الیکشن میں ناکامی کے بعد بی ایس پی قومی پارٹی کا درجہ کھو سکتی ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-11

الیکشن میں ناکامی کے بعد بی ایس پی قومی پارٹی کا درجہ کھو سکتی ہے

bsp
لکھنو
یو این آئی
دہلی اسمبلی انتخابات میں دو سیٹوں اور چھ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بہوجن سماج پارٹی کا قومی پارٹی کا درجہ کھونا طے ہوگیا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) ذرائع نے بتایا کہ بی ایس پی کے لوک سبھا انتخابات میں ضروری فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اور مہاراشٹرا، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات مین ہار کے بعد پارٹی اپنا درجہ کھوسکتی ہے ۔ ذرائع نے مزید اطلاع دی کہ بی ایس پی کو معاملے سے متعلق نوٹس بھیج دیاجائے گا جب کہ متعلقہ کارروائی 31مارچ تک پوری کی جاسکے گی ۔ واضح رہے کہ پارٹی کو نوٹس دینے کا معاملہ لوک سبھا انتخابات سے ملتوی رکھا گیا تھا۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی نے کل70سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے مگر اسے صرف1.4فیصد ووٹ ہی حاصل ہوسکے۔ حالانکہ پارٹی سربراہ مایاوتی نے خو ددہلی کی انتخابی مہموں میں شامل رہیں مگر عام آدمی پارٹی کی لہر نے ان کی پارٹی کی قومی حیثیت کو برقرار رکھنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ قومی پارٹی کی حیثیت باقی نہ رہنے پر بی ایس پی کو سرکاری نشریاتی اداروں آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن سے ملنے والی مراعات سے محروم رہنے کے علاوہ ان علاقوں میں جہاں یہ ریاستی پارٹی کے طور پر تسلیم نہیں کی جاتی ہے وہاں ہاتھی کو اپنے علامتی نشان کے طور پر استعمال نہیں کرسکتی۔
اس سے پہلے چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی نے ہریانہ اور جھار کھنڈ میں ایک ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی ایس پی کو مہاراشٹرا اور ہریانہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ پر کامیابی کے بعد پارٹی کا قومی درجہ برقرار رکھنے کے لئے جھار کھنڈ اور جموں و کشمیر انتخابات میں کم سے کم تین سیٹوں کو حاصل کرنا ضروری تھا ۔ واضح رہے کہ بی ایس پی نے جموں و کشمیر میں1.4فیصد ووٹ حاصل کئے جب کہ جھار کھنڈ میں1.8فیصد ووٹ اور ایک سیٹ اس کے حصے میں آئی ۔ بی ایس پی نے مہاراشٹر اور ہریانہ کی کل سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے مگر ہریانہ کی صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی۔ ہریانہ میں2009کے انتخابات کا مقابلے میں بی ایس پی کا ووٹ فیصد6.73فیصد سے کم ہوکر 4.4فیصد تک آگیا جب کہ مہاراشٹر میں ووٹ فیصد2009کے مقابلے میں2.35سے گر کر2.2فیصد رہا ۔2014کے لوک سبھا انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے بی ایس پی کو شوکوز نوٹس بھیج دیا ہے ۔ ای سی نے پارٹی سے وجہ طلب کی ہے کہ کیوں پارٹی کے قومی درجے کو برقرا رکھا جائے جب کہ پارٹی ضروری معیار پر ہی پوری نہیں اتر پائی ہے۔ کسی پارٹی کو قومی پارٹی کے درجہ پر برقرار رہنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اسے زیادہ ریاستوں میں پارٹی کے طور پر تسلیم کیاجائے جب کہ بی ایس پی کو صرف اتر پردیش، اتر کھنڈ اور مدھیہ پردیش میں پارٹی کے طور پر تسلیم کیاجاتا ہے ۔ بی ایس پی کو1997میں قومی پارٹی کا درجہ دیا گیا تھا ۔ مذکورہ پارٹی کی کارکردگی اور مقبولیت شروعات میں تو بہتر رہی مگر2001کے یوپی اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے بعد اس کی مقبولیت میں برابر کمی آئی ہے ۔لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی کو300سیٹوں کے انتخابی مقابلے میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی اور صرف4.19فیصد ووٹ ہی اسے حاصل ہوئے ۔

ECI to decide on BSP's national party status by 'end of March'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں