خانقاہوں کے چراغ ایک ایک کرکے بجھتے جارہے ہیں اور نئے چراغوں کی آمد عنقاہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ آج جب کہ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی نے داعی اجل کو لبیک کہا ہے ، یقینی طورپر کچھ اذہان پر یہ سوال ضرور ابھر رہے ہوں گے کہ اب نہ صرف درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ایک نستعلیق اور قدروں کی پاسدارشخصیت سے خالی ہوگئی بلکہ حقیقی دہلوی تہذیب وثقافت کی طلائی زنجیر سے دہلی بھی خالی ہوگئی ،جس کے وجود پر دہلی کو بھی نازرہاہوگا۔
خواجہ حسن ثانی نظامی دہلی اور درگاہ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔جن سے کسی بھی وقت دہلی کی تاریخ اور درگاہ کے حوالے سے گفتگوکی جاسکتی تھی۔دہلی میں موجود بزرگوں کے مزارات، ان کے حالات،ان کی زندگی کے کوائف ان کے نوک زبان تھے۔ چھوٹے بڑے ہر مزاج و طبقہ کے افراد سے وہ پوری دلچسپی کے ساتھ ملتے اور اپنی بردباری اور وضع داری کا احساس کراتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی موجودگی سے ہی کسی بھی تقریب میں چار چاند لگ جاتے تھے۔
گذشتہ چند برسوں سے انہوں نے ضعیفی کے سبب عام طور پر محافل اور تقریبات میں آمد و رفت بند کر دی تھی۔ البتہ ہر سال حضرت خواجہ حسن نظامی کے عرس کی تقریبات کی قیادت اور مہمان نوازی ضرور کرتے تھے۔ ان محافل میں جب بھی دہلی یا بزرگان دہلی کے بارے میں گفتگو چل نکلتی تو تمام تر ضعیفی اور کمزوری کے باوجود وہ خاموش نہیں رہتے تھے اورایسے ایسے واقعات سناتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے ۔ ان واقعات سے تاریخ کے اوراق آج بھی خالی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف مکتب کی کرامت سے آراستہ تھے بلکہ علم سینہ سے بھی مزین تھے۔
ابھی چند دن قبل دہلی اردواکادمی کے سکریٹری انیس اعظمی صاحب ایک سمینار کے دوران یہ شکوہ کررہے تھے کہ دہلی پر لکھنے والے ہمیں ملتے نہیں ہم کن سے لکھوائیں ۔ ایک دیا اوربجھا اور بڑھی تاریکی ۔
اب کون لکھے گاگزشتہ ایک صدی کی دہلوی تاریخ ،کون بتائے گاکہ خواجہ نظا م الدین اولیا کے خویش واقارب دہلی کے کن علاقوں میں مدفون ہیں۔ وضع قطع ،لباس اور رکھ رکھاؤ میں منفرد اور اپنے سینہ میں رازہائے سربستہ کا خزانہ لے کر آہستہ آہستہ عصا سے زمین کو ٹیکتاہواچلنے والایہ شخص بھی نہ رہا۔ جس پر نہ صر ف خانقاہیوں کو بلکہ دہلی اور دہلوی تہذیب وثقافت کو بھی ناز تھا۔
ایک بار پھر یہ سوال ذہن پر منڈلا رہا ہے کہ خانقاہیں اتنی ویران کیوں ہوتی جارہی ہیں۔ اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی ۔ رفتگاں کا سلسلہ بدستورجاری ہے اورنئی نسل کے خانقاہی، اسلاف کے مدفن بیچنے میں مصروف ہیں ۔
خواجہ حسن ثانی صاحب بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم رہے انہوں نے ایک محفل میں بتایاتھاکہ ہم طلبہ جامعہ کے پیچھے کھڑے ہوجاتے اور خزف پارے اٹھا اٹھا کر جمنا میں پھینکتے تھے۔ اب اس زمانے میں اس بات پر کون یقین کرے گاکہ کبھی جمنا جامعہ سے اس طرح بھی قریب رہی ہوگی ۔ایک فکر مسلسل میں منہمک قدروں کے پاسدارشخص کی وفات فکر کی ف سے آشنا کسی بھی شخص کو فکر مند ضرور کرتی ہے۔
اناللہ و انا الیہ راجعون ۔
نورین علی حق |
Hazrat Khwaja Hasan Sani Nizami Caretaker (Sajjadanashin) Dargah Hazrat Nizam uddin Auliya New Delhi expired on 15th March 2015. -Article: Noorain Ali Haq
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں