2014ء لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے ایک بڑی اور ناقابل تسخیر پارٹی کے شکل میں ابھرنے کے بعد اگرچہ حکومت کے بڑے کارندے خاموشی اختیار کئے بیٹھے تھے ،لیکن حکومت کے مختلف ایم پیز اور بی جے پی سے قرب رکھنے والے آر یس یس کے کارندے مثلا پروین توگڑیا، مومن بھاگوت، سادھوی نریجن، آدھتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، سبرانیم سوامی اور سادھوی پراچی کے اشتعال انگیز بیانات نے تو ملک کے چین وسکون کو غارت کردیا تھا، ویسے تو ہر چھوٹی بڑے فسطائی اور فرقہ واریت کے حامل شخص کی زبان بہت زیادہ زہر اگلنے لگی تھی، بی جے پی کو بر سر اقتدار آنے کے بعد پہلا جھٹکا تبھی لگا تھا جب گذشتہ 13ستمبر کو ہونے والے 32اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی صرف 10 سیٹوں پر ہی جیت درج کرسکی تھی، اور جس بی جے پی اتحاد نے یوپی میں لوک سبھا انتخابات میں 80میں سے 73سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن صرف تین چار ما ہکے اندر اسمبلی انتخابات میں اس کو وہاں 11سیٹوں کے منجملہ 7پر شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا، پھر اسکے بعد 18اکتوبر کو ہوئے معلنہ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے نتائج کے اعتبار سے بی جے پی نے ہریانہ کے 90میں سے 47نشستیں حاصل کر کے واحد بڑی اکثریت والی پارٹی کا اعتماد حاصل کرلیاتھااور کانگریس کے دس سالہ اقتدار کے قلعہ کو تہس نہس کردیا تھا، اور مہاراسٹر میں بھی واحد بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی جس میں اس کو منجملہ 288میں122نشستیں ملی تھیں،وہاں بھی کانگریس کی زبر دست درگت بنائی تھی،پھر اس کے بعد 24دسمبرکے معلنہ نتائج کے اعتبار سے جھارکھنڈ میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی تھی اور مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تھی جس میں اس نے 81 میں سے 42 نشستیں حاصل کی تھیں اور جموں وکشمیر جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں وہاں بھی بی جے پی نے اگرچہ اکثریت حاصل نہیں کی مگر 2008کے انتخابات کے مقابلہ اپنی سیٹوں کی تعداد 11سے بڑھا کر 25یعنی دوگنی سے زیادہ کر لی تھی۔
ان تمام اعداد وشمار کو سامنے رکھ تجزیہ نگار یہ اندازہ صحیح لگارہے تھے کہ بی جے پی نے جس طرح سے لوک سبھا انتخابات میں شاندار مظاہرہ کیا تھا بڑھتے دنوں کے ساتھ اس کی جیت کا فیصد گھٹتا جارہا تھا، مودی اور بی جے پی نے جس ترقی کا نعرہ دے کر بر سر اقتدار آئے تھے ، ملک کی ترقی تو درکنار رہی ملک کی سیکولر شبیہ کے بگاڑ کا کام بڑی تیزی سے کیا جارہا تھایہاں تک کہ 27جنوری کو امریکی صدر بارک اوباما کو ہندوستانی کی سیکولر شبیہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال دیکھ کر ہندوستان دستوری قوانین کا حوالہ دے کر موجودہ حکومت کو جمہوریت کاسبق دینا پڑا؛ بلکہ وہ اپنے ملک واپسی کے بعد بھی ہندوستان کی موجودہ صورتحال اور فرقہ وارانہ ماحول کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے موجودہ ہندوستان مہاتما گاندھی کا ملک نہیں لگتا،امریکہ نیویارک ٹائمز نے تومذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد پر مودی کی خاموشی کو بھی موضوع بحث بنایا ہے ، کہ اس قدر تشدد پر بھی مودی کی جانب سے کچھ لب کشائی نہ کرنا ، یہ مسلسل خاموشی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے وہ اس تکلیف دہ عدم رواداری پر ہندو قوم پرست کے ان سخت گیر عناصر کو کنٹرول نہیں کرسکتے یا پھر عمدا وہ اس طرح کرنا ہی نہیں چاہتے ۔
جب دہلی انتخابات قریب آئے تو دہلی انتخابات کو تو بی جے پی نے اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا، وہ ہر صورت میں دہلی انتخابات جیتنا چاہتی تھی،رام لیلا میدان میں مودی کی انتخابی تقریر کے موقع سے لوگوں کی معمولی تعداد کی شرکت سے بی جے پی نے اپنی حیثیت کا اچھی طرح اندازہ لگالیا تھا، اسلئے دہلی کے قلعہ کو فتح کرنے کر نے کے لئے بی جے پی ہر طرح کی تدبیریں کیں،جب مودی کا جادو چل نہ سکا تو انا ہزارے کی ٹیم کے فرد کیجروال کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی ٹیم سے ایک چہرہ کرن بیدی کو مقابلہ میں لایا گیا، پھر جب بھی کامیابی کے آثار نظر نہیں آئے تو پھر امیت شاہ بذات خود میدان میں اترآئے پھر بھی معاملہ مشکل نظر آرہا تھا تو ایک سو بیس ممبران پارلیمنٹ ، 12مرکزی وزراء اور تمام بی جے پی ریاستوں کے وزراء اعلی کو بھی تشہیری مہم کے کام پر لگایا دیا، لیکن ان سب ہزار جتن کرنے کے باوجود عآپ کے سامنے بی جے پی کچھ نہ چل سکی ، دہلی الیکشن میں کل ستر پارٹیوں کے 673امیدار انتخابات لڑرہے تھے ، لیکن مقابلہ ، آپ ، بی جے پی اور کانگریس جیسی پارٹیوں کے درمیان ہی تھا؛ بلکہ مقابلہ صرف دو پارٹیوں کے درمیان ہی تھا، بلکہ یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہو کہ یہاں تو سارا میدان آپ ہی کا تھا، تمام اگزیٹ پولز اور سروے رپوٹوں کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے آپ نے منجملہ 70کے67سیٹوں پر کامیابی درج کی۔
یہاں کانگریس کا ذکر چھوڑیئے ، کانگریس نے گرچہ جمہوریت اور سیکولرزم کا دعوی ضرورکیا ، پھر میدان میں بی جے پی کے مقابلہ سیکولرزم کا ایقان بھی یہی پارٹی رکھتی تھی، لیکن رشوت ستانی ، مہنگائی ، بڑھتی غربت نے اس کی ہر جگہ اپنی نیا ڈبودیا ، جس کے مقابلہ صرف اور صرف متبادل راستہ بی جے پی کا تھا، لوگوں نے مودی کے ترقی کے بلند بانگ دعوؤں کو دیکھ کر اس کو بر سر اقتدار لایا، لیکن عوام نے دیکھا کہ 9،10مہینے گذرنے پر بھی ترقی کے دعوے محض دعوے ہی رہے ، آہستہ آہستہ بی جے پی کا گراف اور مقبولیت دن بدن کم ہونے لگی، پھر 10فروری کے دہلی الیکشن کے معلنہ نتائج نے بی جے پی کو اس کی اپنی حیثیت جانچ لینے کا کھلا موقع فراہم کیا،جس جمہوری راستے کو چھوڑ کر فسطائیت اور فرقہ پرستی اور دنگے وفساد کے راستے پر وہ چل پڑی تھی دہلی کے عوام نے یکجا ہو کر پھر سے اس کو یہ بتایا کہ ہندوستان بحیثت جمہوری ملک کے ساری دنیا کے لئے نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے ، ہندوستان کے سیکولرزم کو ، یہاں کی یکتا اور بھائی چارہ وہ کبھی بگڑنے نہیں دیں گے،وہ ایک ہیں اور ایک ہو کر رہیں گے، یہاں فرقہ پرستی ، ذات پات، بھید بھاؤ کا سبق دینے والوں کی کوئی ضرورت نہیں، دہلی انتخابات میں 87.1 لاکھ ووٹ پڑے جس میں آپ کو 54.3%ووٹ ملے ، بی جے پی کو32.4%اور کانگریس کو 9.4%ووٹ ملے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ دلی جس میں عآپ نے اب سے نو ماہ قبل ایک بھی لوک سبھا کی سیٹ حاصل نہ کی تھی اسمبلی انتخابات میں اس کو اس قدر زبردست کامیابی ملی کہ تین کے علاوہ سارے نشستوں پر قابض ہوگئی،یہ در اصل فسطائیت کے مقابلے جمہوریت کی کامیابی تھی، لوگوں نے بی جے پی کو اچھی طرح جانچا پرکھا ، پھر وہی کیجروال پھر وہی عوامی دوست آدمی کو انہوں نے اپنا اور زبر دست طریقے سے اپنا، جس آپ کے لیڈر کو بی جے پی یوم جمہوریہ کے موقع سے بطور سابق چیف منسٹر کے بلانا تک گوارا نہیں کیا،اس نے ایسے جیت درج کی اور دہلی کی گدی پر براجمان ہو ا یسے شاندار طریقے سے شاید اس سے قبلایسی کامیابی کسی کے ہاتھ آئی ہو، آپ نے گویا دہلی کے 95 فیصد سے زیادہ سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے اس سے پہلے ایساملک میں صرف دوبار سکم اور بہار میں ہواہے ، دہلی میں آپ کی زبردست جیت نے سکم سنگرام پریشد(ایس یس پی)کی جیت کی یاد تازہ کردی ہے جب پارٹی نے تمام 32سیٹں جیتی تھیں، جب کہ 2010 کے اسمبلی انتخابات میں بہار میں 243رکنی اسمبلی میں جے ڈی یو-بی جے پی اتحاد نے 206 سیٹیں جیتی تھی، 1991میں تامل ناڈو اسمبلی انتخابات میں اے ڈی ایم کے کانگریس اتحاد نے 234سیٹوں میں سے 225جیت درج کی تھی ، اسکے بعد والے انتخابات میں 234میں سے 221 جیتی تھیں۔
بہر حال عآپ کامیابی یہ دراصل جمہوریت کی فتح اور فسطائیت کی شکست کے مترادف تھی،اس سے اندازہ ہوا کہ ملک کی عوام اب بھی جمہوریت پر ایقان رکھتی ہیں، آپ 54.3%اور کانگریس9.4%ووٹوں کو جوڑا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کی تقریبا 65%فیصد جمہوریت ، بھائی چارہ ، میل جول پر یقین رکھتی ، فرقہ پرستی، ذات پات، بھید بھاؤ یہ ہندوستان کی ہمہ رنگی سے بالکل میل نہیں کھاتا،اس لئے بی جے پی کو ان انتخابات سے سبق سیکھنا چاہئے اور ہندوستان کی سیکولر شبیہ کو خراب کرنے والے عناصر کا حساب کتاب لینا چاہئے ، ورنہ جس قدر تیزی اور جتنی مقبولیت کے ساتھ وہ برسر اقتدار آئی تھی وہ دن دور ہی نہیں وہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس مقبولیت کا گراف کم ہوتا جائے گا۔
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Victory of Democracy and the defeat of fascism. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں