پشاور حملہ - قصوروار کون اور ماتم کس کے گھر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-04

پشاور حملہ - قصوروار کون اور ماتم کس کے گھر میں


Peshawar-school-attack
اس دن سوشل میڈیا کے ذریعے ایک انتہائی ہولناک خبر کی اطلاع ملی، فوری طور پر ٹی وی کھول کر دیکھا تو ہم طرف ماتم ہی ماتم تھا، ہر جگہ معصوم فرشتوں کا خون ہی خون تھا، انکی ننھی لاشوں کی تصویریں دنیا کے ہر ٹی وی چینل کی زینت بنی ہوئی تھی، یورپ کے میڈیا نے اس خبر کو بہت زیادہ کوریج دی ہوئی تھی، دنیا کا ہر لیڈر اس واقعہ پر تبصرہ کررہا تھا، دنیا کے ہر ملک کا سربراہ اس واقعہ پر شدید افسوس کا اظہار کررہا تھا۔ کہیں نریندر مودی کا اظہار افسوس منظر عام پر آرہا تھا تو کہیں ڈیوڈ کیمرون کی اسٹیٹمنٹ پیش ہورہی تھی تو کہیں باراک اوبامہ کا غم سے بھرا پیغام ارسال کیا جا رہا تھا۔
سوشل میڈیا میں ہر جگہ ہو کا سماں ہے، ہر بندہ ماتم میں ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے مگر میں سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا ہوں، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کے ہاتھوں میں معصوموں کا لہو تلاش کروں، کس کے گردن میں ان کا خون ڈالوں ہر چیز سمجھ سے باہر ہے۔ پرانی خبروں اور پرانے واقعات کا بغور جائزہ لیا، دھشتگردی کے تانے بانے کو ٹٹولا، اس کے بعد کچھ ریسرچر اور کچھ خفیہ ذرائع سے رابطہ کیا تھا بات کچھ اور ہی نکلی اس واقعہ کے تانے بانے کہیں اور جگہ سے نکلے، کچھ الگ سی باتیں عیاں ہوئیں اور چاہتے ہوئے بھی بہت سی باتیں لکھنا ضروری نہیں سمجھتا کہ ہر ملک کے کچھ اپنے سکیورٹی مفاد اور ان کی حدود ہوتی ہیں جس کو مد نظر رکھ کر حالات بیان کیے جاتے ہیں۔

اس واقعہ کا تعلق آج سے نہیں، اب سے نہیں بلکہ کئی برسوں سے ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب سے پاکستان نے اچھے طالبان اور برے طالبان کی تشریح کی ہے تب سے حالات نے رخ تبدیل کر لیا ہے، کسی کی جنگ اب اپنے گھر کے اندر لڑی جارہی ہے ، اب تک پاکستانی قوم نے 50 ہزار سے زیادہ لاشیں اٹھائیں ہیں مگر ہماری حکومت صرف اچھے طالبان اور برے طالبان کی تشریح نافذ کرنے کے چکر میں لگی ہوئی ہے۔

پاکستانی فوج پر یہ حملہ کوئی انہونی سے بات نہیں ہے ، کوئی حیران کن بات نہیں ہے مگر پریشانی والی بات یہ ہے کہ دھشتگرد اتنے طاقتور کیسے ہوگئے اور ان کا انٹیلی جنس سسٹم اتنا فعال کیسے ہوگیا ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور اس کے پورے سسٹم کو مفلوج کرکے ان کے اندر گھس کر ان پر وار کیا جائے اور ہر حملہ کامیاب بھی ہوجائے۔ اس جنگ میں عام آدمی سے لےکر وزیروں تک، عام سپاہی سے لےکر ڈی آئی جی تک، عام فوجی سے لے کر جرنل تک نے قربانی دی ہے، کسی اور کی جنگ اپنے اوپر نافذ کرکے۔

پاکستانی قوم 22 جون 2011 پاکستان نیوی کے مہران ایئر بیس کراچی کے حملے کو نہیں بھولی، جس میں پاکستان کے دو جدید ترین جاسوسی سے آرائستہ نیول طیارے تباہ کرکے پاکستان کو 6.47 ارب روپے کو نقصان دیا گیا، انویسٹی گیشن میں پاکستان نیوی کے لوگ ملوث پائے گئے جن کو کورٹ مارشل کرکے موت کی سزا سنائی گئی تھی اور نیوی کے ایک جرنل (کموڈور) کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی قوم یقینی طور پر 8 جون 2014 کے جناح ائرپورٹ کراچی کے حملے کو بھی نہیں بھولی جس میں 36 بے گناہ لوگوں بشمول 12 ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کو شہید کردیا گیا تھا اس حملہ کے 2 دنوں بعد پاکستان ایئر فوس کی اکیڈمی پر حملہ کیا گیا اور اس انویسٹی گیشن میں بھی پاکستان ایئر فورس کے لوگ ملوث پائے گئے۔

پاکستانی قوم یہ بھی نہیں بھولی کہ 6 ستمبر 2014 کو 10 دھشتگردوں بشمول 4 پاکستان نیوی کے اہلکاروں نے پی این ایس ذوالفقار پر حملہ کرکے اس کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور ان کا ارادہ تھا کہ اس نیول جہاز سے اینٹی شپ میزائیل کے ذریعے خلیج عرب میں موجود امریکہ کے جہاز کو تباہ کر دیا جائے۔ پاکستانی فورسز کی بروقت کاروائی سے ان سارے دھشتگردوں بشمول نیوی کے اہلکاروں کے ہلاک کر دیا گیا اور اندرون ملک مزید 4 نیوی اہلکاروں کو اس سازش میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔

ایسے بہت سارے واقعات ہیں جیسا کہ جنرل مشرف پر بے درپے کئی حملے جس میں بھی پاکستان آرمی کے اہلکار ملوث پائے گئے، 2012 میں پشاور ایئر پورٹ حملہ، 2014 کا کوئٹہ ایئر بیس حملہ اور 2008 کے دھشتگردانہ حملے میں پاکستان آرمی کے میڈیکل کور کے لیفٹیننٹ جنرل مشتیاق احمد بیگ کو شہید کردیا کیا اور ایسے لاتعداد دھشتگردانہ واقعات پاکستان کی سرزمین پر رونما ہوئے ہیں اور اب تک ہو رہے ہیں۔

پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی ان جنگ میں دو حصوں میں بٹ گئی ہے، ایک حصہ دھشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہے تو دوسرا حصہ پاکستانی جمہوری سسٹم کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس دھڑے میں بھی بہت سارے لوگ فوجی سپاہی سے لے کر جنرل تک موجود ہیں اس کی ایک تازہ مثال 5 مئی 2011 میں جی ایچ کیو کے ایک حاضر سروس برگیڈیئر جنرل علی خان کی گرفتاری ہے۔ برگیڈیئر جنرل علی خان کے رابطے دھشتگرد تنظیم حزب التحریر سے تھے جو تنظیم دنیا کے کئی ملکوں میں دھشتگرد تنظیم قرار دی گئی ہے بشمول پاکستان کے۔ برگیڈیئر علی خان اس دھشتگرد تنظیم کی مدد سے پاکستان کی حکومت کو گرا کر نام نہاد اسلامی حکومت بنانے کی سازش میں مصروف تھے۔

24 جولائی 2013 کو پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے دفتر سکھر (سندھ) میں خود کش حملہ بھی کسی سے ڈھپی چھپی بات نہیں جس میں 4 انٹیلی جنس آفیسرز بشمول آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر ذیشان کو شہید کردیا گیا، اس طرح مئی 2009 میں لاھور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر کامیاب حملہ جس میں 24 افردا شہید کردیے گئے، نومبر 2009 میں آئی ایس آئی کے پشاور دفتر پر حملہ جس میں 10 افراد کو شہید کردیا گیا اور ملتان کے آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ، یہ سارے تانے بانے ایک اندرونی کہانی کی طرف نشاندہی کررہے ہیں۔

طالبان سے لےکر حقانی نیٹ ورک تک، جیش محمد سے لےکر لشکر طیبہ تک، الیاس کاشمیری سے لےکر حافظ سعید تک، ملا عمر سے لےکر بیت اللہ محسود تک، یہ سارے رشتہ یہ ساری تنظیمیں بنانے والی ایک ہی قوت ہے، یہ سب کے سب اسی کے بچے تھے، اسی قوت نے ان کو پیدا کیا اور اب ان کے اپنے ہی بچے ان کے خلاف برسر پیکار ہوچکے ہیں، الیاس کاشمیری کو پاکستان آرمی کے سب لوگ جانتے ہیں، ان کو پید اکرنے والے آئی ایس آئی کے کرنل امام اور نیوی انٹیلی جنس اور بعد میں آئی ایس آئی کے خالد خواجہ کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا، پاکستانی قوم کو سب کچھ یاد ہے۔

اگر ہم 2008 سے لےکر 2013 (صرف 5 سالوں) کا حساب لگائیں تو ان دشتگردارنہ کاروائیوں میں ہزاروں پاکستانی عوام و سکیورٹی اہلکاروں کا بہمانہ قتل و غارت گیری ہوئی ہے، آئیے ان میں سے چند سالوں کی دھشتگردانہ کاروائیوں پر کچھ نظر دوڑائیں۔ یہ ریکارڈز پاکستانی سروے رپورٹ سے سے اخذ کیے گئے ہیں۔

سال 2008:
سال 2008 میں مجموعی طور پر 2,148 دھشتگردانہ اور فرقے وارانہ حملے ہوئے جن میں 2,267 لوگ ہلاک اور 4,558 لوگ زخمی ہوئے۔ ان میں سے خیبر پختونخوا میں 1,009 حملے، 682 بلوچستان میں، 385 قبائلی علاقوں میں، 35 پنجاب میں، 25 سندھ میں، 7 اسلام آباد میں اور 4 آزاد کشمیر میں حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

سال 2009:
سال 2009 میں مجموعی طور پر 2,586 دھشتگردانہ اور فرقےوارانہ حملے ہوئے جن میں 3,021 لوگ ہلاک اور 7,334 لوگ زخمی ہوئے۔ ان میں سے خیبر پختونخوا میں 1,137 حملے، 792 بلوچستان میں، 559 قبائلی علاقوں میں، 46 پنجاب میں، 30 سندھ میں، 12 اسلام آباد میں ، 5آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

سال 2010:
سال 2010 میں مجموعی طور پر 2,113 دھشتگردانہ اور فرقیوارانہ حملے ہوئے جن میں 2,913 لوگ ہلاک اور 5,824 لوگ زخمی ہوئے۔ ان میں سے خیبر پختونخوا میں 459 حملے، 737 بلوچستان میں، 720 قبائلی علاقوں میں، 62 پنجاب میں، 111سندھ میں، 5 اسلام آباد میں ، 5 آزاد کشمیر میں اور 13 گلگت بلتستان میں حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

سال 2013:
سال 2013 میں مجموعی طور پر 1,717 دھشتگردانہ اور فرقےوارانہ حملے ہوئے جن میں 2,451 لوگ ہلاک اور 5,438 لوگ زخمی ہوئے۔ ان میں سے خیبر پختونخوا میں 499 حملے، 487 بلوچستان میں، 293 قبائلی علاقوں میں، 38 پنجاب میں، 390سندھ میں، 4 اسلام آباد میں ، 1 آزاد کشمیر میں اور 5 گلگت بلتستان میں حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

ان سارے حملوں میں ایسے حملے یہاں بیان نہیں کیے گئے جن میں سیاسی حملے، اندرونی قبائلی جھگڑے، دھشتگردوں اور سکیورٹی فرسز کے ساتھ جھڑپیں اور سرحدی جھڑپیں ، اگر ان حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونی والی اموات کو یہاں ظاہر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر سال 10 ہزار سے زیادہ لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں کسی انسان کےموت کی قیمت کم از کم 1,000 روپے سے شروع ہوتی ہے، اب تو یہ حال ہے کہ اس ملک میں جہاں دھشتگردی کی لہر نے کئی ہزارہا لوگ نگل لیے ہیں وہاں ایک خودکش بمبار کی قیمت دس سے 20 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ 2008 کے الیکشن میں سیاسی حریفوں نے قبائلی علاقوں سے خود کش بمبار کی خدمات کرایہ پر حاصل کی گئی اور اس خدمات کے عیوض فی بمبار کی قیمت 10 سے 15 لاکھ ادا کی گئی اور ان خودکش بمباروں کو سیاسی جلسوں میں اڑایا گیا اور سیاسی حریف کا خاتمہ کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قبائلی علائقوں میں پچاس ھزار کے قریب خود کش بمبار تیار بیٹھے اپنےاگلے احکامات کے منتظر ہیں، یہ معاملہ اب بہت خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ دھشتگردوں کے تقریبا سارے گروپس داعش جیسی دھشت ناک تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں اور اس کا خیمازہ یہ ملک اور یہ قوم کیا ادا کرے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

پاکستان کے اندر دھشتگردی کی یہ لہر ختم ہونے والی نہیں ہے، اس کو ختم کرنے سے پہلے اندرونی غداروں و دھشتگردوں کا صفایا کرنا ہوگا۔ ان شدت پسند فوجی اہلکاروں، شدت پسند اداروں، شدت پسند مساجدو مدارس اور شدت پسند مذہبی پیشوائیوں کو جب تک ان کے اصل انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا تب تک پاکستانی عوام سکون کا سانس نہیں لے پائے گی۔
اس کے بعد پاکستان کو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کو از سر نو تشکیل دینا ہوگی۔ ہر قسم کی دھشتگردی کا خاتمہ کردیا جائے، اچھے اور برے دھشتگردوں کی تمیز ختم کردی جائے۔ عوام کے اندر شدت پسندی کے متعلق میں شعور پیدا کیا جائے، یونیورسٹیوں اور کالیجوں میں دھشتگردی کے خلاف تعلیم و تربیت شروع کردی جائے کہ عام لوگوں کو علم ہو سکے کہ اسلام اور شدت پسندی کے مابین کیا فرق ہے؟
ملک پاکستان کو بچانے کے لیے نہایت شدت کے ساتھ دھشتگردی اور دھشتگردانہ نظریات کے خلاف آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جس ملک کے اندر انصاف مہیا کرنے والی عدالتیں اور فیصلہ سنانے والے جج صاحبان دھشتگردوں کے سامنےبلیک میل ہوتے ہوں اور ڈر کے مارے دھشتگردی میں ملوث لوگوں کو مکمل بری کردیا جائے تو وہاں مقتول کو کبھی بھی انصاف مہیا نہیں ہوگا۔

سانحہ پشاور ہمیں جگانے کے لیے کافی ہے، اس کی مکمل تفتیش کی جائے اور اس میں ملوث ہر اس بندے کو چاہے وہ آرمی میں ہو، چاہے حکومت میں ہو، چاہے دھشتگرد ہو سخت ترین سزا دی جائے۔

***
The author is a Pakistan origin UK national and counter-terrorism expert.
dahri.noor[@]hotmail.com
نور ڈاہری

Peshawar attack - who is guilty and who is mourning. Article: Noor Dahri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں