اب جبکہ سیاست کابخار دہلی میں سرچڑھ کر اپنا رنگ دکھارہاہے، نریندرمودی باضابطہ ایسے ماحول میں دہلی والوں سے مخاطب ہوئے جبکہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے ترکش کا ہر تیر آزما یاجاچکاتھا۔ اس کے باوجود بی جے پی کے سیاسی گلیارے میں ناامیدی ہرکسی کے چہرے پر اور بوکھلاہٹ ہر کسی کی پیشانی پر محسوس کرنے کے لائق تھی۔ مودی نے رائے عامہ کے مزاج کو بدلنے کیلئے اسی طرح گلاپھاڑا جس طرح وہ چند روزقبل ہریانہ میں ’’بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ‘‘کانعرہ لگالگاکر اپنا گلاپھاڑرہے تھے۔اس تلخ اور ناقابل تردیدسچائی کے ساتھ کہ نہ توموصوف خود ایک عدد بیٹی پیدا کرسکے نہ ہی ایک عدد بیوی کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔چنانچہ عام ہندوستانیوں کو انہوں نے ایسادرس دینے کی کوشش ضرور کی جو حساس ذہنیت کے لوگوں کیلئے بحث کامتقاضی ضرور بن گیا۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ دہلی کے انتخابی ماحول میں رنگ بھرنے کیلئے آخری داؤ لگاتے ہوئے وزیراعظم نے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش تو کی لیکن کیا لوگ قول و فعل کونہیں دیکھیں گے اور مودی کے اقوال کو صحیفۂ آسمانی کادرجہ مل جائے گا ۔مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی پہلوانی کامیاب ہوگی یاناکام یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس سچائی سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا کہ بی جے پی کے خیمہ میں زبردست مایوسی کااحساس پایاجاتاہے۔ اس احساس کومزید شدت کے ساتھ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروندکجریوال نے ا س وقت متعارف کرانے کی کوشش کی جب انہوں نے 70رکنی اسمبلی انتخابات کیلئے 70نکات پر مشتمل اپناانتخابی منشور جاری کیا۔ کجریوال صرف گرجے اور برسے نہیں بلکہ انہوں نے بڑی حدتک معقولیت پسند اندازمیں دہلی والوں کیلئے ایک پائیدار اور اچھی حکمرانی کے طور طریقوں کے حوالے سے پارٹی کا واضح نقشہ راہ پیش کیا۔
انتخابی منشور ہماری انتخابی روایات کا ایک لازمی حصہ قرار پاتاہے۔ ا س وجہ سے نہیں کہ انتخابی منشور کااجراء لازمی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ انتخابی منشور کے اجراء کی روایت اس قدر پختہ ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں عوام سے کئے گئے وعدوں کو اس میں شامل کرتی ہیں اور رائے عامہ کیلئے ان کے ذہن میں تعمیروترقی کاکیاخاکہ ہے، وہ اس کے ذریعہ متعارف کرایاجاتاہے۔ چنانچہ یہ کہاجاسکتاہے کہ انتخابی روایات کے تحت انتخابی منشورکااجراء ایک طرح لازمی ہے تاکہ عوام کو یہ باضابطہ طورپر بتایاجاسکے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کاموقف اور مطمح نظرکیاہے؟بی جے پی بھی اب سے قبل تک انتخابی منشور کے ذریعہ طول طویل دعوے اسی طرح کرتی رہی تھی جس طرح کے وعدوں کی طویل فہرست انتخابی منشور کاعمومی طورپر حصہ ہواکرتی تھی لیکن اس بار بی جے پی نے مینی فیسٹوجاری نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ چنانچہ عام آدمی پارٹی کیلئے بی جے پی پر حملہ آور ہونے کا ایک اضافی موقع ہاتھ آگیاہے۔ اروندکجریوال نے عام آدمی پارٹی کاانتخابی منشورجاری کرتے ہوئے جہاں ایک طرف اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کی وہیں دوسری جانب انہوں نے انتخابی منشور جاری نہ کرنے کے حوالے سے بھی بی جے پی کی جم کر خبرلی اوریہ پیغام دینابھی ضروری سمجھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سامنے دہلی کی تعمیر وترقی کے حوالے سے کوئی واضح نقشہ یاخاکہ موجود ہے ہی نہیں۔ بہت سے لوگ اروندکجریوال کے اس خیال کو صد فیصد درست گردانتے ہیں اوران کایہ بھی کہناہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس قدر تضاد کاشکاربن کر دہلی کے سیاسی دنگل میں قسمت آزمارہی ہے، اس سے یہ یہی پیغام ابھرتا بھی ہے کہ اقتدار پرقبضہ صرف اور صرف بی جے پی کا حقیقی منشور ہے جس کیلئے وہ سیاسی حربوں کو استعمال تو کرناچاہتی بھی ہے ، جانتی بھی ہے مگرعوام کیلئے باضابطہ طورپر کوئی خاکہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہوسکتا ہے یہ خیال بی جے پی کے نظریہ سے عدم اتفاق رکھنے والوں کا نظریہ ہو اورآزاد خیال مبصرین اسے تنگ نظری پر بھی محمول قراردیں لیکن ہمارا یہ مانناہے کہ صحت مند جمہوری قدروں کو فروغ دینے کیلئے سیاست کو تعمیری رخ پر آگے بڑھایاجاناچاہئے ، اوچھے ہتھکنڈے اختیارنہ کرنے چاہئیں،دوسروں پر تنقید کے تیر برسانے کی بجائے اُن تعمیری اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاناچاہئے جو صحت مند جمہوریت کو تقویت بھی پہنچائے اور صحت مندحکومت کی تشکیل کے بعد صحت مندقدروں کو بھی فروغ دینے کاضامن قرارپائے۔
بھارتیہ جنتاپارٹی ایک طرف تو یہ تاثر پیش کرتی ہے کہ وہ سب سے بڑی اصول پسند سیاسی جماعت ہے اور دوسری جانب اس کے قول وفعل کاتضاد واضح طورپر یہ پیغام دے دیاجاتاہے کہ اصول پسندی کاگلاگھوٹنا اس کی ترجیحات کا جزو اعظم ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمانی انتخابات کے زمانے میں نہایت زوروشور کے ساتھ انتخابی مہم چلائی تھی اورملک کے لوگوں سے یہ وعدہ کیاتھا کہ وہ سب کا وکاس کریں گے اور سب کوساتھ لے کر چلیں گے۔ 9ماہ کی حکومت میں ترقی کی رفتارکیاہے ؟وکاس کی گنگا کہاں بہہ رہی ہے ؟یہ تلاش کرنا بظاہرممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ رہی بات سب کو ساتھ لے کر چلنے کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کاطرز عمل واقعی قابل دید ہے۔
ایک پہلو میں گوڈسے ہے ۔دوسرے پہلو میں گاندھی ہیں۔ جبھی توایک طرف وزیراعظم نریندرمودی بابائے قوم کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں اوردوسری جانب ان کے چاہنے والے لوگ بابائے قوم مہاتماگاندھی کے قاتل کی مورتی نصب کرنے اور اس کا مندر بنانے کی کوشش میں آسمان سر پراٹھاتے ہیں۔ یہی توہے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ایک نمونہ ،جس کادہلی والے بھی کھلی آنکھوں سے مشاہد ہ کررہے ہیں ۔ چنانچہ اگر اس پس منظرمیں بھارتیہ جنتاپارٹی کے قائدین کو سخت جاڑے میں بھی پسینہ آرہاہے تواس میں نہ حیران ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پریشان ہونے کی حاجت ۔ یوں بھی اروندکجریوال جیسا ’خبطی‘ دہلی کی سیاست میں ایستادہ ہے جواپنے مخالفین پرحملہ آور ہونے کا کوئی بھی دقیقہ باقی نہیں چھوڑناچاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اروندکجریوال کے مشن کو ناکام کرنے کیلئے بھارتیہ جنتاپارٹی اپنے تمام چھوٹے بڑے قائدین کے ساتھ دہلی کے دنگل میں کودی ہوئی ہے اور ہروہ حربے اختیارکئے جارہے ہیں جن کے ذریعہ اقتدارپرقبضہ کی جنگ کو کامیاب بنایا جاسکے۔
دہلی میں اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کا بڑھتاگراف بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے فکر مندی کا بڑاسبب بن گیا ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کایہ خیال ہے کہ اسی پریشانی کے عالم میں بی جے پی نے کیجریوال کو ٹکر دینے کیلئے اب’ مکمل ٹیم‘ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔کہایہ بھی جارہاہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے سیاسی اسلحہ خانہ میں موجود تمام کارتوس استعمال کرلئے گئے ہیں لیکن اس سے عام آدمی پارٹی اورکجریوال کی سیاسی قوت میں بہ ظاہر کسی کمی کاکوئی احساس نہیں ہورہاہے بلکہ اس کے برخلاف جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آتاجارہاہے،مختلف سروے کی زبانی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ بی جے پی کی حالت پتلی ہوتی جارہی ہے۔حالانکہ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے دہلی کے سیاسی محاذ جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے جتنے نسخوں کو آزمایا ہے،شاید اتنے زیادہ نسخوں کواِس نے کہیں بھی نہیں آزمایاہوگا،پھر بھی دہلی میں یہ تصویرابھر کر سامنے آرہی ہے کہ سخت مقابلہ آرائی کے باوجود پارٹی کو اس بات کی ضمانت نہیں مل سکی ہے کہ اُسے بہرحال یقینی جیت مل ہی جائے گی۔
بی جے پی کیلئے چونکہ ا مید اچھی نہیں ہے،اس لئے تعمیری اندازمیں انتخابی مہم کو آگے بڑھانے کی بجائے اس نے تخریبی مہم شروع کردی ہے ۔اسی کوشش کے تحت روزانہ کیجریوال سے 5 سوال پوچھنے کا فیصلہ کیاگیا ہے تاکہ سوالوں میں عام آدمی پارٹی کو الجھاتے ہوئے ہوا کا رُخ بدلاجاسکے۔چونکہ اروند کی شبیہ ایک ایماندارمگرضدی قسم کے لیڈر کے طورپر ابھرکرسامنے آچکی ہے ،اس لئے بی جے پی نے لوہے کو لوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی اختیارکرنے کی کوشش کی اور اس کے تحت اس نے ایک بڑا سیاسی ماسٹر اسٹوک کھیلتے ہوئے کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا لیکن یہ بھی محض ایک اتفاق ہی ہے کہ ضدی قسم کی ریٹائرڈ آئی پی ایس خاتون کومیدان میں اتارنے کی حکمت عملی بے فیض ظاہر ہوگئی۔کرن بیدی کی ریلیوں میں بھیڑ جمع نہ ہونے سے فکر مند پارٹی نے ایک بار پھر پہلو بدل لیا ہے اور ایک طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی کاچہرہ پھرسے انتخابی مہم کے اصل ہیروکے طورپر پیش کیاگیاہے۔گویا دہلی کے الیکشن میں ایک طرف عام آدمی کی شکل میں چیونٹی ہے تودوسری جانب بھارتیہ جنتاپارٹی کی شکل میں ’ہاتھی‘کھڑا ہے بلکہ یوں کہئے کہ ہاتھیوں کی فوج خیمہ زن ہے۔پھربھی اس پہلوانی کوہمیں جمہوری روایات کے تحت الیکشن ہی کہناپڑے گاجس میں7فروری کو’عام آدمی‘ اپنی طاقت کااستعمال کرے گا۔دیکھنادلچسپ ہوگاکہ ’ہاتھی‘بمقابلہ’چیونٹی‘کی اس جنگ میں کون فتحیاب ہوگا،کون شکست خوردہ قرار پائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
![]() |
شاہد الاسلام |
The wrestling in Delhi elections. Article: Shahidul Islam
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں