مولانا محمد عبد العزیز کا سانحہ ارتحال - ان کی زندگی قرآن سے تعبیر تھی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-17

مولانا محمد عبد العزیز کا سانحہ ارتحال - ان کی زندگی قرآن سے تعبیر تھی

maulana-abdul-aziz
آج مولانا محمد عبد العزیز صاحب کی اس دارفانی سے رحلت کی خبر آئی ہے۔
نماز جنازہ وادی ہدی حیدرآباد سے بوقت ظہر اٹھے گا۔ آپ نے عمر عزیز کی 89 بہاریں دیکھیں ۔ آپ کی رحلت کے ساتھ برصغیر کا مسلمان اپنے ایک ایسے داعی اور سپوت سے محروم ہوگیا ہے جس نے تقسیم ہند کے بعد انہیں جگانے، جھنجھوڑنے اور رہنمائی میں اہم کردا ادا کیا تھا۔
وادی ہدی کی آپ کے ساتھ ایک اہم نسبت ہے ، ۱۹۸۱ء میں اسی خطہ ارضی پر جماعت اسلامی ہند کا کل ہند اجتماع منعقد ہوا تھا،اس وقت مرحوم حلقہ آندھرا پردیش کے امیر اور ناظم اجتماع تھے ، اس میں آپ کواپنی خدادادا صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ ملا تھا ، غالبا یہ جماعت کا ایسا آخری اجتماع تھا جس میں تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے پر آشوب حالات میں جماعت کو قائم کرکے اس کے خدوخال کا تعیین کرنے اورنئے حالات میں جماعت کے جھنڈے تلے قوم و ملت کی رہنمانی کرنے والے اولین رہنماؤں کا قافلہ آخر ی مرتبہ یکجا ہوسکا تھا، کیونکہ اس کے بعد سب یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوگئے ، ان شخصیات میں مولانا محمد ابو اللیث ندوی ، مولانا سید احمد عروج قادری ، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا سید حامد علی ، مولانا سید حامد حسین ، م نسیم جیسے عظیم عالم و دانشورقابل ذکر ہیں، اس وقت امیر جماعت کے منصب پر مولانا محمد یوسف صاحب جیسے بزرگ فائز تھے ، جو نہ صرف اعلی سیرت کا نمونہ تھے ، بلکہ ان کی صورت پر بھی نور برستا تھا ، اجتماع کے انتظام و انصرام کی خوش اسلوبی کا یہ عالم تھا کہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تعاون سے بروقت تقاریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ سننے کے لئے خود کار آلہ نصب کیا گیا تھا ، معنوی لحاظ سے بھی اس اجتماع کی بڑی اہمیت تھی ، اندراگاندھی دور حکومت میں ۱۹۷۵ء۔۱۹۷۷ء کے اکیس ماہ کے ایمرجنسی کے تاریک دور میں جب جماعت پر پابندی لگی تھی اور اس کے جملہ ارکان پابند سلاسل کردئے گئے تھے ، تو آزادی کی سانس لینے اور اپنے گھر کو از سرنو ترتیب دینے کے بعد یہ جماعت کا اولین کل ہند اجتماع تھا۔
محمد عبد العزیز صاحب کی شخصیت جوش و جذبہ ، حوصلہ و ولولہ سے تعبیر تھی ، آپ کا تعلق کھمم سے تھا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے ، لیکن بعد میں جماعت کی دعوت سے متاثر ہوکر خود کو اس کے مشن کے فروغ کے لئے وقف کر دیاور تادم آخر اسی کے ہورہے ۔
سنہ ساٹھ کی دہائی میں ہماری نسل نے جب آنکھ کھولی تو مولانا عبد العزیز صاحب اور ان کے رفقاء مولانا سراج الحسن صاحب اور مولانا عبد الرزاق لطیفی صاحب کا جماعت کے حلقے میں طوطی بولتا تھا ، ان کی خون کو گرمانے اور دلوں میں حوصلوں کو جگانے والی تقریروں کی دھوم تھی ، ان تینوں کے پیر و مرشد تھے مولانا سید حامد حسین صاحب ، اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ، اس زمانے میں جب کہ مادر وطن فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں جل رہا تھااور ہندوستانی مسلمان پژمردگی اور مایوسی کے ماحول میں جی رہا تھا ، اللہ کے ایک شیرتھے جو ملک کا چپہ چپہ گھوم کر ملت کی ہمت بڑھا رہے تھے اور ملت کی رہنمائی کا فرض ادا کررہے تھے ، افسوس کہ سید حامد حسین کو لوگوں نے جلد بھلادیا ، اس دور کی ان کی تقریریں ہوا ؤوں میں بکھر کر رہ گئیں۔
اس زمانے میں بھٹکل کے عبد الغنی محتشم صاحب کا وجے واڑہ میں کاروبار شروع ہوا تھا ، یہی شہر اس وقت آندھرا میں جماعت کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، عبد العزیز صاحب اور لطیفی صاحب دونوں سگے بھائیوں جیسے تعلقات رکھتے تھے ، اس ناطے ان دونوں کا عبد الغنی صاحب کے توسط سے بھٹکل والوں سے ربط و تعلق قائم ہوا ۔ دوسرے اسباب کے علاوہ یہ بھی بھٹکل میں جماعت کی دعوت اور ان شخصیات کے تعارف کا ذریعہ بنا ۔
عبد العزیز صاحب کی ۱۹۶۲ء میں پہلے پہل بھٹکل آمد ہوئی تھی ، اس وقت کی تقاریر کی ریکارڈنگ اب بھی محفوظ ہے ، ان تقاریر میں قرآنی آیات کا استحضار خاص طور پر جھلکتا ہے ، موضوع کے لحاظ سے آیات قرآنی کا ایسا استحضار کم ہی نظر آتا ہے ، یہ مقرر کے قرآن سے تعلق اور اس پر تدبر کی نشاندہی کا غماز ہے۔ اردو زبان میں مقررین اور خطباء کی کوئی کمی نہیں ، لیکن اپنے موضوع کو دانت سے پکڑ کر اس کے معیارکو پست ہونے سے بچاتے ہوئے ، یکساں طور پر اپنی تقریر میں جوش اور جذبہ کی بلندیوں تک لے جاکر مجمع کو اپنی مٹھی میں رکھنے کی ایسی صلاحیت شاذ ونادر ہی نظر آتی ہے۔ پھر ۱۹۶۵ء میں جامع مسجد بھٹکل میں آپ کو اور مولانا سراج الحسن صاحب کے خطابات کو یک ساتھ سننا اور ان سے اثر لینا اب تک یاد ہے ۔
جماعت نے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو حلقہ ٹامل ناڈو کا اور لطیفی صاحب کو آندھرا کا امیر منتخب کیا تھا، ان دونوں حضرات کی امارت میں جماعت نے ان ریاستوں میں اس وقت بڑی پیش رفت کی ، جب ۱۹۷۰ء ۔۱۹۷۴ء میں اعلی تعلیم کے لئے ہمارا چنئی میں قیام رہا تو ٹریپلیکن روڈ پر کرائے کی دومنزلہ عمارت میں جماعت کا دفتر واقع تھا ، جہاں ہفتہ وار اجتماعات اور آپ کے درس قرآن ہوا کرتے تھے ، وقتا فوقتا ان میں حاضری کا موقعہ ملتا رہتا تھا، چنئی میں بھٹکل کے جناب شابندری پٹیل عبد الرحمن سائب اورآپ کے بھائیوں کاکاروبار تھا ، یہاں دربار لنگی کے دفتر میں مولانا کے ہفتہ وار درس قرآن ہوا کرتے تھے ، چنئی کو جماعت کی دعوت سے تاریخی تعلق رہا ہے ، پیرمبور میں جہاں اب جماعت کا دفترہے اس کے سامنے جمالیہ کالج کو لگ کر کبھی میدان ہوا کرتا تھا ، یہیں مولانا سید ابو الاعلی مودوی ؒ نے تقسیم ہند سے قبل اپنا آخری یاد گار خطاب دیاتھا ، جمالیہ سے یاد آیا ریڈینس کے اولین مدیر رؤوف پاشا مرحوم پنجگانہ نماز پڑھنے یہاں کی مسجد میں آیا کرتے تھے ۔
اسلامی لٹیریچر میں چنئی (مدراس) کو اپنے تاریخی خطبات کے لئے بھی یاد رکھا جاتا ہے ۔آج کا حال معلوم نہیں اس زمانے میں نیو کالج کے آنیکار عبد الشکور آڈیٹوریم میں سالانہ خطبات سیر ت ہوا کرتے تھے ۔ ان میں بھی وقتا فوقتا مرحوم کے بڑے ولولہ انگیز خطبات ہوا کرتے تھے ۔
عبد العزیز صاحب کی ۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء کو ہوئی تقریر کل کی بات لگتی ہے ، چنئی کے شولے محلے میں سیرت کے موضوع پر دوران تقریر شاہ فیصل کی شہادت کی خبر آئی تھی ، اس وقت آپ خود بھی روئے تھے اور مجمع کو بھی رلادیا تھا ۔
۱۹۷۴ء میں مولانا عبد الرزق لطیفی کی رحلت کے بعد آپ نے آندھر حلقہ کی امارت سنبھالی ۔ پھر مرکزدہلی میں آئے ۔ ۱۹۹۰ ء ۔ ۲۰۰۳ء کے دوران نائب امیر جماعت کی ذمہ داری پر فائز رہے۔
آپ ساٹھ کی دہائی اور ایمرجنسی کے زمانے میں سنت یوسفی کے دور سے بھی گذرے ، پہلے دور کے قید وبند نے آپ کی صحت پر بڑے برے اثرات چھوڑے تھے، جس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء میں عرصہ تک چنئی کے اسٹینلے اسپتال میں داخل رہے ، اس دوران ہمیں مسلسل ملتے رہنے کا موقعہ ملا۔ اس دوران آپ کے رویہ سے یہ بات سامنے آئی کہ آپ کا ذہن خالصۃ دعوتی تحریکی اور اصلاحی تھا، انہیں مناظرہ بازی اور اختلافات سے مناسبت نہیں تھی ، یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ غازی محمود دھرمپال کی کتاب( کفرتوڑ ) ہمارے ہاتھ میں تھی ۔ اس قسم کی کتابوں کے مطالعہ سے انہوں نے ہمیں اس وقت منع کیا تھا ۔
مرحوم نے طبعی عمر پاکر داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ممکن ہے ان کی کئی ایک باتوں سے اختلاف کیا جائے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے مشن کے لئے مخلص تھے ، رضائے الہی کے حصول کے لئے انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گذارا ، جماعت کی فکر کو پھیلانے کے لئے انہوں نے جن صلاحیتوں کو بروئے کار لایا اس سے لوگوں کو جوڑنے میں بڑی مدد ملی ، اب ایسی خداداد صلاحیتوں کے افراد معدوم ہوتے جارہے ہیں اور جو خلا ایسے افراد چھوڑ جاتے ہیں وہ آسانی سے پر نہیں ہوپاتا۔ مرحوم کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ایک بڑا خسارہ ہے ،روشنی کا ایک چراغ بجھ گیا ہے ، لیکن خدا کے کارخانے میں کوئی کمی نہیں ۔ مایوسی کفر ہے ۔ آئے بارگاہ یزدی میں دست بدعا ہوں کہ اللہ مرحوم کے نیک اعمال کو قبول کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔

Maulana Abdul Aziz, a senior leader of Jamat-e-Islami passes away

2 تبصرے:


  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    ما شاء اللہ بہت خوب ، تاثیر سے پر اور سوزمیں ڈوبے تاثرات تھے آپکے۔ جزاک اللہ خیر الجزاء۔
    مگر دو باتوں کی طرف توجہ کی ضرورت محسوس ہوئی:
    1. رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تعاون سے بروقت تقاریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ سننے کے لئے خود کار آلہ نصب کیا گیا تھا. ایسا کوئی انتظام نہ ہوسکا تھا۔ اس کام کے لئے تین افراد { ۱-برادر حسین ذوالقرنین ،۲- برادر غضنفر محی الدین، ۳- رفیق احمد ۔ راقم السطور }کی ایک کمیٹی تھی جس نے پوری کوشش کی اسطرح کا کوئی بھی انتظام ہوجائے مگر ہو نہ سکا ۔ اسطرح کے آلات کو امپورٹ کر نے کا پرمیشن بھی ایک رکاوٹ بنی۔ اس وقت کی حکومت نے بیرونی مہمانوں کو ویزا بھی نہیں دیا، بلکہ بمبئی ایرپورٹ پر سے بہت سارے مہمانوں واپس بھی بھیج دیا ،گنے چنے چند عرب مہمان اور (USA) اور (UK) میں مقیم افراد جنہیں ویزا کی ضرورت نہیں تھی تشریف لاسکے تھے۔ انکے علاوہ اس دور کی خاتون عظیم بلکہ مجاہد خاتون اعظم،صحابیات کا نمونہ سیدہ زینب غرالی رحمۃ اللہ علیہا ، جنہوں اجتماع کی تاریخ سے ۳ ماہ قبل ویزا حاصل کرلیا تھا تشریف لاسکیں ۔
    2. مولانا عبد الرزق لطیفی رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد آپ نے آندھر حلقہ کی امارت سنبھالی۔ بات درست ہے مگر اس اضافہ کے ساتھ{{ ۱۹۷۵ فروری میں مولانا عبد الرزق لطیفی کی رحلت، اور ۱۹۷۵ جولائی میں ایمرجنسی کا نفاذ جو ۱۹۷۷ مئی تک رہا۔ اس مدت میں حافظ انواراللہ محمود صاحب رحمہ اللہ قائم مقام امیر حلقہ رہے۔ وہ بھی گرفتار ہوگئے تھے ۔ایمرجنسی کے خاتمہ بعد ہی مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ امیر حلقہ آندراپردیش رہے۔
    والسلام
    رفیق احمد

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. محترم رفیق احمد صاحب
      معلومات میں اضافے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ
      جزاک اللہ خیرا

      حذف کریں