں ہم نے ، اپنی جانفشانی ہے
یہ حال تو مادیت پرستی کی دوڑ میں شامل لوگوں کا ہے۔۔۔۔۔۔ اور جو ذرا زیادہ اہل، مگر کاہل ہیں وہ چھپر پھاڑ کر دینے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔۔ انکا عالم کچھ کم عجیب و غریب نہیں کہ۔۔۔۔۔۔
قناعت کے وسیع پہلو میں کاہل سو گئے سارے
قناعت کے اصولوں سے سراسر رو گردانی ہے۔۔۔۔
کیا کرے بے چارہ مہذب انسان ۔۔۔سماجی جانور جو ٹہرا۔۔۔۔اور جسے اب تہذیب جدیدہ اور سیاست غلیظہ نے سماجی گدھا بنا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔
الغرض انہیں سوچوں میں غرق ہم شیفتہ کے گھر جا پہنچے۔۔۔۔ اور کیا دیکھتے ہیں کہ شیفتہ ایک خوبرو شخص کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔۔۔ وہ نوجوان نہ سہی جوان کہلانے کے لائق ضرور تھے ۔۔۔ہمیں دیکھتے ہی شیفتہ نے فرمایا۔۔۔۔ یہ ہمارے دادا حضور ہیں۔۔۔قوم و ملت کا چہرہ، اسکی تاریخ ۔۔۔اس کا آئینہ ہیں ۔۔۔بھری جوانی میں کوما میں چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔حال ہی میں ہوش و حواس میں لوٹے ہیں ۔۔۔لوگ باگ انہیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لئے پھرتے رہے۔۔۔ علاج تو ہو نہ سکا لیکن بزرگ اکثر کہا کرتے کہ یہ کبھی عارضی طور پر ہوش میں آجاتے اور پتہ نہیں دوبارہ ان پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ۔۔بس معجزہ رونما ہوتا رہتا۔۔۔۔انکے ہوش میں لوٹ آنے کے کوئی اسباب نظر نہیں آتے جبکہ انکے کوما میں جانے کے کچھ کچھ اسباب معلوم ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ ہم نے بے اعتباری سے دادا کو گھورا، انکی مسکراہٹ اور انکے چہرے کے تاثرات میں ہمیں یکبارگی قدما کی جوانی نظر آنے لگی ۔۔۔۔پیشانی پر نور، مکھڑا کوہ طور اور آنکھوں میں انجانا سرور۔۔۔ شیفتہ نے فرمایا۔۔۔۔۔ جناب بھری جوانی میں کسی صدمہ سے دل برداشتہ ہوکر کوما میں چلے گئے تھے۔۔کسی کو کوئی خاص سبب معلوم نہ ہوسکا۔۔۔ ہم نے سوچا۔۔اسباب تو سب جگ ظاہر ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔پچیسویں ساون میں دادا حضور ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ جیسے ساون کے اندھے کو زندگی بھر سب کچھ ہرا بھرا نظر آتا ہے اسی طرح جوانی میں ہوش کھونے والے کو ساری عمر مدہوشی رہتی ہے۔۔۔۔ اور یہ سانحہ تو تہذیب جدیدہ میں تقریبا ہر ایک نوجوان کے ساتھ نوجوانی میں پیش آتا رہتا ہے۔۔ جب تک کہ اسکی عقل پر بڑھاپا غالب نہ آجائے جوانی کی مد ہوشی طاری رہتی ہے۔۔۔جوانی تو ویسے بھی اندھی ہوتی ہے۔۔۔۔۔اب پتہ نہیں دادا حضور کو ہوش میں آنے پر کیا کیا نظر آئیگا۔۔۔ دنیا کیسی نظر آئیگی۔۔۔۔۔انسان کیسا نظر آئیگا ۔۔۔ سرکار کیسی نظر آئیگی ۔۔۔۔۔اور پتہ نہیں عاشق، تاجر، معلم، ادیب، شاعر، سیاستدان، قانون دان، اوباش و عیاش اور سیاسی غنڈوں میں انہیں کیا کچھ نیا نظر آئیگا۔۔۔۔۔شیفتہ نے ہمارے تاثرات کو پڑھنا ضروری نہ سمجھا اور فرمایا ۔۔۔ حضور۔۔۔۔۔ بس سمجھ لیجیے معجزہ ہے یہ۔۔۔۔۔۔تقریبا پچھتر سال سے یہ صرف مختلف معجون پر زندہ ہیں اور جن میں خاصکر وہ معجون اکبر۔۔ ہم نے ٹوک کر پوچھا ۔۔۔کیا دادا شادی شدہ ہوتے حواس گم گشتہ ہوئے تھے۔۔۔۔۔فرمایا۔۔۔حضور آپ معجون سے غلط مراد لے رہے ہیں۔۔۔۔معجون کے دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔دادا حضور آزادئ ہند کی لڑائی کی ابتدا دیکھ چکے تھے۔۔۔لیکن اسکی انتہا دیکھنے سے پہلے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھے ۔۔۔ہم نے سوچا اچھا ہوا ورنہ ہوش و حواس کے ساتھ جان بھی کھو بیٹھتے۔۔۔۔فرمایا۔۔انکی صحت دیکھکر حیران نہ ہوجائیے گا۔۔۔۔اسکا تجزیہ مختلف عالمی ماہرین نے کیا ہے ۔ یہ پچھلے کئی برسوں سے ہر قسم کی خرافات، قوت سامعہ و شامہ و باصرہ اور قوت ناطقہ و ذائقہ کے بے جا اور ناجائز استعمال سے دور رہے ہیں۔۔۔۔بلکہ اعمال باطلہ، ضرررساں اور حرام اکل و طعام اور افکار و بیان سے بھی۔۔۔۔ہر قسم کی فکری ، قلبی، حسی ، ادبی، نظریاتی، سیاسی، تجارتی ، صنعتی اور سماجی آلودگی سے بھی۔۔۔۔۔یہی انکی جسمانی، روحانی، ذہنی اور قلبی صحت مندی اور طویل العمری کا راز ہے۔۔۔۔
دادا نے اچانک باہر گھومنے پھرنے کی فرمائیش کردی ۔۔۔اور گھومنے پھرنے کے دوران کئی بار بے ہوش ہوتے ہوتے بچے ۔۔۔ وہ شاہراہوں پر گلی کوچوں میں ، عمارتوں کے اندر باہر نظر دوڑاتے اور ہوش کھو بیٹھتے۔۔۔۔کبھی گہری گہری سانسیں لیتے اور مسکراتے ہوئے ہوش میں آجاتے۔۔۔کبھی نظارے دیکھ کر مچل مچل جاتے اور ایڑیوں پر کھڑے ہو ہوکر یہاں وہاں نظر دوڑاتے۔۔۔۔دادا کا دل نہ بھرتا اور کبھی ایسے محسوس ہوتا ان کا دل بھر آیا ہے !۔۔۔۔۔۔ پھر تھک ہار کر ہم لوگ دادا کو لئے گھر آگئے۔۔۔۔گھر آتے ہی وہ گم سم سے ہوگئے۔۔۔ مانوں ہزاروں سوال آنکھوں ہی آنکھوں میں لئے پوچھ رہے تھے ۔۔۔ بلکہ وہ لاکھوں سوال جو پچھلے برسوں سے کوما میں انکی آنکھوں میں سما گئے تھے۔۔۔۔۔دادا نیرنگئ دنیا اور زمانے کی رنگینیاں دیکھ کر سوالات کی بارش کرنے لگے۔۔۔۔ شیفتہ نے پریشانی سے ہماری طرف دیکھا تو ہماری سمجھ میں بہتر یہی آیا کہ انہیں اس بولتی کتاب کے روبرو کردیں جو بہت کچھ بلکہ کچھ بھی بولتی ہے ، اور اچھے برے سماج کا آئینہ کہلاتی ہے۔۔۔۔ اور جسے عرف عام میں ٹی وی کہتے ہیں۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔دادا نے پہلے تو ٹی وی دیکھ کر خوب مسکراہٹیں بکھیری۔۔۔ پھر سامنے رکھے ہوئے تمام پھل بے خیالی میں کھاتے چلے گئے۔۔۔یہاں تک کے سامنے رکھی ہوئی بچوں کی ٹافیاں، جوس، پوپ کارن بھی ۔۔ شیفتہ بھی اس آئینہ خانہ میں گم تھے جو مختلف چینلز پر سماج کو اور اپنی برادری کو کبھی برہنہ کرنے میں تو کبھی چاک گریباں کرنے میں کوشاں رہتا ۔۔۔۔ہمیں دادا کی کیفیات کا کچھ علم نہ تھا کہ ہم اپنی برقی بیاض میں مگن تھے، جسے دیکھ کر دادا نے سرکھجایا تھا اور آنکھیں ملی تھیں ۔۔۔سوچا ذرا دادا کے تاثرات دیکھتے ہیں کہ یہ ٹی وی سے کیسے لطف اندوز ہورہے ہیں، شاید فحش ناچ گانا دیکھ کر اپنے دور کی مہذب عیش پرستی سے موازنہ کررہے ہونگے۔۔۔۔ یا جرم و گناہ کے قصے سن کر حیرت زدہ ہونگے۔۔۔۔۔۔ یا سونامی، زلزلوں، تابکاری سے پھیلی آلودگی اور مختلف بیماریوں کو دیکھ دیکھ کر رو رہے ہونگے۔۔۔۔ یا حکومتوں کے عروج و زوال کو دیکھ کر تاریخ کا اعادہ کر رہے ہونگے۔۔۔۔یا دنیا میں پھیلی بدعنوانی اور رشوت خوری کے ناسور کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہونگے کہ انکے دور میں یہ ناسور اسقدر نہ پھیلا ہوگا۔۔۔سرکاری عملہ اور سیاستدانوں کی تاناشاہی اور سبکی ماتا جمہوریت کو تار تار دیکھ کر آزادی اور غلامی کے نئے معنی سمجھ رہے ہونگے۔۔۔حسن و عشق کی جدت پسندیاں، رشتوں کی پامالیاں، علوم و فنون اور تحقیق و تدبیر کی حشر سامانیاں اور قانون و انصاف کی موشگافیاں دیکھ کر ہونٹ کاٹ رہے ہونگے۔۔۔۔۔جنگ و جدل، خانہ جنگی اور خون خرابہ کو دیکھ کر پچھلی صدی کی دھائی دے رہے ہونگے ، اور اپنے دور کو یاد کر کے خوش ہورہے ہونگے۔۔رشتہ داروں کے ہاتھوں لٹتے رشتوں کو ، ہم وطنوں اور ہمسایوں کے ہاتھوں برباد ہوتے انسانوں کو دیکھ کر سینہ کوبی کر رہے ہونگے ۔۔۔۔یا ترقی کے مثبت اثرات دیکھ کر شا ید عش عش بھی کر رہے ہونگے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ان پر نظر پڑتے ہی ہمارے اوسان خطا ہوگئے ۔۔ جوان دادا یہ سب واقعات دیکھ کر ایک ناتواں ضعیف العمر شخصیت میں تبدیل ہورہے تھے ۔۔۔ ہم نے شیفتہ کوپکارا اور اس صورت حال سے واقف کرایا تو انکے بھی ہوش اڑنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔ اچانک ٹی وی پر نگاہیں گاڑھے دادا صوفے سے زمین پر گرے اور ایک آہ بھر کر پھر کوما میں چلے گئے۔۔اور پھر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔۔۔۔۔ہم نے ماجرا جاننے کے لئے ٹی وی پر نظر دوڑائی تو پتہ چلا انجانے میں دادا سے چینل کا بٹن دب گیا تھا ۔۔۔۔۔۔کوئی دل جلا زمانے سے باغی چینل تھا جو کہہ رہا تھا۔۔۔ناظرین کہیں مت جائیو۔۔اپنے ہوش و حواس میں رہیو۔۔۔ایک اہم خبر ہے ۔۔۔ایک عالمی تجزیہ کے مطابق انسان اپنی من مانی اور تن آسانی سے ارتقا اور تہذیب و تمدن کے عروج پر پہنچ چکا ہے۔۔۔۔اور جہاں سے اسکی واپسی بڑی تیز رفتاری سے کسی وقت بھی ممکن ہے۔۔۔لیکن وہ اخلاقی و روحانی زوال کےاس مقام پر جا پہنچا ہے جہاں سے اسکی واپسی اب قطعی ممکن نہیں۔۔۔۔
***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
The humanity is in coma but.... Article: Zubair H Shaikh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں