عید گلابی - ہولی - محبت وبھائی چارگی کو فروغ دینے والا تہوار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-07

عید گلابی - ہولی - محبت وبھائی چارگی کو فروغ دینے والا تہوار

Holi-festival-of-love-and-kinship
فیروز بخت احمد
آئی اے این ایس اسپیشل
ہولی کی ایک مسلم تاریخ بھی ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ امیر خسرو جیسے قابل احترام صوفی بزرگوں نے اپنی خالص فارسی و ہندی شاعری میں اس ’’گلابی‘‘تہوار کا فراخدلی کے ساتھ تذکرہ کیا ہے ۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے ہندو وزراء کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ ہولی کے موقع پر ان کی پیشانی پر گلال مل سکتے ہیں ۔ بہادر شاہ طفر کا یہ ماننا تھا کہ اس سماجی رسم کی وجہ سے ان کا مذہب متاثر نہیں ہوگا ۔ یہ جذبہ شہنشاہ اکبر سے مغلوں میں چلا آرہا تھا ۔ تزک جہانگیری میں شہنشانہ جہانگیر کو محفل ہولی سجاتے دیکھاجاسکتا ہے۔ کئی فنکاروں بالخصوص گووردھن اور راسک نے جہانیگر کو ان کی ملکہ نور جہاں کے ساتھ ہولی کھیلتے دکھایا ہے ۔ محمد شاہ رنگیلا کو محل میں دوڑتے ہوئے اور ان کی بیوی کو پچکاری کے ساتھ ان کا پیچھا کرتے دکھایاگیا ہے ۔ دہلی میں شاہ جہاں کے دور اقتدار میں ہولی کو’’عید گلابی‘‘ یا’’ آب پاشی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔ ہولی دراصل ربیع کی فصل، تازہ ہوا کے ساتھ خوشگوار موسم کی آمد کی علامت ہے۔ امراء ، نواب اور راجہ ہولی کے موقع پر نقاروں کی گونج میں عرق گلاب کی بوتلوں کا تبادلہ کرتے اور اسے ایک دوسرے پر چھڑکتے تھے ۔ ہولی مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر سے پہلی آتی ہے اسی لئے یہ زیادہ رنگ برنگی ہوتی ہے۔ منشی ذکاء اللہ نے اپنی کتاب’’ تاریخ ہندوستان‘‘ میں سوال کیا ہے ۔کون کہتا ہے کہ ہولی ہندوؤں کا تہوار ہے ۔ ایک اردو روزنامہ ’’جام جہاں نما‘‘ کے مطابق1844ء صدی عیسوی میں مغل شہنشاہ بہادر شاہ طفر کے دور میں ہولی کے تہوار کے لئے خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے۔ اس تہوار کا بڑا حصہ تیسو کے پھول سے تیار کردہ زرد رنگ ایک دوسرے پر چھڑکنے میں صرف ہوتا تھا ۔ یہ رنگ دھات ،شیشہ اور لکڑی کی مختلف پچکاریوں کے زریعہ ایک دوسرے پر پھینکا جاتا تھا۔ بادشاہ پربھی سرخ اور زرد رنگ پھینکے جاتے تھے ۔ تہذیب الخلاق میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ1855میں بادشاہ نے کس طرح اپنی پیشانی کو رنگ لیا تھا۔ جب زیوارت سے لدی پھندی لڑکیاں لال قلعہ کی فصیل کے قریب سے گزرتے ہوئے ہولی کے گیت گایا کرتیں تو نقاب پوش شہزادیاں ہولی کے گیت سن کر اور ان کے کلاسیکی رقص کو دیکھ کر پرجوش ہوجایا کرتی تھیں۔ ہولی کے زیادہ تر گیت ، حویلیوں اور امراء کے محفلوں میں گائے جاتے۔ بعض گروپس کفرکچیہریوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اردو شاعری میں ہولی کی رنگا رنگ تقاریب کو خاص مقام حاصل ہے ۔17ویں صدی اور18ویں صدی میں فارسی اور اردو زبان میں ہولی پر کافی کلام کہا گیا ہے ۔ جنوبی ہند کے ایک مشہور شاعر قلی قطب شاہ نے اپنی ٹھیٹ حیدرآباد اردو میں ہولی پر ایک نظم لکھی تھی جس میں شمالی ہند کے برج اور بندیل کھنڈعلاقوں میں رنگوں کے تہوار کا تذکرہ کیا گیا تھا ۔ شاہ جہاں آباد کے فیض دہلوی نے ہولی پر نظمیں کہی ہیں ۔ دہلی کے ایک شاعر واجد سحری نے تذکرہ کیا ہے کہ مہابلی اکبر ہولی کے موقع پر غوطہ لگانے کے لئے مختلف رنگوں کے تالاب بنوایا کرتے تھے ۔ میر تقی میر کی نظمیں بھی اتنا ہی لطف دیتی ہیں جو نواب آصف الدولہ کے درباری تھے اور جشن ہولی کی تعریف کرتے ہوئے کئی نظمیں کہی ہیں ۔ خواجہ حیدر علی آتش، اور تاباں جیسے شعراء نے بھی ہولی پر بہترین نغمے تحریر کئے ہیں ۔

Holi - the festival of love and kinship

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں