پاکستانی فوج حکمت عملی کے حوالے سے بڑا عالمی چیلنج - سی آئی اے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-15

پاکستانی فوج حکمت عملی کے حوالے سے بڑا عالمی چیلنج - سی آئی اے

امریکی سنٹر انٹلی جنس ایجنسی( سی آئی اے)نے پاکستان، عراق ، شام اور شمالی کوریا کو عالمی دھماکہ خیز ممالک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی سازوں کے لئے ایسے تمام ممالک عام حکمت عملی اور فوجی حکمت عملی کے حوالہ سے سب سے بڑا چیالنج ہیں۔ سی آئی اے ڈائرکٹر جان برینن نے عراق ، شام، یمن، لیبیا، افغانستان، شمالی کوریا اور پاکستان کے حوالہ سے بتایا کہ عالمی سطح پر ایسے ممالک میں ترقی پذیر پالیسی سازوں کے لئے درد سر بن رہی ہے ۔ان دھماکہ خیز اور حساس علاقوں کی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے ہمارے تجزیہ نگار عالمی استحکام کے رجحانات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ سی آئی اے ڈائرکٹر کی جانب سے ایسے بیانات شاذونادر ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے گزشتہ سال پشاور کے ایک فوجی اسکول پر حملہ کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے قتل عام اور153افراد کی ہلاکت کے حوالہ سے کہا کہ دسمبر میں مسلح افراد نے پاکستان کے ایک اسکول پر اندھا دھند فائرنگ کی ۔ پاکستانی طالبان کے جنگی معیارات کے مطابق بھی یہ حملہ انتہائی صدمہ انگیز ہے جس سے مسلسل اخلاقی گراوٹ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چندبرسوں سے ہم نے ایسے حالات پر نظر رکھی ہے جو انتہائی پریشان کن رجحانات کا پتہ دیتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کا ارتکاز بھی بکھرتا جارہا ہے جس کے سبب کسی ایک پر توجہ مرکوز کرنا اور اس کا تعاقب محال ہورہا ہے ۔ برینن نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال بھی جھڑپوں اور لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور دنیا کے تمام ممالک اس سے متاثر ہوتے رہے۔ کونسل آف فارن ریلیشنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے ہم کہیں نہ کہیں عدم استحکام سے دوچار ہورہے ہیں جو1960کی دہائی کی شرح سے بہت زیادہ ہے ۔ عالمی عوام ایسے رجحانات کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔ عدم استحکام کے نتیجہ میں انسانی بحران پیدا ہوتا ہے ، رفوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ، ہتھیاروں کی خرید و فروخت میں شدت آتی ہے اور سرحدوں کی دونوں جانب کے جنگجو مزید متحرک اور سرگرم نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی اے ایسے چیالنجس سے مقابلہ کرتی ہے اور اسی دوران ہم عالمی انٹلیجنس خدمات کے ساتھ روابط سے استفادہ کرتے ہیں ۔ یہ ہماری کوششوں کا ایک انتہائی اہم پہلو ہوتا ہے جو نمایاں نہیں ہوتا۔ سی آئی اے ڈائرکٹر جان برنن نے مزید کہا کہ داعش کو فینانس اور اسلحہ کی کوئی کمی نہیں ہے لہذا اسے راتوں رات شکست سے دوچار کرنا ناممکن ہے ۔ داعش کو شکست دینے کے لئے ہمیں طویل جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ داعش میں شامل جنگجو انتہائی جانباز اور جنگ کے مسائل جھیلنے کے عادی ہیں ۔ اگر اس پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی تو وہ صرف شام اور عراق کے لئے ہی نہیں بلکہ خطہ کے وسیع تر علاقوں کے علاوہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک پر بھی حملے کرنے کا اہل ہوجائے گا ۔۔ گزشتہ چند برسوں کے تجربات کی روشنی میں ہم یہ کہنے کے موقف میں ہیں کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے صبر اور عزم و استقلال ضروری ہے ۔ دنیا کی توجہ شام او ر عراق کے علاوہ فی الحال کسی اور ملک اور خطہ پر مرکوز نہیں جہاں داعش نے ناقابل بیان وحشیانہ کارروائیں جاری کررکھی ہیں اور مقامی آبادی کو تہ تیغ کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں۔ دہشت گردی سے مقابلہ پیچیدہ اور دشوار صرف اس وجہ سے ہے کہ اسے صرف نظریہ کے کے سبب ہوا نہیں مل رہی ہے بلکہ جو طریقہ کار اور حکمت عملی وہ آزما رہے ہیں اس میں ان کی کامیابی یقینی ہے ۔ ان کی کامیابی میں عصری مواصلاتی نظام بھی اہم رول ادا کررہا ہے ۔ نئی ٹکنالوجی سے داعش کو اپنی کارروائیوں کو مربوط رکھنے میں آسانی حاصل ہورہی ہے اور وہ نئی بھرتیاں ایک مخصوص پروپیگنڈہ کے تحت کررہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی انہیں عالمی ہمدردی بھی حاصل ہورہی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے تمام خطرات در حقیقت اس سبب بھی ہیں کہ ہماری عصری دنیا پوری طرح سے مربوط ہوچکی ہے ۔ دنیا کے کسی بھی گوشہ می کوئی واقعہ ہو تو اس سے ہزاروں میل دور اس کا رد عمل فوری طورپر ظاہر ہونے لگتا ہے اب حالات ایسے ہیں کہ ایک واحد انتہا پسند بھی گھر بیٹھے ہی کسی بھی نشانہ پر ضرب لگا سکتا ہے اور اسے گھر سے باہر جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ برینن نے صاف الفاظ میں کہا کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک القاعدہ کے صفایا میں بڑی حد تک کامیاب ضرور ہوئے ہیں تاہم اب نئے دہشت گرد گروپس سر اٹھا رہے ہیں ۔

Pak among global hotspots that poses tactical challenges: CIA

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں