بھائی - آپ کیا کھا رہے ہیں ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-21

بھائی - آپ کیا کھا رہے ہیں ؟

halal-meat
ہم جس دفتر میں پہلے ملازم تھے وہ دفتر تاردیو میں ہوا کرتا تھا۔ اکثر شام کو کچھ کھانے ،قریب کے ایک مسلم ہوٹل میں جاتے تھے ایک شام اپنے رفیق کار سید اقبال کے ساتھ پہنچے اور مٹن مسالہ منگایا ، کھاناشروع کیا ، کھاتے کھاتے ایک کرچی جیسی کوئی شے منہ میں آئی، منہ سے نکال کر اْنگلیوں پر رکھ کر جو دیکھا تو بس۔۔۔ چھی چھی ۔۔۔ کرکے رہ گئے، وہ انسانی ناخن تھا جو باورچی اْستاد نے غالباً کچن ہی میں اپنی اُنگلی سے کاٹا ہوگا اور اْڑ کر وہ سیدھے دیگچی میں پہنچ گیا اور ہمارے حصے میں آیا۔۔۔
آج بھی یہ منظر یاد آتا ہے تو اپنے آپ پر ترس آتا ہے کہ پتہ نہیں ان ہوٹلوں میں ہم کیا کیا کھا جاتے ہونگے یہ ناخن تو منہ میں کنکر کی طرح محسوس ہوا تو نکال کر دیکھ لیا۔ اس وقت ہمارے رفیق کار نے جن آنکھوں سے ہمیں دیکھا تھا وہ منظر جب جب یاد آتا ہے تو شرمندہ کر جاتا ہے بلکہ اپنی شکم کی آگ بڑی گھناؤنی محسوس ہوتی ہے۔ مگر کیا کِیا جائے کہ اسی آگ کو بجھانے کیلئے دْنیا کے سارے بکھیڑے جھیلے جاتے ہیں۔
یہ بات آج اس خیال نے یاد دِلادِی کہ اب مسلم آبادی کے علاقوں کے عام ہوٹلوں میں بڑے کے گوشت کے کھانے بند ہیں۔ کیونکہ مذبح میں بڑے جانوروں کا ذبیحہ ہی بند ہے۔ ہمارے وہ بھائی بند جو اپنے گھر بار سے دور پردیس میں ہیں وہ ہوٹلوں ہی پر گزارا کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ جو لوگ ہفتے میں پانچ دن گوشت خوری کے عادی ہوں، ان کاکیسے گزارا ہو رہا ہوگا۔؟۔۔۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہوٹلوں کے دروازے بند نہیں ہیں وہ ویسے ہی بھرے پْرے ہیں اور بھائی بند روٹیوں پر بوٹی اْڑا رہے ہیں مگر مرغی کی۔

ہوٹل تو ہیں ہی مگر ہمارے محلوں میں، گلی کوچوں میں نان چانپ، کباب پاؤ اور سیخ کی دْکانیں بھی خوب لگتی ہی نہیں، خوب چلتی بھی ہیں اور ان میں سب بڑے کے گوشت کی چیزیں بنتی ہیں۔ ہر بڑے محلے کے کسی نہ کسی کونے پر توا چولہے پر چڑھا ہوتا ہے کباب ، ٹِکّے تلے جا رہے ہوتے ہیں۔ ان محلوں میں ہم جیسوں میں ہر پانچواں آدمی ایسا ضرور ملے گا جو ناشتے کے نام پر یا بے وقت بھوک مٹانے کیلئے کباب پاؤ سے کام چلاتا ہے اور یقیناً اس طرح کے کاروبار سے بہت سے افرادکا گھر بار بھی چلتا ہے۔۔۔۔

ان دنوں کون سی ایسی شے ہے جس میں ملاوٹ نہ ہوتی ہو۔ کیا گوشت میں بھی کچھ خدشہ ہے؟۔۔۔اس سوال نے ہمیں متوجہ کیا اور کچھ پرانی باتیں ذہن نے اگلنی شروع کر دیں۔ شہر کے ایک ریلوے اسٹیشن پر بڑی مقدار میں گوشت پکڑا گیا تھا جو کسی دوسری ریاست کے کسی شہر سے ممبئی پہنچا تھا۔ غالباً ٹرین اپنے مقررہ وقت سے کہیں زیادہ تاخیر سے پہنچی، نتیجے میں گوشت سے بدبو پھوٹنا شروع ہوگئی اور پھر جو کچھ ہوا وہ اخبارات کی خبر بن گیا۔
پتہ چلا کہ اس وقت اسٹیشن پر اتفاقاً کسی بڑے افسر کا گزر ہوا اور اْس "بدبو" نے اْس کو متوجہ کر لیا تو یہ بھانڈا پھوٹا۔ اخبار ی رِپورٹروں نے اپنی خصوصی اسٹوری بنائی تو اخبار کے قارئین تک یہ خبر پہنچی کہ اس طرح کا گوشت تو بہت دِنوں سے مختلف شہروں سے آتا ہے اور اس طرح آتا ہے کہ اس کی "بدبو" پھیلنے نہ پائے۔اْس دن آنے والے گوشت کی صحیح پیکنگ نہیں ہوئی تھی اور ٹرین کی آمد میں تاخیر بھی ہوئی تھی ،جس کے سبب گوشت سڑنا شروع ہوا اور بدبو پھیل گئی ورنہ تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیسا گوشت اور کیسی بدبو۔۔۔۔ بتانے والوں نے بتایا کہ یہاں پہنچنے کے بعد اس میں خاص قسم کے مسالہ جات ملائے جاتے ہیں جس سے اس کی بدبو مسالوں کی خوشبو میں بدل جاتی ہے اور پھر کچھ سستے دْکانداروں کے ہاتھوں سے وہ ہمارے پیٹ میں جاکر ہضم ہو جاتا ہے۔
واقعی پیٹ کی اگنی کیا کیا بھسم کر دیتی ہے کس کو خبر۔۔۔!

اب گوشت کا کاروبار چاہے وہ۔۔۔ مٹن (بکرے) کاہو یا چکن کا۔۔۔ بڑے پیمانے پر چل رہا ہے۔ ہم یہاں صرف چکن(مرغ) کی بات کرتے ہیں کہ شہر میں لاکھوں کی تعداد سے بھی زیادہ اس کی کھپت ہے۔ مثال کے طور پر ہزار، پانچ سو مرغیاں ایک ٹرک میں دور دراز فارم ہاؤس سے شہر میں لائی جاتی ہیں اْن میں سے پچیس پچاس مرغیاں راستے ہی میں مَر گئیں اس طرح سیکڑوں ٹرک شہر میں روزانہ آتے ہیں اور ان میں ہزارہا مرغیاں ہوتی ہیں ان میں کتنی مرغیاں مرتی ہونگی اور ان کا کیا بنتا ہوگا آپ سوچ سکتے ہیں۔

زِندہ ذبح کی ہوئی مرغی اور مردہ مرغی کا گوشت تلنے اور پکنے کے بعد ایک جیسا ہو جاتا ہے کہ ان کی شناخت ہمارے خیال سے ممکن نہیں اور پھر بھوک کی شدت او ر گرما گرم ڈِش کے سامنے کسے خیال آتا ہے کہ ہم ذبح کی ہوئی مرغی کا گوشت کھا رہے ہیں یا مُردہ مرغی کی بنی ہوئی "چکن چِلّی" اْڑا رہے ہیں۔۔۔ اس دَور میں کاروبار کرنے والا بس کاروباری یعنی "تاجر" ہے۔ وہ اپنے منافع ہی کے تعلق سے فکر مند ہے اسے صرف اپنے منافع سے غرض ہے۔۔۔۔وہ دور گزرے بہت وقت نہیں بیتا جب مرغ کے پنجے پھینک دِیے جاتے تھے اب ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ مذبوح مرغ کی ہڈیاں ہی نہیں آنکھیں تک فروخت کی جاتی ہیں اور خریدنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔۔۔ خیر ہم نے تو صرف ایک اشارہ کیا ہے کہ
"صاحب! ذرا ہشیار کہ آپ باہر کیا کھا رہے ہیں؟"

۔۔۔ تمام تاجر ایسے ہیں؟۔۔۔یقیناً اس سوال کا جواب ہوگا: "۔۔۔ نہیں۔۔۔"
یعنی استثنیٰ تو ہر شعبے میں پایا جاتا ہے مگر جب برائی کثرت اختیارکر لے تواستثنیٰ بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔
تو بھائی! خیال رہے کہ آپ کیا کھا رہے ہیں۔؟

چلتے چلتے ایک خبر یہ بھی ہے: (تفصیلی مضمون آئندہ کسی اور وقت)
وہ خبر یہ ہے کہ "اب لاہور(پاکستان ) میں صرف مردہ جانوروں کا گوشت ہی فروخت نہیں ہو رہا ہے بلکہ زندہ گدھے اور کتے بھی بکرے اور بچھڑے کے گوشت کے نام پر بک رہے ہیں۔"

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Check the meat before eat. Article: Nadeem Siddiqui

1 تبصرہ:

  1. عمدہ مضمون ہے۔ یہ تو حقیقت کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے نا جانے کیا کیا کھا جاتے ہیں۔ فیس بک پر کسی کی تنقید پڑھی تھی کہ ہمیں کیا پتا تھا کہ اب کھوتے کھانے پڑے گے۔ یا گدھے کا گوشت۔ اب تو دوست احباب صرف یہی نصیحت کرتے ملتے ہیں گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ حالاں کہ یہی غلط کھانا وجہ سے آئے دین ہم پریشانی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہمیں کھانا کیا یہ ضرور غور کرنا چاہیے۔ آج تو حالت یہ ہے کہ کسی غیر کا لقمہ حلق سے اترا اور اس کے حق میں مدح سرائی شروع ہو گئی۔

    جواب دیںحذف کریں