1/مارچ نئی دہلی پی ٹی آئی
کانگریس میں راہول گاندھی کے مستقبل کے رول پر شدید مباحث کے دوران ایک نئی تصنیف میں احساس ظاہر کیا گیا کہ نوجوان قائد نے مرکز توجہ اور آسمان سیاست پر جگمگانے میں بڑی دیر لگادی ۔ علاوہ ازیں یہ احساس بھی ظاہر کیا گیا کہ2014 کے لوگ سبھا انتخابات کے دوران ان کی انتخابی مہم ناقص ترین ثابت ہوئی جسکی ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مشہور صحافی ویر سنگھوی نے اپنی نئی تصنیف ’مین ڈیٹ ول آف دی پیپل ‘ میں2004میں وزیر اعظم بننے سے سونیا گاندھی کے انکار اور اہم مسائل سے متعلق راہول گاندھی کے متضاد جذبات، جس کے نتیجہ میں بی جے پی کے مرکزی نقطہ بننے کی راہ ہماور ہوئی، تک کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ ویر سنگھوی کی نئی تصنیف جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے ۔ کتاب میں یہ احساس ظاہر کیا گیا کہ پہلی بات تو یہ کہ راہول گاندھی نے مرکز توجہ بننے میں دیر لگا دی اور جب وہ منظر نامہ پر نمایاں ہوئے تو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ منموہن سنگھ کے حامی یا اس کے مخالف ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ 2014میں ان کی انتخابی مہم انتہائی ناقص ثابت ہوئی جس کی مثال حالیہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ راہول نے شروع شروع میں خود کو پریس سے دور رکھا اور اہم سیاسی مسائل پر اپنا موقف اور ان سے متعلق اپنے نظریات کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا ۔ اپنے پہلے ہی انٹر ویو میں انہوں نے اپنی سیاسی الجھنوں کا اظہار کردیا ۔ اس کے بعد ہی ہندوستانی تعلیم یافتہ طبقہ نے ان کی جانب سے توجہ ہٹالی ۔ ڈی اے وی پی طرز کی خوفناک اشتہاری مہم یا کانگریس کی بے سمت انداز کی مہم سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ان سے کوئی مدد ملی ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سنگھوی نے تحریر کیا کہ انہوں نے2009میں اپنے لئے ایک پیمانہ مقرر کیا تھا جس پر کھرا اترنے میں وہ صد فی صد ناکام رہے ۔ پہلی میعاد کے دوران ان کی کامرانیاں لاجواب رہیں تاہم وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری میعاد کے دوران وہ بد ترین ثابت ہوئے جس کی ہندوستانی تاریخ میں کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
مصنف نے سنگھ کے اس اعلان پر کہ تاریخ ان سے متعلق عصری آراء کو غلط ثابت کردے گی ، کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے میں اس پر شک و شبہ کا اظہار کرتا ہوں ۔ منموہن سنگھ کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کیاجائے گا جس نے ہندوستان کو پوری طرح مایوس کیا اور اس کامرتبہ گھٹایا۔ سنگھوی نے سونیا گاندھی کو’پر اسرار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ طویل عرصہ تک گوشہ گیر رہنے کے بعد وہ دم توڑتی کانگریس میں نئی روح پھونکنے کے عزم سے سیاسی منظر نامہ پر آئیں اور2004ء کے علاوہ2009ء میں بھی پارٹی کو انتخابات میں فتحیابی سے ہمکنار کیا۔ ان کی زیر قیادت دونوں ہی انتخابات میں کانگریس کامیاب رہی ۔ اس کے بعد اندرون پارٹی جو خلفشار پیدا ہورہی تھی ، اس سے انہوں نے آنکھیں کیوں موند لیں۔ اس وقت ان کی سیاسی جبلیات سرد کیوں ہوگئی تھیں ۔ انہوں نے یہ محسوس کیوں نہ کیا کہ پارٹی روبہ زوال ہے اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ ان سوالوں کا جواب کوئی نہیں دے سکتا ۔ کتاب کی اشاعت ویسٹ لینڈ کی جانب سے ہورہی ہے جس میں سنگھوی نے کہا کہ سونیا گاندھی کو پارٹی کے مطالبہ کی یکسوئی کرتے ہوئے یوپی اےIIکے دوران ہی منموہن سنگھ کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے ہٹا دینا چاہئے تھا اور یہی ان کا منطقی فیصلہ ہونا چاہئے تھا ۔ شاید اس انتظار میں تھیں کہ منموہن خود ہی مستعفیٰ ہوجائیں گے ۔ منموہن سنگھ ، نیو کلیئر معاہدوں کی تائید میں اکثریت حاصل کرنے کی درخواست کرتے رہے اور یہ احساس ظاہر کرتے رہے کہ اس میں ناکامی کے نتیجہ میں وہ استعفیٰ دے دیں گے ۔ اس کے بعد وہ پورے عزم و اعتماد کے ساتھ نشست پر جم گئے حتی کہ اپنی مقبولیت میں مسلسل کمی کے باوجود استعفیٰ پر غور کرنے سے انکار کردیا۔
Journalist Vir Sanghvi slams Rahul Gandhi's 2014 campaign in his new book
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں