PPP spent billions to win elections: Report
پاکستان میں سابق حکمراں پارٹی(پی پی پی) نے2013کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ترقیاتی پراجکٹس کے لئے قانون سازوں کو ٹیکس دہندگان کی رقم سے125بلین روپئے دیے تھے ۔ میڈیا نے یہ اطلاع دیتے ہوئے وضاحت کی کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس کے باوجود رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور تائید حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ ان رقومات کا ناجائز اور غلط استعمال بھی ہوا ۔ پی پی پی کے شریک صدر آصف علی زرداری نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کے ذریعہ ترقیاتی پراجکٹس پر ان رقومات کو بے تحاشہ مصرف میں لایا یہ سلسلہ2008-13کی میعاد کے دوران بلا رکاوٹ جاری رہی۔ ایکسپریس ٹریبون نے یہ اطلاع دیتے ہوئے وضاحت کی کہ پی پی پی نے ان پانچ برسوں کے دوران جو رقم ترقیاتی پراجکٹس پر خرچ کی وہ(1995-2008)کے مجموعی رقم سے33.8بلین روپے زیادہ ہے ۔ در حقیقت23برسوں میں تمام ارکان پارلیمنٹ نے بھی ترقیاتی پراجکٹس پر اتنی خطیر رقم خرچ نہیں کی ۔ ایکسپریس ٹریبون نے سرکاری دستاویزات اور پس منظر انٹر ویو کے مطالعہ اور مکمل جائزہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ۔ ایکسپریس ٹریبون نے بتایا کہ اس کے باوجود پارٹی اپنے مقصد میں ناکام رہی اور اس کی تمام کوششیں لا حاصل ثابت ہوئیں جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اس کی نہایت تجربہ کار60فیصد ارکان پارلیمنٹ ناکام رہے ۔ سرکاری دستاویزات سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ اخراجات کا صحیح ریکارڈ رکھنے میں زبردست لاپرواہی اور بے نیازی کا مظاہرہ ہوا ہے ۔ اگر راست غیبن نہ بھی ہوا تو بھی رقومات کو بے جا مصارف میں ضرور لایا گیا ۔ کسی نہ کسی مرحلہ میں کسی نہ کسی عنوان سے اپنے حلقوں میں5212ترقیاتی پراجکٹس شروع کئے جنہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری حاصل تھی ۔2008-2013کے دوران گیلانی کے بعد ان کے جانشین راجہ پرویز اشرف نے ان ترقیاتی پراجکٹس کی تائید کی۔ دونوں کی جانب سے منظورہ مجموعی رقم125بلین روپے تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ تاہم20بلین روپیوں پر مشتمل1930پراجکٹس کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی اس کا پتہ چلتا ہے ۔ بیشتر معاملات میں کنٹراکٹس دیتے وقت سرکاری ضوابط اور اصولوں کو زیر خاطر نہ رکھا گیا جس کے سبب کرپشن کے الزامات عائد کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ۔ جن پراجکٹس پر کام شروع ہو ا ان میں سے1823(تقریباً35فیصد) نامکمل رہے ۔ جب کہ بعض پراجکٹس میں تو صرف9فیصد پیشرفت ہوئی ۔ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے علاوہ آڈیٹر جنرل نے بھی330پراجکٹس کی خصوصی آڈیٹنگ کی اور یہ کام بھی پاکستان سپریم کورٹ کے احکامات پر ہوا ۔ حکومت کا اعلیٰ فینانس نگراں کار ادارہ بھی صرف4930(37فیصد) پراجکٹس کی آڈیٹنگ کرسکا۔ پراجکٹس کی تقسیم سے عکاستی ہوتی ہے کہ پی پی پی قیادت ، پنجاب میں اپنا قدم جمائے رکھنے کے لئے ترقیاتی فنڈ استعمال کرنے بے چین اور اس پر آمادہ تھی ۔125بلین میں سے پنجاب کے حصہ میں59.5بلین اور سندھ کے حصہ میں31بلین روپے آئے جب کہ خیبر پختونخوا صوبہ کو19بلین، بلو چستان کو8.7بلین ، قبائیلی علاقتوں کو7.3بلین اور اسلام آباد کو پانچ سو ملین روپے ملے ۔ عدالت عظمیٰ نے2013کے انتخابات سے قبل ایسے تمام پراجکٹس پر اخراجات جاری رکھنے پر امتناع عائد کردیا تھا تاہم 696پراجکٹس پر احکامات جاری ہونے کے بعد بھی کام جاری رہا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں