کشمیر چیلنج - نریندر مودی تاریخ بنا سکتے ہیں - برعکس امکانات بھی موجود - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-09

کشمیر چیلنج - نریندر مودی تاریخ بنا سکتے ہیں - برعکس امکانات بھی موجود

گزشتہ مئی میں منعقدہ عام انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی اور نریندر مودی کو اقتدار ملنے کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ کانگریس کے تین رہنماؤں سونیا گاندھی ، راہول گاندھی اور منموہن سنگھ سے عوام مایوس تھے ۔ اسکامس کی نگراں ان کی حکومت ، قوت فیصلہ سے عادی اور کسی کرشمہ سے محروم تھی ۔543رکنی لوک سبھا میں کانگریس کے ارکان کی تعداد209تھی اور63ارکان کی کمی کو اتحادی شرکاء کے ارکان کے ذریعہ پورا کیا گیا تھا ۔ اب کشمیر جہاں پی ڈی پی، بی جے پی مخٰلوط حکومت قائم ہوئی ہے،نریندر مودی کے لئے ایک چیلنج ہے۔ ریاستی چیف منسٹر مفتی محمد سعید جو پی ڈی پی کے سرپرست ہیں ، عوام کے ایک انتہائی پسندیدہ لیڈر ہیں۔ انہیں مرکز سے وابستگی کا بھی وسیع ترجبہ ہے ۔ ماضی میں وہ مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ وہ دہلی، سرینگر، اسلام آباد محور کی تمام نزاکتوں سے واقف ہیں۔ حال ہی میں ہندوستان کے ایک محترم کالم نگار سوامی ناتن ایئر نے ایک پرانا زخم کریدا تھا اور کہا تھا کہ ہند یونین میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق سے پہلے جموں مین دو لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تھی ۔ بعد میں وادی کشمیر سے4لاکھ کشمیری پنڈت ، جموں منتقل ہوگئے ۔ یہ ایک زندہ المیہ ہے اگرچہ ویسا بھیانک جیسا کہ جموں میں قتل عام ہوئے تھے ۔ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی نے جس پس منظر کے بالمقابل ہاتھ ملائے ہیں وہ مختلف امکانات سے پر ہیں۔ موسم گرما کی آمد آمد ہے ۔ سیاحت کو فروغ ملنے کے امکانات موجود ہیں بشرطیکہ وادی میں امن رہے۔ پر امن حالات ، ذہنوں اور قلوب کو کشادہ کریں گے ۔ کشمیر میں بی جے پی حکومت شریک اقتدار ہے ۔ اس سبب پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ اس کے اثر سے فرقہ ورانہ’’بخار‘‘ بھی کم ہوجائے گا ۔ جو معاشی پیداوار کے لئے ایک لازمی شرط ہے ۔ جہاں تک مرکز کا اور ماضی کے حالات کا تعلق ہے منموہن سنگھ ایک موثر وزیر فینانس رہے لیکن بحیثیت وزیر اعظم انہیں گاندھی خاندان کی شخصیتوں سے کچھ مسائل کا سامنا رہا اور وہ (منموہن سنگھ) غیر موثر ثابت ہوئے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بڑے تاجروں نے ملٹی نیشنل روابط کے ذریعہ زبردست میڈیا مہم چلائی جوملک کی انتخابی تاریخ کی سب سے بڑی میڈیا مہم تھی ۔ بعض تخمینوں میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ مہم امریکہ میں اوباما کی مہم سے بڑی تھی ۔ کئی دہوں میں پہلی بار ایک واحد پارٹی اقتدار پر آئی ہے ۔ اب غیر کارکرد کانگریس کے احیاء کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بی جے پی ہندو قوم پرستی پر کار بند ہے۔ اس طرح ہندوؤں کی اکثریت اس کی ہم خیال ہے لیکن جن کارکنوں نے بی جے پی کو اقتدار پر آنے میں مدد دی ان کا تعلق آر ایس ایس اور وی ایچ پی جیسے سخت گیر ہندوتوا گروپوں سے ہے ۔ ان گروپوں نے’’گھر واپسی‘‘ یا مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو ازم قبول کرانے کا اندھا دھند مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہندو خواتین کو آبادی بڑھانے کے لئے5بچے پیدا کرنے چاہئیں اور لو جہاد کی مزاحمت کرنی چاہئے ۔ دائیں بازو کی ان تنظیموں نے یہاں تک کہا ہے کہ قدیم ہند میں قابل تصور سائنٹفک ایجادات تھیں ۔’’گنیش دیوتا پلاسٹک سرجری کا نتیجہ تھا‘‘ ان تنظیموں نے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے ۔ رقص و سروف کی محفلوں میں گھس کر نوجوانوں کو رقص و شراب سے باز رہنے کی تلقین کی ۔مودی، کچھ فاصلہ سے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر گامزن رہے ۔
ان تنظیموں نے اپنی زیادتیوں سے ہندوؤں کی اکثریت اور دیگر ہندوستانیوں کو پریشان کیا۔ کارپوریٹ انڈیا نے مکمل ایک سال کے لئے میڈیا اسپیس کے ایک ایک انچ کو متحرک کردیا تاکہ مودی کو ایک ترقیاتی مسیحا کے طور پر پیش کیاجائے ۔بہار اور جھار کھنڈ اسمبلی انتخابات میں مودی کا جادو کارکردگی نہیں دکھائی دیا ۔ بعد میں دہلی اسمبلی انتخابات بھی ہوئے۔ رشوت ستانی کے خلاف اور سماجی انصاف کے لئے ایک پلیٹ فارم پر عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو زبردست طریقہ سے شکست دے دی۔ دہلی میں70نشستوں کے منجملہ 67پر اے اے پی نے کامیابی حاصل کی جو بجائے خود ایک تاریخ ہے۔ اس طرح اروند کجریوال، مودی کے شہزور اعظم کے لئے ڈیوڈ ثابت ہوئے ۔ گزشتہ ماہ کے اس تجربہ کے بعد بڑے صنعتی گھرانوں اور ملٹی نیشنل شرکاء میں عام مایوسی پائی گئی اور یہ سوال اٹھنے لگا کہ مودی اور ان کے وزیر فینانس ارون جیٹلی کس قسم کا بجٹ پیش کریں گے ؟ یہ بات واضح ہے کہ ایک موافق مارکٹ بجٹ پیش کیا گیا اور زبردست انفراسٹرکچر پراجکٹوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ بیرونی راست سرمایہ کاری کی راہ ہمواری کی گئی۔ دہلی میں انتخابی شکست کے بعد یہ اندیشہ تھا کہ مرکزی حکومت خوش کن پالیسیوں کو پھر اپنائے گی ۔ سماجی سیکوریٹی دائرہ کو وسعت دینے عوامی مصارف میں اضافہ کرے گی لیکن مودی نے ہر ایک کو حیرت زدہ کردیا اور کارپوریٹ گھرانے سب سے زیادہ مسرور ہوئے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مودی نے خود کو کارپوریٹس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے کارپوریٹ گھرانوں سے ونیز ملک سے یہ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت کو میڈیا کی صد فیصد تائید حاصل رہے اور یہ تائید اسی پیمانہ پر رہے جو جون2013میں مودی کو پارٹی کا امیدوار وزارت عظمی بنائے جانے کے بعد سے مئی2014میں منعقدہ انتخابات تک حاصل تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ کارپوریٹ گھرانے بہار، آسام اور یوپی میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں مودی کے مطالبات کی تکمیل کریں گے ۔ مودی نے عوام کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ ترقی کے لئے جوکھم مول لیا ہے ۔ اگر معیشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے تو2019میں آنے والے عام انتخابات تک وہ(مودی) محفوظ نظر آئیں گے ۔ ترقی کے امکانات مودی کی آنے والی ’’اننگز‘‘ کی ترجمانی کریں گے۔

Kashmir challenge: Modi could write history or blot it. Article: Saeed Naqvi, saeednaqvi[@]hotmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں