تنوع کے حامل ہندوستان سے مشرق وسطیٰ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے - اسکاٹ اینڈ رسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-02

تنوع کے حامل ہندوستان سے مشرق وسطیٰ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے - اسکاٹ اینڈ رسن

پہلی جنگ عظیم کے بعد ممالک مشرق وسطیٰ کے مابین کھینچی گئی ’’مصنوعی سرحدیں‘‘ اب جب کہ بتدریج برخاست ہوتی جارہی ہیں اور ایسے میں جب کہ وہاں تشدد و عدم استحکام کا دور ایک طویل عرصہ تک رہنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں ، اس علاقہ میں امن و استحکام کے لئے ہندوستان ایک ماڈل بن سکتا ہے اور یہ علاقہ ہندوستان کے تنوع‘ تکثیریت اور ریاستوں کے لئے خود اختیاری سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔’’لارنس آف عربیہ‘ اور’’انقلاب عرب‘‘ کتابوں کے مصنف اسکاٹ اینڈ رسن نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ ہفتہ جئے پور ادبی فیسٹیول کے موقع پر اپنے انٹر ویو میں کیا اور کہا ’’ علاقہ مشرق وسطیٰ میں مجھے طویل عرصہ تک گڑ بڑ اور خونریزی کے آثار نظر آتے ہیں جہاں عراق اور لیبیا کے حالات عیاں راچہ بیاں کے مصداق ہیں لیکن آگے چل کر مجھے امید ہے کہ مغرب کے ساتھ عربوں کی شکایات اور تصادمکا کلچر ختمہوجائے گا۔‘‘ اسکاٹ اینڈ رسن نے جو امریکہ کے ایک سینئر نامہ نگار برائے جنگ رہے ہیں، ‘ اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر برطانیہ نے خود حکمرانی سے متعلق عرب قائدین سے کئے گئے وعدوں کو نبھایا ہوتا تو مشر ق وسطیٰ میں تقریباً ایک صدی سے جاری تشدد اور عدم استحکام کو ٹالاجاسکتا تھا یا کم ازکم اس کی شدت کو کم کیاجاسکتا تھا ۔ یہ وعدے، فوج کے ایک جونیر آفیسر ٹی ای لارنس کے ذریعہ کئے گئے تھے ۔ اس جونیر عہدیدار نے پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمان ترک کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی ۔ وعدوں پر عمل کے بجائے نسبتاً دو مزید جونیر سفارت کاروں نے(برطانیہ کے مارک سائلس اور فرانس کے فرانسیس جارج پیکاٹ) نے سائلس۔ پیکاٹ معاہدہ کے ذریعہ سلطنت( خلافت) عثمانیہ کے علاقہ جات کو زیادہ وسیع النظری کے بغیر منقسم کردیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علاقہ میں تیل دریافت نہیں ہوا تھا ۔ اینڈرسن نے بتای اکہ مختلف ’’مصنوعی ممالک‘‘ جیسے عراق ، لیبیا، شام، حتی کہ اردن اور بحرین کی تخلیق عمل میں آئی۔ مختلف قبائل اور گروہ وجود میں آئے جن میں کوئی بات مشترک نہیں تھی اور ان گروپس اور قبائل پر کسی ایک مرکزی اتھاریٹی کے ذریعہ حکومت عملاً ناقابل عمل تھی ۔ ان حالات میں مغربی سامراجیت نے عربوں میں’’شکایات کے کلچر‘‘ کو بڑھاوادیا۔ مقامی بااثر شخصیتوں (صدام حسین یا معمر قذافی)) کے گزر جانے کے بعد ان ممالک کے منتشر ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔‘‘ کچھ عرصہ قبل تک عراق ، عملاً تین ممالک کی شکل میں تھا ۔ اسی طرح لیبیا پھر ایک بار تین’’ ولایتوں‘‘ صوبوں میں منتشر ہوتا نظر آتا ہے ۔جیسا کہ سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا ۔‘‘
ان حالات میں ہندوستان کا تجربہ قابل قدر ہوسکتا ہے۔‘‘ ہندوستان میں اس کے تنوع کے ساتھ انفرادی طور پر ریاستوں کو خاطر خواہ خود اختیاری حاصل ہے اور ہندوستان ، ممالک مشرق وسطیٰ کے لئے ایک ماڈل بن سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ ممالک اب وہی صورت اختیار کررہے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے دوران دیکھی گئی تھی۔‘‘ اینڈر رسن نے خیال ظاہر کیا کہ سلطنت عثمانیہ کی ناکامی کو دیکھنے ک اایک عام رجحان پایاجاتا ہے۔ سلطنت عظمانیہ کی کمزوری یہ تھی کہ اس میں مرکز یت کا فقدان تھا اور مختلف مذاہب اور نسلی گروپوں کو خود اختیاری تھی ۔ لارنس آف عربیہ کے مصنف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگر سلطنت عظمانیہ کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال یاہبس برگ سلطنت کے بعد( یوگو سلاویہ کی خانہ جنگی کے بعد) مشرق یوروپ کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہ اعتبار مابعد پس منظر وہ صورتحال بہتر تھی۔ اسکاٹ اینڈ رسن نے بتایا کہ’’ ڈیوڈ لین‘‘ فلم دیکھنے کے بعد لارنس آف عربیہ کے تعلق سے ان مین زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی اگرچہ مذکورہ کتاب کے لئے ان کی ریسر چ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ مذکورہ مشہور فلم میں بعض حقائق سے روگرادنی کی گئی ہے ۔زندگی اور کیرئیر کے اعتبار سے لارنس کی کہانی، بڑی دلچسپ اور لائق بیان ہے۔ وہ عام شہری ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی بااثر شخصیت کا حامل تھا ۔ اس نے عربوں کو آزادی کے لئے راہ دکھائی ۔ یہ قیادت، ان وعدوں کی بنیاد پر کی گئی جن کے بارے میں لارنس جانتے تھے کہ ان کا ملک، ان وعدوں کو نبھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ وہ گویا دوعوالم کے درمیان پھنس کر رہ گی اتھا ۔ لارنس کی زندگی زیادہ پر مسرت نہیں تھی ۔ لارنس کو اپنے عروج کے زمانہ میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن بعد میں اس شخصیت کو فراموش کردیا گیا ۔ تاہم بعد میں فلم لارنس آف عربیہ کے ذریعہ اس کی زندگی پر روشنی پڑی ۔ چھاپہ مار جنگ میں لارنس کی کامیابی کو گھٹا کر نہیں پیش کیاجاسکتا کیونکہ لارنس جانتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں روایتی جنگ کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ بالخصوس1916ء میں اس وقت کے میسو پوٹیما میں زبردست برطانوی۔ ہند فوجی دستہ کے محصور ہونے کے بعد اور تاوان کے ذریعہ ان کی رہائی کی ناکام کوشش کے بعد لارنس ، اس نتیجہ پر پہنچے تھے۔ بتایاجاتا ہے کہ مذکورہ محاصرہ کی حالت میں تقریباً13ہزار افراد نے خود سپردگی اختیار کی تھی اور برطانوی افراد کی تقریباً70فیصد تعداد اور ہندوستانیوں کی تقریباً50فیصد تعداد اس محاصرہ میں فوت ہوگئی ۔

India can be good model for post–Arab Spring Middle East, Scott Anderson

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں