دہلی پبلک اسکول حیدرآباد برانچ سے اردو کی تدریس برخواست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-23

دہلی پبلک اسکول حیدرآباد برانچ سے اردو کی تدریس برخواست

حیدرآباد
ٹائمز آف انڈیا
اردو زبان کے چاہنے والوں کے لئے یہ ایک مایوس کن خبر ہے کہ دہلی پبلک اسکول خواجہ گوڑہ برانچ نے حال ہی میں والدین کو مطلع کیا ہے کہ اردو زبان کی تعلیم بطور زبان سوم اب آئندہ سال سے دستیا ب نہیں رہے گی۔اس بات کا علم اس وقت ہوا جب سینئر کانگریس قائد محمد خلیق الرحمن نے انتظامیہ کو لکھا اور زور دیا کہ اردو تدریس جاری رکھی جائے اور ختم نہ کی جائے ۔ ایک مکتوب میں خلیل الرحمن نے انتظامیہ کو بتایا کہ لگ بھگ10طلباء اردو زبان سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے بجائے سنسکرت یا فرانسیسی زبان منتخب کرنے انتظامیہ زور دے رہا ہے ۔ دیگر والدین نے بھی اسکول انتظامیہ سے اپنے تشویش ظاہر کی ہے۔ والدین نے اسکول کے ساتھ تعاون کرنے کا پیشکش کیا ہے تاکہ اردو زبان کو باقی رکھا جاسکے۔ خلیل الرحمن نے کہا کہ ان کی لڑکی تیسری جماعت میں پڑھتی ہے اور وہ مستقبل میں اپنی بچی کو اردو زبان سکھانا چاہتے ہیں۔اور اسکول انتظامیہ کے رویہ پر انہیں تشویش ہے ۔ اسکول انتظامیہ نے انفراسٹر کچر بشمول کلاس رومس کی کمی کو ان اقدامات کا سبب بتایا ہے ۔ ایک اور والد روبینہ احمد نے بھی انتظامیہ سے اردو کو برقرا رکھنے کی خواہش کی ہے ۔ والدین نے اس مسئلہ کو پروفیسر اختر الواسع سے رجوع کیا ہے جو لسانی اقلیتوں کے شعبہ لسانی اقلیت حکومت ہند میں کمشنر ہیں ۔ پروفیسر واسع نے بتایا کہ انہوں نے مسئلہ کو فروغ انسانی وسائل کی وزیر سمرتی ایرانی سے رجوع کردیا ہے ۔ اپنے مکتوب میں گزشتہ ہفتہ پروفیسر واسع نے مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی سے درخواست کی ہے کہ ضروری کارروائی کریں ۔ 1961میں چیف منسٹرس کانفرنس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا تھا کہ مادری زبان میں تعلیم کے لئے انتظامات کئے جائیں ۔ پورے اسکول میں40طلباء کے لئے ایک ٹیچر یا کسی جماعت میں10طلباء کے لئے ایک ٹیچر کا انتظام کیاجانا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ کیندریہ ودیالیہ سنگھٹن اور سی بی ایس ای کے علاوہ آئی سی ایس سی سسٹم لسانی اقلیتی گروپوں کے لئے خطرہ بن گیا ہے ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا نے بھی اسکول انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اردو برخواست کرنے اسکول کے فیصلہ پر افسوس ہے۔ اردو کے مضبوط گڑھ حیدرآباد میں یہ بات حیران کن ہے۔ وہ اس مسئلہ کو وزیر اعظم سے رجوع کریں گے۔ ڈی پی ایس کی اڈمنسٹریٹر کمار دیسائی نے اس معاملہ پر تبصرہ سے انکار کردیا۔ انہوں نے پرنسپال سے ربط پید کرنے اور رابطہ تفصیلات بتانے سے بھی انکار کردیا۔ دریں اثناء ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شہر کے120سی بی ایس ای اسکولس میں ہی اردو بطور زبان سوم پڑھائی جاتی ہے ۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ اردو تعلیم دینے والے اسکولوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی جارہی ہے ۔ ایک طرف اردو سیکھنے کی طلب میں کمی ہورہی ہے جب کہ دوسری طرف والدین کی طرف سے اردو کے مطالبات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر میں اردو اساتذہ یا انفراسٹرکچر کی کوئی قلت نہیں ہے ۔ عام طور پر کلاسس کو4تا5سیلیشنس میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ ایسا اسی وقت کیاجاتا ہے جب کہ مطالبات پیش کیے جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں