اسی دوران آئی این ایس کی اطلاع کے بموجب مدھو اور سہا علی خان جیسی فلمی شخصیتوں نے16دسمبر2012کو دہلی میں پیش آئی عصمت ریزی واقعہ پر مبنی ڈاکیو منٹری فلم’’انڈیاز ڈاٹر‘‘ کی ٹیلی کاسٹ پر امتناع کے مناسب ہونے پر آج بھی سوالات اٹھائے ۔ سنٹر بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن (سی بی ایف سی) کی سابق چیرپرسن شرمیلا ٹیگور کی دختر و اداکارہ سہا علی خان نے ٹوئٹر پر کہا کہ’’لیزلی اڈوین‘‘ کی بنائی ہوئی ڈاکیو منٹری فلم انڈیاز ڈاٹر دیکھیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں عصمت ریزی کے اتنے زیادہ واقعات کیوں پیش آتے ہیں ۔ اس کے بعد ہی ہم کوئی حل نکال سکتے ہیں ۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ برطانوی فلم ساز لیز لی اڈوین کی ڈاکیو منٹری فلم میں عصمت ریزی کے مجرم مکیش کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جسے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ مکیش اس بس کا ڈرائیور تھا جس میں16دسمبر2012کی رات ایک تئیس سالہ طالبہ کے ساتھ درندگی کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں بعد ازاں وہ فوت ہوگئی تھی ۔ مرکزی حکومت نے کل اس ڈاکیو منٹری کے سلسلہ میں بی بی سی کو قانونی نوٹس دی ہے۔ جسے کسی شخص نے یو ٹیوپ پر بھی اپ لوڈ کیا ہے ۔ بعض افراد عصمت ریزی کے مجرم کو ڈاکیو منٹری میں جگہ دینے پر سخت تنقید کررہے ہیں ۔ جب کہ دیگر ننگی سچائی کو پیش کرنے پر اس کی ستائش کررہے ہیں ۔، اداکار و فلم ساز لکشمی رام کرشنن نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آخر ہم ایسی فلم پر امتناع عائد کرتے ہوئے کیا چھپانے کی کوشش کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس کی وجہ سے نظم وضبط درہم برہم ہوتا ہے تو ہونے دیںَ۔ جب عوام کو یہ پتہ چلے گا کہ لڑکی کے ساتھ درحقیقت کیا ہوا تھا، تبھی بحیثیت ملک ہم خواتین کی قدروقیمت سمجھ سکیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ڈاکیو منٹری فلم مستقبل میں ایسے جرائم کے اعادہ کی روک تھام نہ کرسکیں لیکن اس کی وجہ سے ہمیں اس شرمناک واقعہ کو سمجھنے میں مدد تو ملے گی ۔ فلم بنانے کی دینے کی وجوہات پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت فحش ویب سائٹس پر امتناع عائد کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتی لیکن اجازت دینے کے بعد ایسی ڈاکیو منٹری فلم کی نمائش پر اعتراض کرتی ہے ۔ ہم سب کو معلومات حاصل کرنے کا حق ہے اور کوئی بھی ہمیں اس تک رسائی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔
نئی دہلی سے یو این آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب بار کونسل آف انڈیا کے عہدیدار راجندر سنگھ رانا اور کئی دیگر وکلاء نے آج نربھئے کیس کے ملزم کے وکلائے صفائی ایم ایل شرما اور اے کے سنگھ کی جانب سے بی بی سی کی دستاویزی فلم میں کئے گئے ریمارکس پر شدید ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ برطانوی فلم ساز لیز لی اوڈون نے یہ دستاویزی فلم تیار کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں ایک اجلاس منعقد کرتے ہوئے ان دو وکلاء کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنہوں نے ہندوستان کی دختر نامی دستاویزی فلم میں نہ صرف متاثرہ لڑکی بلکہ خواتین کے خلاف نازیبا ریمارکس کئے ہین۔ تاہم دونوں وکلاء نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کے ریمارکس خواتین کے لئے ہتک آمیز تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ خواتین کو اپنے تحفظ کے لئے کیا احتیاطی اقدامات کرنا چاہئے ۔ بارکونسل آف انڈیا کے صدر نشین مناکمار مسارا نے کہا کہ ہولی کے تہوار کی وجہ سے اجلاس آج شام یا کل معنقد ہوگا ۔ جس میں دونوں وکلاء کے خلاف کارروائی پر غور ہوگا۔ متنازعہ دستاویزی فلم پر پارلیمنٹ کے ایوان میں چہار شنبہ کو زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی تھی حکومت نے کل اس دستاویزی فلم کو نشر کرنے پر بی بی سی آئی کے خلاف قانونی نوٹس جاری کردیا اور اس فلم کو ہندوستان میں دکھانے پر پابندی لگادی۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کرے گی کہ کس طرح بی بی سی کی فلمساز تہاڑ جیل پہنچی اور اصل ملزم مکیش سنگھ کا انٹر ویو لیا ۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ فلمساز نے جیل حکام کے شرائط اور ضوابط کی بھی خلاف ورزی کی تاہم اڈون نے لندن میں کہا کہ انہوں نے معاہدہ کی جو جیل عہدیداروں کے ساتھ ہوا تھا کوئی خلاف ورزی نہیں کی ۔ ہندوستان کی وزارت داخلہ نے جو قانونی کارروائی کی ہے اس کے لئے کوئی قانونی یا عملی بنیاد نہیں ہے ۔
Revoke ban on BBC documentary: Editors Guild of India
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں