یکساں سول کوڈ اے ایم یو کی تہذیب و تشخص کے منافی - وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-15

یکساں سول کوڈ اے ایم یو کی تہذیب و تشخص کے منافی - وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ

نئی دہلی
ایس این بی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مقتدر ابنائے قدیم اوراس کے بہی خواہوں کے ایک وفد نے جمعہ،13فروری کو صدر جمہوریہ ہند سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو صدرج مہوریہ ہندکے بیانات کی روشنی میں نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مستقبل کے لئے مبارک قرار دیاجاسکتا ہے بلکہ ان تمام دانشگاہوں کے لئے یہ فال نیک ثابت ہوگی جن کا منفرد کردار اور خلقیہ(Ethos) ہے۔ اس وفد کی قیادت سابق وزیر خارجہ ہند سلمان خورشید نے کی جسمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ ، تحریک جامعہ کے بانیان میں ممتاز و منفردشخصیت کے حامل شفیق الرحمن قدوائی کے صاحبزادے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی جو انجمن ترقی اردو(ہند) کے صدر بھی ہیں اور جن کا شمار علی گڑھ کے ممتاز ترین ابنائے قدیم میں ہوتا ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد، روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو اور عالمی سمے ٹی وی چینل کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق نائب شیخ الجامعہ پروفیسر ابو الحسن صدیقی ، انجمن ترقی اردو(ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز ترین ابنائے قدیم ندیم ترین شامل تھے ۔ ہر چند کے وفد کی صدر سے ملاقات کا مقصد ڈیوٹی سوسائٹی کے125برس پورے ہونے کے موقع پر شائع ہونے والی ڈائرکٹری پیش کرنا تھا ، جسے صدر نے نہایت ہی تحسین کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی نہ صرف ستائش کی بلکہ مسلم تعلیمی پسماندگی کے موضوع پر ڈیوٹی سوسائٹی کے ذریعہ منعقد کئے جانے والے انٹر نیشنل سیمینار کی افتتاحی تقریب میں شریک ہونے کا وعدہ بھی کیا۔ صدر جمہوریہ سے ہونے والی ملاقات بالعموم رسمی نوعیت کی ہوتی ہے۔ مگر یہ ملاقات اس وقت ایک اہم موقع میں تبدیل ہوگئی جب صدر نے وفد کے اراکین سے گفتگو شروع کی۔ سلمان خورشید صاحب نے نہایت ذہانت سے گفتگو کی ابتداء کرنے کاموقع جنرل ضمیر الدین شاہ کو دیا۔ شیخ الجامعہ نے نہایت بے باکی کے ساتھ صدر کی توجہ تین اہم امور کی طرف مبذول کروائی ۔ انہوں نے حال ہی میں یونیورسٹی کورٹ کے لئے منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کے ان اراکین کے بارے میں ملک کے سیکولر طبقات میں پائی جانے والی تشویش سے آگارہ کیا جو کھلے طور پر فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے واضح طور پر مظفر نگر فسادات میں ملوث ممبر پارلیمنٹ سوم دت کا نام لے کر ان کی یونیورسٹی کورٹ میں شمولیت سے پیدا ہونے والی تشویش اور اس سے یونیورسٹی کے نظام پر ہونے والے منفی اثرات سے یونیورسٹی کے وزیٹر کو آگاہ کیا۔ جنرل شاہ نے حکومت ہند کی طرف سے یونیورسٹیوں کے نظام کو چلانے کے لئے بنائے جانے والے یکساں قانون(Single Act for all the Central Universities) کے بارے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ کی حیثیت سے اپنے تحفظات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی جس کی تائید جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر طلعت احمد نے بھی کی۔ صدر جمہوریہ نے بہ غور ان تحفظات کو سنا اور پھر کہا کہ ابھی انہوں نے اس موضوع پر وزیر بروئے فروغ انسانی وسائل سے بات نہیں کی ہے ۔ مگر وہ خود اس خیال کے ہیں کہ اس کوڈ کا اطلاق صرف انتظامی امور تک محدود ہونا چاہئے ۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی ، وشو بھارتی یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یورنیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو اس ایکٹ کے دائرے سے اس لئے باہر رکھاجانا چاہئے کیونکہ یہ دانش گاہیں مخصوص نظریاتی مقاصد کے ساتھ قائم کی گئی تھیں اور بہت حد تک ان کا انتظامی ڈھانچہ بھی ان742یونیورسٹیوں سے مختلف ہے جو محض اعلیٰ تعلیم دینے کے مقصد سے قائم کی گئی تھیں۔ مخصوص انتظامی ڈھانچے کے ذیل میں صدر جمہوریہ نے تفصیل کے ساتھ وشو بھارتی یونیورسٹی کے نظام پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے صدر جمہوریہ سے دخواست کی کہ وہ مرکزی حکومت کو مشورہ دیں کہ وہ دارالمصنفین اعظم گڑھ کو خدابخش لائبریری کے طرز پر مستقل مالی امداد فراہم کرے ورنہ وسائل کی عدم موجودگی میں یہ ادارہ نہ صرف اپنی ثقافتی میراث کے تحفظ میں ناکام رہے گا بلکہ اس کی لائبریری میں موجود ہزاروں نایاب مخطوطات کا خزانہ بھی دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے گا ۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ صدر محترم کو بتایا کہ دارالمصنفین اعظم گڑھ اردو کے فروغ کے ساتھ ساتھ تاریخ کے شعبہ میں بھی ریسرچ کا اہم ترین رول ادا کرتا آرہا ہے ۔ چنانچہ فروغ اردو کے لئے جتنے ادارے سرگرم ہیں ان کو پورے طور پر سرکاری امداد کے دائرے میں لایاجائے ۔انجمن ترقی اردو(ہند) کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے صدر جمہوریہ کی توجہ اردو کے سب سے اہم اور قدیم ترین ادارے انجمن ترقی اردو کی مالی حالات کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اب جب کہ مرکزی حکومت کی امدا د سے قومی اردو کونسل جیسے ادارے قائم ہوگئے ہیں اور صوبائی حکومتیں اردو اکادمیوں کی سرپرستی کررہی ہیں، انجمن جیسے رضا کار ادارے کیلئے نہ صرف اپنے منفرد وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے بلکہ اسی کی سر گرمیاں بھی وسائل کی عدم موجودگی میں محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت بغیر کسی شرط کے انجمن کو سالانہ امداد دے تاکہ وہ اپنے خود مختار انہ وجود کے ساتھ اردو کی ترقی کے اس سفر کو آگے بڑھا سکے جس کی وجہ سے آج ہندوستان میں اردو زندہ ہے ۔ صدر جمہوریہ نے انجمن کی ہر ممکن مدد کا وعدہ کرتے ہوئے پروفیسر قدوائی سے کہا کہ وہ انجمن کے مسائل پر تفصیل کے ساتھ انہیں لکھیں جس پر وہ مناسب کارروائی کا وعدہ کرتے ہیں۔

Uniform Civil Code against the culture and identity of AMU - VC Zameeruddin Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں