یو این آئی
مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دہلی اجتماعی عصمت ریزی واقعہ پر دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ کرنے کے بی بی سی کے اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آج کہا ہے کہ حکومت بی بی سی کے خلاف کارروائی کرے گی۔ انہوں نے یہاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بی بی سی نے برطانیہ اور دیگر ممالک میں متنازرہ دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ کی ہے ۔( اس فلم میں مذکورہ کیس کے ایک خاطی کے انٹر ویو کو پیش کیا گیا ہے ۔) راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ شرائط کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس معاملہ میں مزید کارروائی کی جائے گی ۔ ’’ بی بی سی کو یہ دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ ہم نے بی بی سی سے یہ دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ نہ کرنے کی خواہش کی تھی لیکن اس کے باوجود اس نشریاتی ادارے نے یہ فلم ریلیز کردی ۔ ہم تحقیقات کریں گے اور وزارت داخلہ مناسب کارروائی کرے گی ۔ شرائط کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس لئے کارروائی کی جائے گی۔‘‘بتایاجاتا ہے کہ برطانوی فلم ساز ایل اڈوین کی یہ فلم کئی ممالک بشمول ہندوستان میں آئندہ8مارچ کو بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر ٹیلی کاسٹ کی جانے والی تھی۔ بی بی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اس فلم کے تعلق سے شدید دلچسپی‘‘ کو دیکھتے ہوئے اس فلم کی ترسیل(ٹیلی کاسٹ) کو آگے بڑھایا گیا ۔ اس فلم کی ٹیلی کاسٹ پر حکومت ہند کے امتناع کے باوجود یہ فلم برطانیہ اور دیگر ممالک میں ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ اسی دوران باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے عدالتی احکام کی ایک نقل بی بی سی کو بھیج دی ہے ۔ ان احکام کے ذریعہ دستاویزی فلم’’ہندوستان کی بیٹی‘‘ کی ٹیلی کاسٹ پر امتناع عائد کردیا گیا ہے ۔ مذکورہ حکم کی نقول تمام سوشل میڈیا سائٹس کو بھی بھیج دی گئی ہیں۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ راج ناتھ سنگھ نے کل پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ حکومت دیگر ممالک میں اس فلم کی ٹیلی کاسٹ کو روکنے کی کوشش کرے گی ۔ حکومت نے ہندوستان میں اس فلم کی اسکریننگ پر امتناع کے احکام، عدالت سے حاصل کرلئے ہیں۔ دریں اثناء وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات و نشریات سے اس امر کو یقینی بنانے کی خواہش کی گئی ہے کہ مذکورہ فلم ، دنیا بھر میں کہیں بھی ٹیلی کاسٹ نہ ہو اور کسی بھی پلیٹ فارم پر نہ بتائی جائے۔
یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زبردست ہنگامہ برپا ہوا اور ارکان نے پارٹی وابستگیوں سے بلند ہوکر یہ پوچھا کہ خاطی مکیش سنگھ سے انٹر ویو لینے کی اجازت فلم ساز اڈوین کو کیسے دی گئی ۔ آئی اے این ایس کے بموجب بی بی سی نے ہندوستان کے احتجانوں کو عملاً مسترد کرتے ہوئے دہلی اجتماعی عصمت ریزی کے ہولناک واقعہ(16دسمبر2012) پر ایک دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ کی ۔ ہندستان میں اس فلم پر امتناع ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ ایک گھنٹہ طویل اس دستاویزی فلم کو ایک فرد نے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا ہے ۔ اس طرح یہ عالمی سطح پر ناظرین کے لئے دستیاب ہوئی۔ بی بی سی فور پر دکھائی گئی یہ فلم’’ہندوستان کی بیٹی‘‘ ایک دستاویزی فلم ہے۔ مذکورہ کیس کے ایک خاطی سے یہاں جیل میں انٹر ویو لینے کے بعد اس دستاویزی فلم پر ایک زبردست ہوا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کے ٹیلی کاسٹ پر حکومت نے امتناع عائد کردیا ہے ۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ بیرون ملک اس کی ٹیلی کاسٹ نہ ہونے دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ بی بی سی نے( ہندوستانی معیاری وقت کے مطابق) آج علی الصبح3:30بجے سے کچب قبل کہا کہ مذکورہ فلم میں متعلقہ مسئلہ سے ذمہ داری کے ساتھ نمٹا گیا ہے اور ادارتی رہنمایانہ اصولوں کی تعمیل کی گئی ہے۔ بی بی سی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس دستاویزی فلم کو متعدد دیگر پبلک سروس براڈ کاسٹرس کی تائید حاصل ہے ۔ تاہم برطانیہ میں اس فلم کی ترسیل کے لئے بی بی سی ہی ذمہ دار ہے ۔ یہ دستاویزی فلم برطانوی فلم ساز ایل اڈوین نے تیار کی ہے ۔ ہندوستانی ارکان پارلیمنٹ نے اس پر شدید تنقید کی ہے اور پوچھا ہے کہ جیل میں ایک خاطی سے انٹر ویو کیسے لیا گیا۔ قیدی کے وکیل کے جنس پرستانہ ریمارکس پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ16دسمبر2012کی رات کو23سالہ زیر تربیت فزیوتھراپسٹ کی اجتماعی عصمت ریزی کا واقعہ، دہلی میں ایک چلتی بس میں پیش آیا تھا ۔ اس اذیت سے گزرنے کے بعد مذکورہ لڑکی29 دسمبر2012کو سنگا پور کے ایک ہسپتال میں فوت ہوگئی ۔
متنازعہ فلم ہندوستان میں ٹیلی کاسٹ نہ کرنے بی بی سی کا تیقن
پی ٹی ئی کے بموجب بی بی سی نے کہا کہ مذکورہ فلم کی ٹیلی کاسٹ کے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وزارت داخلہ ہند کے نام اپنے ایک مکتوب میں بی بی سی نے کہا ہے کہ حکومت ہند کی ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے یہ فلم ہندوستان میں ٹیلی کاسٹ نہیں کی جائے گی ۔ تاہم اسی مکتوب میں بی بی سی نے کہا ہے کہ اس نے یہ فلم کل رات( گرینج معیاری وقت کے مطابق)10بجے برطانیہ میں ٹیلی کاسٹ کیا۔ وزارت داخلہ ہند نے بی بی سی سے کل خواہش کی تھی کہ اس دستاویزی فلم کو کہیں بھی ٹیلی کاسٹ نہ کیاجائے ۔
نئی دہلی
آئی اے این ایس
مرکزی حکومت نے بی بی سی کو ڈاکیومنٹری نشر کئے جانے پر آج قانونی نوٹس بھجوائی ۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق دستاویزی فلم سے متعلق بی بی سی کو قانونی نوٹس بھجوائی گئی ہے اور ان کے جواب کا انتظار ہے ۔ اس سے قبل دن میں وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وہ برطانیہ اور دیگر ممالک اور یوٹیوب پر فلم کے نشر کئے جانے کے سلسلہ جس معاملات پر غور کررہی ہے ۔
نئی دہلی
آئی اے این ایس
16دسمبر2012کو دہلی میں عصمت ریزی کا شکار لڑکی پر بی بی سی کی ڈاکیو منٹری کے نشر ہوجانے سے متاثرہ کے حیرت خاندان نے جمعرات کو کہا کہ اس سے ہندوستان کا وقار مجروح ہوا ہے۔ متاثرہ کے والد کے مطابق میں بی بی سی کی جانب سے ڈاکیو منٹری نشر کئے جانے پر حیرت زدہ ہوں اور اسے بعد میں عدالت کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یو ٹیوب پر بھی اپ لوڈ کردیا گیا ۔ بی بی سی نے ہندوستان کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ جب ان سے انڈیا کی بیٹی دستاویزی فلم کے نشرکئے جانے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا یہ صاف بتاتا ہے کہ بی بی سی کو ہندوستانی قوانین اور ہمارے ملک سے کوئی ڈر نہیں ہے ۔
اقوام متحدہ
پی ٹی آئی
سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجاریک نے کہا ہے کہ دہلی اجتماعی عصمت ریزی کیس کے ایک خاطی کے ریمارکس’’ ناقابل بیان‘‘ ہیں جن میں خاطی نے مذکورہ جملہ کے لئے متاثرہ لڑکی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے مرد حضرات کو آگے آنا چاہئے۔ خاطی مکیش سنگھ (بس ڈرائیور) کے مذکورہ ریمارکس پر ڈوجاریک نے مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ’’میں ایسے ناقابل بیان الفاظوں پر تبصرہ کرنے والا نہیں ہوں جو مذکورہ لڑکی کی عصمت ریزی کرنے والے خاطی نے دئیے ہیں ۔
Indian government furious at BBC over broadcast of gang-rape documentary
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں