اب یہ کیا کریں گے؟ میں نے اپنے میزبان سے سوال کیا۔ آج ہفتے کی شام ہے ، ہماری یہ نوجوان نسل 6دن اسی وقت کے انتظار میں ہوتی ہے ۔ جونہی غروب آفتاب قریب آتا ہے ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شہر کی سڑکوں پر ہجوم کرآتے ہیں ۔ ٹریفک رک جاتا ہے ۔ یہ شہر کا مرکزی چوک ہے اور ان سب کا رخ ادھر ہی ہوتا ہے ۔ ایک عارضی اسٹیج بنایاجاتا ہے جس پر سازندے چڑھ جاتے ہیں اور پھر رات گئے تک رقص و موسیقی کا راج رہتا ہے ۔ میں نے پھر نیچے نظر دوڑائی ، ہزاروں سروں کا کھیت تھا ۔ ہر رنگ میں رنگے تھے۔ لڑکے اور لڑکیاں چیخ رہے تھے۔ اسٹیج کے چاروں طرف یوں رقص و حرکت میں تھے جیسے کسی فصل کی بالیاں ہوا چلنے پر متحرک ہوں ۔ چوک کے ارد گرد کی سڑکیں2منزلہ تھیں ، تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔
صرف چند گھنٹے قبل ایک ریستوران میں دوپہر کا کھانا کھاتے وقت مجھے باہر ایک چھوٹے سے پارک میں ایک درجن کے قریب بوڑھے نظر آئے تھے۔ پارک میں بنے ایک فرش پر شطرنج کی بساط بنائی گئیت ھی اور اس میں لکڑی کے بڑے بڑے مہرے رکھ دئیے گئے تھے۔ بوڑھے آہستہ آہستہ ان مہروں کو بساط پر حرکت دیتے کھیل میں مصروف تھے ۔ مجھے انہی دلچسپی سے دیکھتے پایا تو پروفیسر نوٹسون بولے تھے: یہ ہمارے اولڈ ہوم کے لوگ ہیں۔ ہفتے میں6دن اپنی عمارتوں میں بند رہتے ہیں لیکن پھر7 ویں دن انہیں چند گھنٹوں کی آزادی ملتی ہے تو اس پارک کا رخ کرتے ہیں۔ شطرنج کھیلتے ہیں ،مہرے ادھر ادھر رکھنے سے ان کی کسرت بھی ہوجاتی ہے ۔ اس طرح کی شطرنج کی بساطیں شہر میں درجنوں مقامات پر بنی ہیں ۔ اور پھر ہوٹل کی بالکونی میں سے اسٹاک ہوم کی نوجوان مخمور نسل کو دیوانگی کی حدیں چھوٹے دیکھ کرمجھے وہ بوڑھے یاد آگئے اور میں نے سوال کر ڈالا: پروفیسر! اس وقت وہ بوڑھے کہاں ہوں گے جو ودپہر کے وقت شطفرنج سے دل بہلا رہے تھے ؟ میرے میزبان نے ایک لحظے کیلئے توقف کیا اور پھر ادای سے بولا: ہمارے معاشرے میں یہ المیہ سر اٹھا رہا ہے۔ ہفتے کے غروب آفتاب کے بعد ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس قدر بے قابو ہوجاتے ہیں کہ شہر پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ پولیس تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے ۔ یہ لوگ اپنی حرکات سے سڑکیں ویران کردیتے ہیں۔دکانیں بند کراتے ہیں ، بازاروں میں پھیل جاتے ہیں اور اپنی بات نہ مانے جانے پر غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں۔ وہ بوڑھے جو ہم نے دوپہر کو لکڑی کے مہروں سے کھیلتے دیکھے تھے اب اپنے اپنے اولڈ ہوم میں خاموشی سے دبکے پڑے ہوں گے ۔ وہ اس وقت باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اگر ایسا کبھی ہوتا بھی ہے تو پھر اس ضعیف کی زندگی اور سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہفتے کی رات اسٹاک ہوم اور دوسرے بڑے شہروں پر دیوانگی راج کرتی ہے ۔
ایک جہاندیدہ استاد کے لئے یقیناًیہ انتہائی الم ناک بات تھی کہ وہ ا پنے معاشرے کے نازک پہلو سے یوں پردہ اٹھائے ۔ میں نے اس کی آواز میں رنج کی لہریں محسوس کرلی تھیں۔
صرف چند ماہ قبل شاہ فیصل فاؤنڈیشن کی دعوت پر پروفیسر بنگٹ نوٹسون ریاض میں تھے۔ وہاں انہوں نے انتہائی شستہ عربی میں ’’مغرب پر عالم اسلام کے احسانات‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا تھا ۔ انہوں نے اسلام پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے قرون وسطیٰ کے مسلمان معاشرے اور پھر ان برسوں کے دوران عالم اسلام میں ہونے والی سائنسی تحقیق پر روشنی ڈالی تھی۔ ان کی فصاحت و بلاغت نے سامعین کے دل جیت لئے تھے۔ اپنے اسی دورے میں پروفیسر نوٹسون جامعہ الملک سعود اور جامعہ الامام بھی گئے تھے ۔ اور اساتذہ و طلبہ سے مفصل بات چیت کی تھی ۔
میں نے ایک بار پھر سرگل پلازہ چوک میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتی نوجوان نسل کے سمندر پر نظر ڈالی اور اپنے میزبان سے سوال کردیا: آپ اپنے ریاض میں قیام کے دوران وہاں جامعات بھی گئے ۔ طلبہ سے بھی آپ کی ملاقاتیں رہیں ۔ کیسا لگا آپ کو ماحول وہاں کا؟ اور سعودی عرب کا معاشرہ کیسا لگا؟ ان کا جواب فوراً آیا: مثالی! وہاں جرائم کی شرح ناقابل یقین حد تک کم ہے ۔ مجھے وہاں کا معاشرہ بہت پسند آیا ۔ طلبہ حلیم الطبع اور سمجھدار ہیں اور میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اسلامی شرعی نظام رائج ہے جو معاشرے کے ہر رکن کو اس کی حدود میں رکھتا ہے ۔ وہ چند لمحوں کے لئے رکے اور پھر بولے : میں نے ایک عجیب بات محسوس کی ہے وہ یہ کہ ہمارے شعبے میں جو طلباء اور طالبا ت اورئنٹل اسٹیڈیذ کا مضمون اپنے لئے منتخب کرتے ہیں وہ جب اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے رویوں اور عادات میں ایک انتہائی مثبت تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ وہ زیادہ مطالعہ کے عادی ہوجاتے ہیں ۔
سویڈن کی وزیر خارجہ مارگٹ والسٹرام کے بیان نے عالم اسلام میں ہنگامہ کھڑا کردیا ہے ۔مملکت نے وہاں سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا ہے ۔ مارگٹ والسٹرام ایک بہت بڑی غلطی کی مرتکب ہوئی ہیں ۔ بیان دیننے سے قبل وہ اگر مالمو یونیورسٹی کے اسکول آف اورئنٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز کے چیئرمین بنگٹ نوٹسون سے مشورہ کرتیں اور ان سے سعودی اسلامی معاشرے کے محاسن جان جاتیں یا پھر ریاض کی کسی جامعہ میں اساتذہ اور طلباء و طالبات سے ملاقات کرلیتیں یا پھر کسی بھی سعودی شہر میں آخر ہفتہ کے سکون کا مشاہدہ کرتیں تو ایسے الفاظ ادا نہ کرتیں جو انہوں نے کئے ۔
دین حنیف کے قوانین پر قائم معاشرے پر دئیے گئے ان کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے ان بین المذاہب غلط فہمیوں میں اضافہ کردیا ہے جنہیں دور کرنے کے لئے سعودی حکومت برسوں سے سرتو ڑ کوششیں کرتی آرہی ہے ۔
جاوید اقبال |
Saudi society and Swedish statement. Column: Jawed Iqbal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں