اللہ عزوجل اپنے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کردہ کتاب میں عورتوں کے تعلق سے فرمایا ہے : "عاشروھن بالمعروف"(اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو)۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صنف نازک کے بہترین برتاؤ کی تاکید:
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کی تاکید کی ، خود آپ ا بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ۔
خود نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتاؤ ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے والا ہو
(ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل أزواج النبی ، حدیث : 3895 )
اور ایک روایت میں نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریرہ صفرماتے ہیں کہ رسول اللہا نے فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں
(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصےۃ بالنساء ، حدیث : 1468)
اور ایک روایت میں نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین برتاؤ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ، حضرتِ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاؤ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو،
(المستدرک : کتاب الایمان : حدیث : 173 )
بیویوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ برتاؤ:
حضورِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے ازواج کے ساتھ کس طرح بے تکلف ، پر لطف اور دوستانہ تعلقات تھے ا سکا اندازہ مندرجۂ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
* ایک مرتبہ حضور اکرم انے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو دونوں حالتوں کا علم مجھے ہوجاتا ہے ، حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ : یا رسول اللہ ! کس طرح علم ہوجاتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایاکہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہوتو "لا وربّ محمد"(محمد کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو، اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہوتو "لا ورب ابراہیم "(ابراہیم کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو ، اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیں ؛ بلکہ حضرت ابراہیم کا نام لیتی ہو ، حضرت عائشہ نے فرمایا : (یا رسول اللہ ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں )نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی
(بخاری : کتاب الأدب : با ب مایجوز من الھجران من عصی ، حدیث : 6078)
* ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت سودہ ؓ کے گھر میں تھے اور ان کی باری کا دن تھا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ایک حلوہ پکایا اور حضرت سودہ ؓ کے گھر پر لائیں اور لا کر حضوراکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا ، اور حضرت سودہ ؓ بھی سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ، ان سے کہا کہ : تم بھی کھاؤ،آپ سودہ ؓ کو یہ بات گراں لگی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جب میرے یہاں باری کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکاکر کیوں لائیں ؟ اس لئے انہوں نے کھانے سے انکار کردیا ، حضرت سودہ ؓ کے منہ پر مل دیا ، حضرت سودہؓ نے حضورا سے شکایت کی تو آپ انے فرمایا کہ : قرآن میں آیا ہے کہ "جزاء سےءۃ سیّءۃ مثلھا "یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے تو تم بھی بدلے میں اسی کے بقدر برائی کرو ؛ لہذا بدلہ میں تم بھی ان کے منہ پر حلوہ مل دو ؛ چنانچہ حضرت سودہؓ نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہؓ کے چہرے پر مل دیا ، اب دونوں کے چہرے پر حلوہ ملا ہوا ہے ، یہ سب حضور اکے سامنے ہورہا ہے ، اس دوران حضرت عمر کی آمد ہوئی توحضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان دونوں کو منہ دھونے کو کہا
(مسند ابی یعلی : مسند عائشہ : حدیث : 4476، دارالمأمون ، دمشق ،اطبعۃ الأولی 1404 ھ،
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ : او کو ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے محمد بن عمرو بن علقمہ کے ، ان کی حدیث حسن ہے : مجمع الزوائد :باب عشرۃ النساء: حدیث : 7683)
* حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں حضور اکے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (موٹاپے ) سے میرا جسم بھاری ہوگیا تو (اس زمانے میں بھی ایک دفعہ )ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے ، اس وقت آپ نے فرمایا : یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہوگیا
(ابودؤد : کتاب الجہاد ، باب فی السبق علی الرجل ،حدیث : 2578)
* حضرتِ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ : خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کا کھیل کھیل رہے تھے ، رسول اللہا ان کا کھیل دکھانے کیلئے میرے لئے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے ، (جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپ اکے کاندھے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ امیری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ؛ یہاں تک کہ( میرا جی بھر گیا )اور میں خود ہی لوٹ آئی۔
(مسلم : باب الرخصۃ فی اللعبۃ اللتی لا معصےۃ فیہ فی ایام العید : حدیث : 892)
* حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے پاس نکاح ورخصتی کے بعد آپ کے پاس آجانے کے بعد بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری سہلیاں تھیں ، جب حضرت گھر میں تشریف لائے تو وہ (آپ کے احترام میں کھیل چھوڑ کر )گھر کے اندر چھپتیں تو آپ ان کو میرے پاس بھجوادیتے اور میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔(بخاری : باب الانبساط الی النّاس ، حدیث : 5779)
عورت پر ظلم وزیادتی کی ممانعت:
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صنف نازک کو پیٹنے مارنے یااس کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا:
نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مرد کے بیوی کے ساتھ دوہرے معیار کو یوں بیان کیا ہے : تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹنے لگے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے اور پھر دوسرے دن جنسی میلان کی تکمیل کے لئے ا سکے پاس پہنچ جائے
(بخاری : کتاب النکاح ، باب ما یکرہ من ضرب النساء ، حدیث : 2908)
ایک دفعہ نبئ کریم اسے بیویوں کے حقوق کے متعلق پوچھا گیا تو آپ انے فرمایا : حکیم بن معاویہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہا سے پوچھا کہ : عورتوں کے ہم پر کیا حقوق ہیں ؟ تو آپ انے فرمایا : جب تم کھاؤ تو اس کو کھلاؤ ، اور جب تم پہنو تو اس کو پہناؤ ، نہ اس کے چہرے پر مارو اور نہ برا بھلا کہو اور نہ جدائی اختیار کرو ، اس کا موقع آبھی جائے یہ گھر میں ہی ہو
(ابوداؤد : کتاب النکاح ، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا ، حدیث : 2143)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے والوں کو خراب لوگ فرمایا: اپنی بیویوں کو مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں ،(ابن حبان :باب معاشرۃ الزوجین ، حدیث : 1489)اور خود نبئ کریم انے اپنی بیویوں میں سے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا'
(مسلم : باب مباعدتہ ، حدیث : 2348)
عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید
جس طرح مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی اس کے لئے بناؤ وسنگار کرے ،اسی طرح مرد کو بھی عورت کے لئے بناؤ سنگار کرنا چاہئے ،صاف ستھرا رہناچاہئے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ : میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے میں بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لئے اپنا بناؤ سنگھار کرتی ہے ؛ چونکہ ارشادِ باری عزوجل ہے :
وَلَھُنَّ مِثْلَ الَّذِیْ عَلَےْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرۃ : 228)
(اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا حق ا ن پر ہے دستور کے مطابق )
میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ تومیری تمام حقوق کی ادائیگی کرے ، حالانکہ اللہ عزوجل کا ارشا دہے کہ
"وَلِلرِّجَالِ عَلَےْھِنَّ دَرَجَۃٌ" (اور مردوں کوعورتوں پر فضیلت ہے )
(السنن الکبریٰ للبیہقی : باب حق المرأۃ علی الزوج ، حدیث : 15505)
یعنی جس طرح مرد کو ہر اعتبار سے عورت پر فضیلت حاصل ہے ، اسی طرح اسے اخلاق کے اعتبارسے بھی ا س پر فضیلت ہوناچاہئے ۔
ابویوسف ؒ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ : جیسے مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لئے زینت کرے ،اسے بھی یہ اچھا لگتا ہے کہ میں اس کے لئے زینت کروں "کما یعجبنی أن تتزین لی زوجتی یعجبھا أن اتزین لھا
(الفتاوی الھندےۃ : 5؍259)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ازواج کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے :
حضراتِ انبیاء اہلِ خانہ کی ضروریات کا خیال کرتے تھے ،چنانچہ حضرت موسی ؑ اللہ کے پیغمبر ہیں ، ان کی بیوی بیمار حالت میں ہیں ، انہیں سردی لگی اور وقت کے پیغمبر آگ ڈھونڈنے کے لئے چل پڑے ، پرودگار کو پسند آیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا ۔
نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنتِ مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، گھر کے دیگر ضروریات کو پورا کرتے ، حضرت عائشہؓ سے حضور اکے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے بتایا کہ : "اپنے سر سے جوئی نکالتے ، اپنی بکری کا دودھ دوہتے ، اپنے کپڑے سی لیتے ، اپنی خدمت خود کرلیتے ، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاو چھوڑ کر چلے جاتے
(ترمذی : باب مما فی صفۃ اوانی الحوض : حدیث : 2489)
بچیوں کی پرورش کی فضیلت:
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ رحم وکرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بہترین برتاؤ کا حکم کیا ، قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث ننگ وعار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے
" وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِےْمٌ، ےَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ
(سورۃ النحل: 58)
جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی آپ ا نے نہ صرف عورت کو جینے حق دیااور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا ؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر وبرکت کا باعث او رنزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخولِ جنت کا ذریعہ بتایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبئ کریم انے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں ، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پا س رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرادیں گی
(ابن حبان:باب ما جاء فی الصبر والثواب،حدیث:2945)
حضرت انس ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گیجیسے یہ دو انگلیاں ۔یہ ارشاد فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا
( ترمذی:باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات،حدیث:1914)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کیلئے دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی
(بخاری: باب رحمۃ الولد، حدیث:5995)
عورتوں کی کوتاہیوں سے درگذر کا حکم :
نہ صرف یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کا حکم کیا ؛ بلکہ اس کی کمی کمزوری اور عورت خاص مزاجی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکالیف کو انگیز کرنے کی بھی تاکید فرمائی:
اسی کو اللہ عز وجل نے یوں فرمایا :
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ، فَاِنْ کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَےْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَےْئاً وَےَجْعَلُ اللّٰہُ فِےْہِ خَےْراً کَثِےْراً " (النساء: 19)
اور ان عورتوں کے ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے ۔
اسی کو ایک روایت میں نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اسلئے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوارِ خاطر ہے ؛ اس لئے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آجائے "لا یفرک مؤمن مؤمنۃ وان کرہ منھا خلقا رضی منھا اخر
(مسلم : باب الوصےۃ بالنساء ، حدیث : 1469)
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا، ماں، بہو، ساس ، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق عنایت کئے ، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا، اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کریم کا طرز وعمل تھا۔
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Behaviour of the Prophet saw with the women. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں