اب تو گویا اس طرح کے متنازعہ بیانات کا ایک تانتا لگا ہوا ہے، بی جے پی لیڈران بے مہار جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں زہر افشانی کرتے ہیں اور جمہوریت کا دم بھرنے والے اس پر واک آؤٹ کرکے ہی رہ جاتے ہیں۔ان کی مثال اس بندر کی سی ہے" جو ایک جنگل کا راجا بنا دیا گیا تھا، اس کے دور حکومت میں کسی جانور کا بچہ گُم ہو گیا تو اس کی ماں اُس بادشاہ کے پاس آئی اور اپنے بچہ کی سلامتی اور واپسی کی بادشاہ سے درخواست کی۔ بندر نے سارے معاملے کو غور سے سنا اور پھر ایک درخت سے دوسرے درخت پر کودنے پھاندنے لگا۔ جب پوچھا گیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں، تو اس نے متانت کے ساتھ جواب دیا؛ تیرےبچے کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر میری تگ و دو میں کوئی کمی ہو تو بوکہو۔" افسوس کہ ان سیاست دانوں کو بھی نہ کسی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی سالمیت اور یک جہتی کی، ورنہ وہ جو منہ سے بولتے ہیں ایک بار اسے عقل کی میزان میں ضرور تولتے۔ ویسے ہمیں شبہ ہے کہ وہ عقل کی میزان میں تول کر ہی یہ سب بولتے ہوں گے اور اس طرح کی بیان بازی سے ان کا مقصد یوں طوفان کھڑا کرنا ہی ہوگا۔
چند مہینوں پہلے بی جے پی نے جو اقتدار حاصل کیا ہے اس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تو پوت کے پاؤں گویا کہ پالنے میں ہی ہیں لیکن مستقبل کے تمام آثارابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ بابری مسجد معاملہ کو ہوا دینا،لاؤڈ اسپیکر میں اذان پر پابندی کی مانگ کرنا، لو جہاد کا شوشا چھوڑنا، مہاراشٹر جیسی ریاست میں بڑے جانور کے ذبیحہ پر پابندی کی مانگ کرنا اور اب مسجد کے وقار و اہمیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرنا۔۔۔یہ سب کچھ یوں ہی نہیں۔ہم سوامی جی سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ عبادت گاہوں سے متعلق یہ فرمان صرف مسلمانوں اور مسجدوں کے حق میں جاری کیا جا رہا ہے یا دیگر مذاہب اور ان کی عبادت گاہیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں؟ یعنی کیا مندر، مسجد، گرجا گھر اور گرو دوارے سب ہی کو آپ ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں یا ان میں کسی امتیاز کے قائل ہیں، اگر ہیں تو یہ دوہرا معیار آخر کب تک باقی رکھا جائے گا۔اگر نہیں تو رام مندر والا معاملہ تو آپ کی رو سے گویا بالکل حل ہی ہو گیا اور آپ اس جگہ کو چھوڑکر پورے ایودھیا بلکہ پورے ملک میں جہاں چاہیں رام مندر تعمیر کر سکتے ہیں۔اب آپ یا تو رام مندر کی اسی جگہ تعمیر سے دست بردار ہوں اور برملا یہ اعتراف کریں کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ محض ایک عمارت ہے یا اس استثنا سے باز آئیں۔ اس طرح ملک کے عوام کو فریب دینے کی کوشش ہرگز نہ کریں کیوں کہ اب ہندوستان کے عوام اتنا تو سمجھنے ہی لگے ہیںکہ یہ سب سیاست دانوں کے سیاسی کرتب سے زیادہ کچھ نہیںاور ان لوگوں کو ملک اور عوام دونوں میں سے کسی کی فکر نہیں۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ مسجد صرف ایک عمارت ہوتی ہے، اسے جب چاہیں توڑ سکتے ہیں تو آپ کی معلومات کے لیے بتا دیںکہ مسجد کے لیے تو عمارت ہونا ضروری ہی نہیں۔ وہ زمین جس پر بصورت مسجد عمارت تعمیر نہ ہو ئی ہو، یا عمارت تو ہو لیکن کسی سبب منہدم کر دی گئی ہو، ایسی صورت میں بھی وہ جگہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی رہتی ہے۔(بحر الرائق: 5؍248)
پھر آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ آخر مسجد کیسے بنتی ہے تو سنیے ؛جب کہ مسجد بنانے کا ارادہ کیا جائے اور زبانی وقف کرکے اس میں لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جائے اور وہاں اذان و جماعت ہونے لگے اور مالک اپنی مِلک سے اس مسجد کو راستہ وغیرہ سے ممیز کر دے، تو وہ بلا اتفاق شرعی مسجد بن جاتی ہے، اگرچہ تحریرِ وقف نامہ کی نوبت نہ آئی ہو۔وہاں نماز دوسری مسجدوں کی طرح بلا تامل درست ہے، واقف کے ورثہ کو بھی اس میں کوئی ایسا تصرف درست نہیں، جو وقف کے خلاف ہو اور بطور وراثت مِلک کا دعوی کرنا بھی غلط ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ جدید: 14؍392، بتصرف)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
"مسجد بنانے، اس میں حاضر ہونے اور وہاں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ مسجد اسلام کا شعار ہے"۔(حجۃ اللہ البالغہ: 1؍478مترجم)
ہاں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ آج کل ہماری مسجدوں میں جن اماموں اور مؤذنوں کی تقرری ہو رہی ہے ان میں سے اکثر سند یافتہ تو ہیں، لیکن تعلیم یافتہ کم۔ نتیجۃً وہ مسجد کے کردار کو محدود کرنے میں اہم رول ادا کررہے ہیں اور اتحاد کی بجائے انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ ان کے بیانات میں ایسی بے سند باتوں کی بھرمار ہوتی ہے، جس کے نتائجِ بدہمہ وقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس جانب ذمہ داران اور اہل فہم و شعور کو ضرور توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ آج ہمارے پاس ہر علاقے میں وسیع، پر شکوہ اور عالی شان مسجدیں موجود ہیں، جنھیں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے بنایا گیا ہے، لیکن ان میں عوام کے لیے پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ کسی طرح کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر اوقات تو ان میں تالے پڑے رہتے ہیںاور جس مختصر وقت کے یہ مقدس در کھولا جاتا ہے، اس میں بھی چند رواجی امور ہی انجام دیے جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مسجدوں کا جو ہمہ گیر کردار رہا، ہم نے اسے یکسر بھلا دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری عبادت، تعلی، تربیت، تہذیب و ثقافت کے مرکز کو محض ایک عمارت سمجھا جا رہا ہے۔
مسجد کے فضائل میں جو احادیث مروی ہیں، وہ بہت ہیں۔ بعض حدیثوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
(1) حضرت ابو ذر غفاریؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹے! بہت بہتر ہے کہ مسجد تمھارا گھر ہو[یعنی تمھارا مسجد میں کثرت سے آنا جانا ہو]، کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "مسجدیں متقیوں کا گھر ہیں۔ سو مسجد جس کا گھر ہو، اللہ تعالیٰ اُس کو راحت ، رحمت اور پُل صراط پر سے [آسانی کے ساتھ] گذرنے کا ضامن ہوتا ہے۔"
(2) حضرت عبد اللہ مغفلؓ بیان کرتے ہیں: "ہم سے ارشاد فرمایا جاتا تھا کہ شیطان سے بچنے کے لیے مضبوط ترین قلعہ مسجد ہے۔"
(3) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص نماز پڑھنے یا ذکر اللہ کے لیے مسجد میں جگہ پکڑتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف مہربانی و رحمت کی نظر فرماتے ہیں، جس طرح باہر گئے ہوئے کسی شخص کو اُس کے گھر والے اُس وقت بہت پیار و محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب وہ لوٹ کر گھر آتا ہے۔"
(4) حضر ت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:" شہروں[یعنی زمین] میں اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جگہ وہاں کی مسجدیں ہیں اور سب سے نا پسندیدہ جگہیں وہاں کے بازار ہیں۔"
(5) حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ" مسجدیں روئے زمین پر اللہ کا گھر ہیں اور جس کی زیارت کو کوئی آتا ہے تو وہ آنے والے کا اکرام کرنا ضروری سمجھتا ہے یعنی جو شخص مسجد میں آتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے والا ہوتا ہے، پس اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والوں کا اکرام فرماتا ہے۔"(مظاہر حق جدید: 1؍586-602بتغیر)
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری |
Refutation of Subramanian Swamy's statement about Mosque. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں