لوک سبھا میں اراضی بل منظور - اپوزیشن کا واک آؤٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-11

لوک سبھا میں اراضی بل منظور - اپوزیشن کا واک آؤٹ

نئی دہلی
پی ٹی آئی
متنازعہ اراضی بل آج حکومت کی جانب سے9ترامیم کے بعد لوک سبھا میں منظور ہوگیا اور اس نے اپنی بیشتر حلیف جماعتوں کو تائید کے لئے آمادہ کیا جس کے ساتھ ہی راجیہ سبھا میں اس پر غور کے لئے میدان تیار ہوگیا ہے جہاں اعداد حکومت کے خلاف ہیں ۔ کانگریس ، ترنمول کانگریس،سماج وادی پارٹی ، آر جے ڈی اور بی جے ڈی نے ایوان سے واک آؤٹ کیا جب کہ این ڈی اے کی حلیف جماعت شیو سینا نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا جس کے دوران حصول اراضی و باز آبادکاری میں شفافیت اور منصفانہ معاوضہ کے حق سے متعلق ترمیمی بل2015ء ندائی ووٹ سے منظور کرلیا گیا ۔ ایک اور اتحادی جماعت سوابھیمانی پکش نے ایک ترمیم پیش کی جسے مستردکردیا گیا ۔ اپوزیشن اور بعض ناراض اتحادیوں کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے حکومت نے9سرکاری ترامیم پیش کیں اور متنازعہ بل میں دو شقوں کا اضافہ کیا۔ لوک سبھا میں اپنی اکثریت کے باوجود حکومت نے حلیف جماعتوں کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے لمحہ آخر میں ان جماعتوں کے قائدین سے کہا کہ وہ اپنی صفوں کو متحد رکھیں ۔ اپوزیشن نے52ترامیم پیش کیں جن میں سے8کو مسترد کردیا گیا یا ارکان نے ان پر زور نہیں دیا ۔ اب یہ بل اصل آزمائش کیلئے راجیہ سبھا میں پیش کیاجائے گا جہاں این ڈے اے اقلیت میں ہے اور اپوزیشن اس بل کی مخالفت کرنے کے لئے اور ایک پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لئے متحد ہے ۔ وزیر دیہی ترقی بریندر سنگھ نے اس بل کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے کئی تجاویز کو شامل کیا ہے جن میں سے بیشتر اپوزیشن نے پیش کی تھیں اور حکومت کسانوں کے مفاد میں اپوزیشن کی جانب سے مزید مشوروں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی کو ایک بڑی رکاوٹ کا سامنا ہوگا جہاں این ڈی اے اقلیت میں ہے اور بعض حلیف جماعتوں اس کے ساتھ نہیں ہین۔ غیر این ڈی اے جماعتوں اے آئی اے ڈی ایم کے اور ٹی آر ایس نے لوک سبھا میں متنازعہ حصول اراضی بل کی منظوری میں مرکز کی تائید کی جس سے بی جے پی کو تقویت ملی ۔ اے آئی اے ڈی ایم کے ذرائع کے بموجب پارٹی نے میڈیکل کالج اور خانگی تعلیمی اداروں کے لئے اراضی کے حصول کی مخالفت سے متعلق اس کے مطالبہ کو شامل کرنے کے بعد بل کی تائید کی ۔ اے آئی اے ڈی ایم کے موجودہ لوک سبھا میں37ارکان کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے ۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی نے بھی بی جے پی زیر قیادت حکومت کی تائید کی اور پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ ٹی آر ایس ذرائع نے بتایا کہ پارٹی نے اس لئے بل کی تائید کا فیصلہ کیا کیوں کہ مرکز نے اس کی بعض ترامیم کو شامل کرلیا۔ ٹی آر ایس کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم نے رضا مندی اور سماجی اثرات سے متعلق دو ترامیم طلب کی تھیں جنہیں حکومت نے قبول کرلیا اس لئے ہم نے اس بل کی تائید کی ۔ ٹی آر ایس کے11ارکان پارلیمنٹ میں سے10ایوان میں موجود تھے جب کہ ایک رکن شخصی وجوہات کی بنا پر غیر حاضر تھے ۔

حصول اراضی بل ماورائے دستور: اسد الدین اویسی
نئی دہلی سے اعتماد نیوز کی علیحدہ اطلاع کے بموجب صدر کل ہن مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے حصول اراضی بل کی مخالفت کی اور اسے ماورائے دستور قرار دیا ۔ پارلیمنٹ میں حصول اراضی بل پر جاری مباحث میں حصہ لیتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے اس قانون اور اس سے متعلق حکومت کی قرار داد کو کسان دشمن اور کارپوریت شعبہ کو فائدہ پہنچانے کے مترادف قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ حصول اراضی کے بارے میں اس سے پہلے جو قانون بنایا گیا تھا سپریم کورٹ نے اسکو درست قرار دیا ہے، اس میں کوئی کامی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایوان میں اس قانون کی مطابقت میں جو قرار داد پیش کیا ہے وہ قانونی تنقیح کے سامنے ٹک نہیں سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ حصول اراضی کے بارے میں سپریم کورٹ کے کئی معرکۃ الآراء فیصلے سامنے آئے ہیں ۔ ان قانونی پہلوؤں کو دیکھنے کے باوجود حکومت ترقی کے نام پر جو رویہ اختیار کررہی ہے وہ اس کی مطلق العنانی کا مظہر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی شعبہ میں سرمایہ کاری وزیر فینانس نے اندیشے ظاہر کئے کہ اس کے ذریعہ پڑوسی ممالک استحصال کرسکتے ہیں جب کہ ڈیفنس اور دیگر کلیدی شعبوں میں بیرونی راست سرمایہ کاری کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں ۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کو دعوت دی گئی ۔ کیا اس طرح کا عمل ملک کی صیانت کے لئے جوکھم نہیں ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ دنیا میں کوئی ایک ایسی حکومت بتائیے یا کوئی ایک ایسی جمہوریت کی مثال دیجئے جس نے محض ایک قانونی قرار داد کے ذریعہ کسانوں، ماہی گیروں اور زرعی شعبہ سے جڑے افراد سے زمینیں چھین لی ہوں ۔ زمین سے جڑے پیشوں میں مشغول افراد کو بے دخل کرکے خانگی مقاصد کے لئے اراضی کو حاصل کرنا انصاف کے سراسر مغائر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زمین کو ترقی دینے اور صنعتی سر گرمیوں کو وسعت دینے کے بارے میں وزیر اعظم کو یہ وضاحت کرنا چاہئے کہ کیا گزشتہ66سال سے ملک نے اس شعبہ میں ترقی نہیں کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح کے بجائے خانگی سطح سے اراضی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوچین ایر پورٹ اس کی ایک اہم مثال ہے ۔ انہوں نے احمد آباد کے تعلیمی تحقیقاتی ادارہ کا بھی حوالہ دیا ۔ دستور کے آرٹیکل14کا ذکر کرتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے کہا کہ صنعتی راہداری کے لئے حکومت سوچ رہی ہے لیکن جنگلاتی زندگی کے بارے میں وہ کیوں فکر نہیں رکھتی ۔ جنگلاتی زندگی کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے حصول اراضی پر دئیے گئے مختلف فیصلوں بشمول کالیشور سنگھ وغیرہ کے حوالے دئیے اور کہا کہ یہ قانون عدالت کے سامنے نہیں ٹک پائے گا ۔ حکومت دستور کی خلاف ورزی کررہی ہے ۔ بہتر مقاصد کے لئے حکومت کو حصول اراضی کا اختیار حاصل ہے لیکن بہتر مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ صدر مجلس نے کہا کہ عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا اور عوامی مفاد بہتر مقاصد ہوتے ہین ۔ آرٹیکل44اور31کے بھی بیرسٹر اویسی نے حوالے دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت غریب کسانوں سے ان کا اہم وسیلہ اراضی چھین کر امیروں کو دینا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس ترقی کا عکس دکھایاجارہا ہے وہ کوئی علاء الدین کا چراغ نہیں کہ جسے گھس کر مطلوبہ چیز حاصل کرلی جائے ۔ ترقی کے لئے حصول اراضی کے موضوع پر تلگو دیشم کے ایک حکم کے اس حوالے پر کہ تلگو دیشم دور حکومت میں شہر حیدرآباد کو ترقی دی گئی ۔ صدر مجلس نے اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ تلگو ددیشم دور حکومت اور دوسری حکومتوں نے حیدرآباد کے اطراف و اکناف88490ایکر اراضی حاصل کی۔ انہوں نے سی اے جی(کمپٹر ولرو آڈیٹر جنرل آف انڈیا) کی رپورٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ88ہزار سے زائد ایکر اراضی جن لوگوں کو دی گئی اس کا کوئی عوامی مقصد نہیں تھا ۔ بیرسٹر اویسی نے مہاراشترا کے آبپاشی ڈیم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ کئی مثالیں ہیں کہ کسانوں کی اراضیات کا تحفظ نہیں کیا گیا ۔ عوامی مقاصد اور خانگی مقاصد کے فرق کو دیکھاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کایہ قانون ایک ایسا آلہ ہوگا جس سے ہندوستانی عوام کے مفادات پر ضرب لگائی جائے گی اور کارپوریٹ شعبہ کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا ۔ انہوں نے اس قانون کی مجوزہ ترمیمات کی کھل کر مخالفت کی ۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے نظریہ ساز پنڈت دین دیال اپادھیائے کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس نظریہ ساز نے اراضی سے متعلق جو نظریہ پیش کیا تھا حکومت کو اس کا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ انہوں نے اس قانون کو عوام دشمن اور کسان دشمن قرار دے کر اس کی مخالفت کی ۔

Lok Sabha passes Land Acquisition Bill with 11 amendments; Opposition walks out

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں