شہاب الدین کے بعد اسد الدین ہندوستانی سیاست کا روشن ستارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-10

شہاب الدین کے بعد اسد الدین ہندوستانی سیاست کا روشن ستارہ

asaduddin-owaisi
کہتے ہیں کہ ستاروں سے تمام فضائے سمائی بھری پڑی ہے لیکن دمدار ستارے ہمیشہ طلوع نہیں ہوتے ۔ یہی حال زمین کے ستاروں یا تاروں کا ہوتا ہے ۔ اصحاب عزائم کم ہی لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنے عزائم، حوصلے اور ہمت اور ایمان و اسلام کی وجہ سے ہندوستانی سیاست کے افق پر سید شہاب الدین صاحب شمس و قمربن کے چمکے بہت دور تک روشنی پھیلتی چلی گئی اور آج بھی باقی ہے ۔ اب اسد الدین صاحب آسمان سیاست کے روشن ستارے نظر آرہے ہیں ۔ خدا کرے ان کی چمک دمک تادیر قائم و دائم رہے اور پورے ملک کے انسانوں کو ان کی شخصیت سے فائدہ پہنچتا رہے ۔محترم سید شہاب الدین نے اپنی قابل قدر ملازمت سے استعفیٰ دیا اور مسلمانوں کی حالت زار کے پیش نظر سیاست کی خار دار جھاڑیوں میں قدم رکھا ۔ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے ۔ مسلم مجلس مشاورت سے ناطہ جوڑا ۔ پہلے بھی اور سیاست میں آنے کے بعد بھی مسلم اہل علم و عمل کے قدر داں رہے۔ جنتا پارٹی جب بکھر گئی تو نتیش کمار نے سمتا پارٹی بنائی۔ سید صاحب ان کے ساتھ بھی ہوگئے مگر جب دیکھا کہ نتیش کمار نے بی جے پی کا ہاتھ پکڑ لیا تو سید صاحب نے اپنے آپ کو الگ کرلیا۔ مایوسی اور ناامیدی کو اپ نے پاس آنے نہیں دیا ۔ انصاف پارٹی کی تشکیل کی مگر انہیں انصاف نہیں ملا جو لوگ ساتھ تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ کر بیچ راہ سے چلے گئے ۔ ملت نے ان کی فرقہ ورانہ سیاست کا انتظار کیا مگر وہ سیکولر سیاست کے حامی رہے اگرچہ انہیں مسلمانوں کے محسن کی حیثیت سے جانا گیا ۔ خاص طور پر شاہ بانو کے مقدمہ اور اس کے فیصلے کے بعد تحفظ شریعت کی تحریک سے اور اس سے کہیں زیادہ بابری مسجد کی تحریک نے انہیں مسلمانوں کی صف اول کا لیڈر بنادیا ۔ ان کے بارے میں اپنے اور بیگانوں نے بہت ساری غلط فہمیوں کو پھیلایا مگر وہ آج تک بیماری اور کمزوری کے باوجو د راست بازی ، صداقت پسندی اور حق پرستی سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوئے جو لوگ ان کو دور سے جانتے ہیں بھلے وہ غلط فہمیوں کے شکار ہوں گے مگر جو انہیں قریب سے جانتے ہیں ان کی ایمانداری اور سچائی کے قائل ہیں ۔ راقم گواہ ہے کہ انہیں ہر وقت سچا اور اچھا انسان پایا ۔ وہ ذاتی مفاد سے بہت بالا تر ہوکر کام کرتے رہے اور آج بھی کمزوریوں اور بیماریوں کے حملوں کے باوجود کام سے باز نہیں آتے ۔آزادی کے بعد ڈاکٹر فریدی صاحب مسلم سیاست کے ستارے بن کر چمکے مگر ایک خاص علاقہ اتر پردیش کو ہی تھوڑی دیر کے لئے روشن کرسکے مگر وہ اور ان کی پارٹی بہت جلد بجھ سی گئی ۔ سید شہاب الدین ملک بھر میں چمکے اور مسلمانوں کا حوصلہ اور ہمت بڑھاتے رہے ۔ آزادی کے بعد ایسی قد آور شخصیت مسلمانوں کے اندر سے کوئی اور ابھی تک ابھر نہ سکی ۔ جس نے اپنی تقریر و تحریر ، علم و عمل سب کچھ مسلمانوں کے لئے نچوڑ کر رکھ دیاہو۔ بعض خامیاں اور کوتاہیاں ضرور ہیں جو ایک لیڈر میں نہیں ہونا چاہئے مگر وہ اس قدر نہیں ہیں کہ ان کی ساری خدمت گزاریوں پر دھبہ بن سکیں ۔ بشری کمزوریاں کس میں نہیں ہوتیں ۔ بہر حال وہ اپنے کاموں سے جانے جارہے ہیں اور انشاء اللہ جانے جاتے رہیں گے ۔ اللہ سے ان کے لئے ان کی صحت کے لئے ہر ایک کو دعا گو ہونا چاہئے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں اس وقت ایک دو گھنٹہ مشکل سے کام کرپاتے ہیں ، مگر کرنے والوں کا حوصلہ اب بھی بڑھاتے رہتے ہیں ۔

سید شہاب الدین کے بعد اس وقت اسد الدین اویسی جن کی عمر۴۵سال ہے ۔ بیرسٹر ہیں ، قانون کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ، دین سے بھی واقفیت ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی قانون ساز ادارے کے ممبر ہیں ۔ اچھے پارلیمنیٹرین کی حیثیت سے ایوارڈ یافتہ ہیں، اچھی تقریر کرتے ہیں ، تحریر بھی اچھی ہے انگریزی اور اردو کی لیاقت سے بھی مالا مال ہیں مسلمانوں میں مقبول عام ہورہے ہیں ۔ اسد الدین صاحب پارلیمنٹ کے فلور پر بولتے ہیں تو بہت ہی اچھا انداز ہوتا ہے مدلل اور جامع انداز سے بولتے ہیں، مخالف کو خموش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر موصوف جب مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کرتے ہیں تو جوش اور جذبہ میں آکر ملک کی فضاء اور اسلامی آداب کا لحاظ کم کرتے ہیں ۔ اسد الدین صاحب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہے ۔ ان کو طاقت حاصل ہوچکی ہے وہ نفرت اور کدورت کی سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں ان کی پوری سیاست اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بھی فرقہ پرستانہ سیاست کا زور ہو تاکہ وہ ہندو بھائیوں کو مزید فرقہ پرست بناسکیں۔ مسلم دشمنی پر اکسا سکیں ۔ ایسی حالت میں کوئی مسلمان لیڈر جس کی بات طول و عرض میں سنی جاتی ہے اہمیت دی جاتی ہے اگر وہ فرقہ وارانہ لب و لہجہ میں بولتا ہو یا تقریر کرتا ہو تو غیر شعوری طور پر ہی سہی مگر حقیقت میں وہ فرقہ پرستوں کے مطلب و مقصد کو پورا کرتا ہے ۔ اس سے بھی اہم اور ضروری بات ہے کہ اسلام فرقہ واریت کا سخت مخالف ہے۔ اسلام کے نزدیک سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ ایک ہی خاندان ایک ہی پریوار سے سب کا تعلق ہے ۔ انسانوں کے سارے مسائل ہمارے مسائل ہیں یعنی مسلمانوں کے مسائل میں ان کو بڑھانا نہیں بلکہ چاہئے بلکہ حل کرنا ہمارا کام ہے اگر ہم صرف مسلمانوں کے لیڈر اور رہنما بنتے ہیں اور مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ جو کمزور ہیں ۔ کچلے اور دبے ہیں ان کو بھول جاتے ہیں تو یہ اسلام کے مطابق نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ہے ۔ اسلام سب کے لئے ۔ قرآن سب کے لئے ہے ۔ حضرت محمد ﷺ سب کے رسول اور ہادی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں فرقہ واریت نہیں ہے ۔ اسلام حقیقت میں بندگی رب کا نام ہے اور نتیجہ کے لحاط سے سب کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور کمزوروں اور غریبوں کے ساتھ ہمدری کرنے کا نام ہے ۔
مسلمان ہندوستان میں اپنا مسئلہ صرف اس لئے حل نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل صرف مسلمانوں کے پاس ہیں ۔ حالانکہ پوری ہندوستانی قوم مسائل اور مصائب سے جوجھ رہی ہے ۔ تعلیم کا مسئلہ ہے، معاشی کا مسئلہ، صحت کا مسئلہ اور رہائشی مسئلہ ہے ان سب سے ہر مذہب اور فرقہ کا غریب کراہ رہا ہے ۔ امیروں کی ٹولی اور سرمایہ داروں کا طبقہ غریبوں اور کمزوروں کا خون چوس رہا ہے ۔ کھیت، جوتنے والے کو دو وقت کی روٹی ٹھیک سے میسر نہیں ہے ۔ مزدور کو اپنے بچوں کو پڑھانے اور علاج کرانے کی سکت نہیں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان سب کے لئے سوچیں سب کے مسئلہ کو حل کریں اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اللہ کے کنبے کا ہر فرد اسلام کے قریب آئے گا مسلمانوں سے قریب آئے گا اور سنگھ پریوار کی نفرت کی دیوار گرے گی اور وہ اپنی کوشش اور جدو جہد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ آخر میں ہم کہیں گے کہ اسد الدین صاحب اس وقت مسلم عوام کی امید پر کھرے اتر رہے ہیں ۔ مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبولیت بھی حاصل کررہے ہیں ۔ تمام مسلم جماعتوں کو ان کا ساتھ دینا چاہئے اور ان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا لب و لہجہ بدلیں سارے انسانوں کی بات کریں صرف مسلمانوں کی بات نہ کریں اس سے موصوف مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت کے کچھ زیادہ ہی لائق و فائق ہوجائیں گے ۔ آخر میں علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں جو مومن کے اوصاف بیان کئے ہیں وہ محترم اسد الدین کی نذر کرتا ہوں ۔
مصافِ زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا
گزر جا بن کے سیلِ تندرو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
****
نگہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
***
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

***
عبدالعزیز
azizabdul03[@]gmail.com
After Shahabuddin, Asaduddin emerges as strong Muslim leader. Article: Abdul Aziz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں