یوم مادری زبان - اردو کے غیرمسلم پرستار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-25

یوم مادری زبان - اردو کے غیرمسلم پرستار

Urdu-language-and-our-responsibilities
اردو کے غیرمسلم پرستاروں کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان میں ایسے بھی چند نہیں خاصی تعداد میں گزرے ہیں جنہوں نے اردو کو مالا مال کرنے میں اپنا بے مثال کردار ادا کیا ہے۔
ہم اپنے عہد پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو تلوک چند محروم،جگن ناتھ آزاد، لبھو رام جوش ملسیانی، برج موہن دتاتریہ کیفی ،کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، رگھوپتی سہائے فراق ، کالیداس گپتا رضا، بال مکند عرش ملسیانی جیسے نجانے کتنے نام ہیں جو اردو دنیا میں اپنے کام سے مشہور ہیں اور پھرپنڈت آنند موہن گلزار زتشی، خوشبیر سنگھ شاد،جینت پرمارسے لے کر ہمارے شہر کے راجیش ریڈی تک ابھی بھی اپنے فکروفن سے زبان اردو میں شعر وادب کی زلفیں سنوار رہے ہیں۔ اردو زبان کا وہ کون پڑھا لکھا انسان ہوگا جو انھیں نہ جانتا ہو۔ جن حضرات کے اخیر میں نام لئے گئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو پچاس برس کی عمر سے کم ہو۔
اب آئیے ہم اپنی( مسلمانوں کی ) طرف بھی نظرڈالتے ہیں۔ مہاراشٹر میں بالخصوص ممبئی اور اطراف و جوانب میں اردو میڈیم اسکولوں کی کتنی تعداد ہے کون نہیں جانتا، کالجوں ہی میں نہیں اردو نہیں پڑھائی جاتی ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں بھی شعبۂ اردو قائم ہیں ایک بڑی تعداد میں اردو کے اساتذہ ان درسگاہوں میں موٹی موٹی تنخواہیں حاصل کر رہے ہیں۔ مگر ان اساتذہ کی اولادوں کے بارے میں یہ معلوم کرنا چاہیں کہ ان کے بچے کس میڈیم کے اِسکول میں پڑھ رہے ہیں۔؟

جو ہمارا مشاہدہ ہے اس کی روشنی میں عرض ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ان اساتذہ کے بچوں میں شاید ہی دو چار فیصد بچے ایسے ہونگے جو اردو میڈیم میں پڑھ رہے ہوں۔ ورنہ تو انگریزی میڈیم کی ایک آندھی ہے جس میں امیر غریب ،سب اڑ رہے ہیں بلکہ اس اڑان پر فخر بھی کر رہے ہیں۔ ہم اردو کی نئی نسل سے جب بھی گفتگو کرتے ہیں تو ایک شدید احساس جاگتا ہے کہ اردو کا حسن اس کی شیرینی اسکے تلفظ اور اس کے اِملے میں چھپی ہوئی ہے اور نئی نسل کے اکثر لوگ اس نزاکت سے بے بہرہ ملتے ہیں۔ ان میں جو چند شاعر اور چند ادیب یا استاد ہیں ان میں بھی ۔۔۔ عجب ۔۔۔ مل جاتے ہیں اور رہے بعض اچھے لوگ!۔۔۔
اور استثنیٰ توہر شعبے میں ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ استثنیٰ معیار نہیں ہوتا !!

۔۔۔ ہمارے دیرینہ رفیق کار سید محمد عباس نے ایک بار اپنی عمر سے کہیں بڑے ایک گجراتی جین مہاشے سے ملایا کہ یہ کیشو بھائی ہیں۔ ایک مدت پنجاب میں رہ چکے ہیں جہاں ان کو اردو والوں کی صحبت میسر رہی اور انہی میں سے کسی شاعر و ادیب سے انہوں نے اردو پڑھ لی۔ اردو زبان کا ایک اعجاز ہی کہا جائے گا کہ اس زبان سے واقعی دلچسپی رکھنے والا شعرو ادب کی کشش کی طرف راغب نہ ہو تو تعجب کی بات ہوگی۔ کیشو بھائی جب اردو ادب کی طرف آئے تو زبان ان کی خود بخود نکھرنے لگی اور اعلیٰ اردو ہی نہیں فارسی زبان سے بھی آشنائی ہوگئی اب اگر ان سے آپ ملاقات کریں تو یہ مہاشے ایسی شستہ اردو میں گفتگو کرتے ملیں گے کہ آپ کو شبہ ہوگا کہ آپ کسی جین کیشو بھائی سے بات کر رہے ہیں۔ اردو کے کلاسک شعرا کے انھیں اتنے شعر یاد ہیں اور دورانِ گفتگو بر محل اشعار یوں پڑھتے ہیں کہ تھوڑی دیر کیلئے آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ پچاس برس قبل کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ دورِ گزشتہ میں ایسوں کا ملنا ہر گز تعجب خیز نہیں تھا اور ان کا یوں تذکرہ بھی ہرگز نہیں ہوتا۔

خیر یہ کیشو بھائی تو معمر شخص ہیں اس عمر کے لوگوں میں اپنی سنسکرتی، اپنی تہذیب اور اپنی بھاشا، ساہتیہ یا اپنی زبان وادب سے دِلچسپی کا عمل ممکن ہے مگر یہ جو کارپوریٹ دَور کی نئی نسل ہے اس میں جب کوئی کیشو بھائی جیسا مل جاتا ہے تو ہم جیسو ں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ اتوار 15/ فروری کی شام سولاپور میں وہاں کی ایک تنظیم "اردو کانفرنس" نے "اردو دوست ایوارڈ" کے سلسلے میں ایک تقریب کا انعقاد کیا تھا اور مذکورہ ایوارڈ ایک جواں سال اردو دا ں "مَیور انڈی []" کو دیا جانا تھا۔ میور کےنام کا آخری لفظ ’انڈی‘ دراصل اس کے گاؤں کا نام ہے بعض علاقوں کے لوگ اپنے دیار کے نام ہی کو اپنا سَرنیم بنالیتے ہیں میور نے بھی کچھ یوں ہی کیا۔۔۔
میور کو سولاپور کی خاتون میئر ، ہمارے برادر اور اردو کےایک اچھے شاعر شاہد لطیف کے ہاتھوں "اردو دوست ایوارڈ" تفویض کیا گیا۔ اس عمل کے بعد میور نے اظہارِ تشکر کے طور پر جو تقریر کی اس سے ہم پر اس کی اردو دانی کے جوہر کھلے۔

ہمارے کئی مراٹھی دوست ہیں اور ان میں سے بعض اردو دوست بھی ہیں مگر جب وہ اردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو عموماً ان کا مراٹھی تلفظ اور مخرج آڑے آتا ہے۔ بالخصوص وہ Z (زیڈ)، ذ، ز، ض، ظ وغیرہ کا صحیح تلفظ ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں مگر میور کی تقریر میں ایسا نہیں ہوا بلکہ اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو عرض ہے کہ وہ پوری شائستگی کے ساتھ شستہ اردو بول رہا تھا۔ بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ اسے عربی کی شد بد بھی ہے اور وہ شعر و شاعری یا ادب ہی کا ذوق نہیں رکھتا بلکہ بتانے والوں نے تو یہ بھی بتایا کہ اس کے گھر میں امام بخاری کی شرح(احادیث) فتح الباری اور شرح ابو داؤد، بذل المجہود جیسی کتابیں بھی ہیں۔ یہ سن کر ہمارا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔

تقریب کے دوسرے دن میور سے کوئی دو گھنٹے کی ایک تفصیلی ملاقات ہوئی اس ملاقات کا موضوع صرف اور صرف زبان ہی رہا اس طرح وہ اور کھلا اور اردوکا اس کا ذوق بھی نمایاں ہوا۔ جواں سال میور انڈی فردِ واحد ہے مگر ہمارے گھروں میں ہمارے دور قریب بھی ایسا کوئی جوان نہیں یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ نہ تو شاعر و ادیب ہے اورنہ ہی اردو کا مدرس۔
جب یہ کالم آپ پڑھ رہے ہونگے تو اس دِن تمام دنیا میں "یوم مادری زبان" منایا جارہا ہے۔
اس دن ذرا ہم اپنی مادری زبان کے تعلق سے صرف اتنا ہی سوچ لیں :
کیا اس زبان(اردو) کا ہم پر کچھ حق ہے ؟ اورہمارے ہاں میور انڈی جیسے جوان کیوں نہیں ملتے ؟؟

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The Non-Muslim Urdu Lovers. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں