حکومت انسداد جہیز ہراسانی قانون میں ترمیم کی خواہاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-16

حکومت انسداد جہیز ہراسانی قانون میں ترمیم کی خواہاں

نئی دہلی
پی ٹی آئی
جہیز ہراسانی مقدمات میں حکومت، مقدمہ کے آغاز ہی پر شوہر اور بیوی کے درمیان مصالحت اور تصفیہ کی اجازت دینے کے لئے متعلقہ قانون فوجداری میں جلد ترمیم کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ متعلقہ دفعہ کے بار بار غلط استعمال کے سبب شوہر اور اس کے رشتہ داروں کو پریشانی کا سامنا ہونے کے باعث حکومت یہ قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس تجویز کے تحت قانون تعزیرات ہند کی دفعہ498-Aکو عدالت کی اجازت سے قابل مصالحت جرم بنایاجائے گا جیسا کہ لا کمیشن اور جسٹس ملی متھ کمیٹی نے تجویز پی شکی ہے ۔ مرکزی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ’’ قانون تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ498-Aمیں ترمیم کے لئے اور اس کو قابل مصالحت بنانے کے لئے یک تحریری مسودہ بل مرکزی کابینہ میں پیش کیاجائے گا ۔ بحالت موجودہ یہ دفعہ ناقابل مصالحت اور ناقابل ضمانت ہے اس طرح ملزم کی فوری گرفتاری کی گنجائش ہے ۔ فریقین کے درمیان مصالحتی کوشش(بحالت موجودہ)عملا ناممکن ہے ۔ عدالت میں بے گناہی ثابت ہونے تک شوہر اور اس کے ارکان خاندان خاطی یا مجرم سمجھے جاتے ہیں اور خاطی کو تین سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔ کئی مقدمات میں ایسے الزامات سامنے آئے ہیں کہ بعض ازدواجی مسائل اٹھنے پر بیویوں اور ان کے رشتہ داروں نے شوہروں اور ان کے رشتہ داروں پر اکثر جہیز ہراسانی کے جھوٹے الزامات عائد کئے ہیں ۔ اگر اس جرم کو قابل مصالحت بنادیاجائے تو قانون کے غلط استعمال کی سطح بڑی حد تک گھٹ جائے گی اور بیرون عدالت تصفیہ کی راہ ہمور ہوگی۔ عدالت سے اجازت شوہر سسرال والوں کی طرف سے مصالحت کے لئے بیوی پر امکانی زبردستی کے خلاف ایک ضمانت ہوگی۔ وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے یہ بات بتائی ۔ بحالت موجودہ اگر جہیز ہراسانی کیس غلط ثابت ہو تو یعنی اگر قانون کا غلط استعمال ہوتو صرف ایک ہزار روپے عائد کیاجاتا ہے ۔ لیکن ترمیم کے ذریعہ15ہزار روپے جرمانہ کی گنجائش فراہم کی جائے گی ۔ توقع ہے کہ ایک اور نئی دفعہ کا اضافہ کیاجائے گا تاکہ ملزم جرمانہ ادا کرتے ہوئے جیل جانے سے بچ جائے ۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اندراجئے سنگھ نے قانون کی مخالف جہیز کی دفعہ میں نرمی کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ قانون ہراسانی کی شکار خاتون کو ریلیف اور تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس قانون کو جاری رکھاجانا چاہئے ۔ خواتین کے خلاف تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی خلاف ورزی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔ میں حکومت کے اقدام کی مخالفت کرتی ہوں ۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ سپریم کورٹ نے2010ء میں اپنے ایک فیصلہ میں کہا تھا کہ اب یہ قانون مایوس یا ناراض خواتین کے ہاتھوں مین ایک ہتھیار بن گیا ہے مقننہ کو چاہئے کہ وہ ساری دفعہ پر نظر ثانی کرے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا تھا کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کئی شکایات میں واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتا ہے ۔ بہت سارے مقدمات سے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تعداد میں لوگوں کو پھنسایا گیا ۔دفعہ498-A،1980ء کے دہے کے اوائل میں متعارف کرائی گئی تھی تاکہ شادی شدہ خواتین بشمول نئی دلہنوں کو شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے ظلم سے بچایاجائے ۔

Govt plans to amend anti-dowry harassment law

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں