سید شہاب الدین کے بعد اس وقت اسد الدین اویسی جن کی عمر۴۵سال ہے ۔ بیرسٹر ہیں ، قانون کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ، دین سے بھی واقفیت ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی قانون ساز ادارے کے ممبر ہیں ۔ اچھے پارلیمنیٹرین کی حیثیت سے ایوارڈ یافتہ ہیں، اچھی تقریر کرتے ہیں ، تحریر بھی اچھی ہے انگریزی اور اردو کی لیاقت سے بھی مالا مال ہیں مسلمانوں میں مقبول عام ہورہے ہیں ۔ اسد الدین صاحب پارلیمنٹ کے فلور پر بولتے ہیں تو بہت ہی اچھا انداز ہوتا ہے مدلل اور جامع انداز سے بولتے ہیں، مخالف کو خموش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر موصوف جب مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کرتے ہیں تو جوش اور جذبہ میں آکر ملک کی فضاء اور اسلامی آداب کا لحاظ کم کرتے ہیں ۔ اسد الدین صاحب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہے ۔ ان کو طاقت حاصل ہوچکی ہے وہ نفرت اور کدورت کی سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں ان کی پوری سیاست اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بھی فرقہ پرستانہ سیاست کا زور ہو تاکہ وہ ہندو بھائیوں کو مزید فرقہ پرست بناسکیں۔ مسلم دشمنی پر اکسا سکیں ۔ ایسی حالت میں کوئی مسلمان لیڈر جس کی بات طول و عرض میں سنی جاتی ہے اہمیت دی جاتی ہے اگر وہ فرقہ وارانہ لب و لہجہ میں بولتا ہو یا تقریر کرتا ہو تو غیر شعوری طور پر ہی سہی مگر حقیقت میں وہ فرقہ پرستوں کے مطلب و مقصد کو پورا کرتا ہے ۔ اس سے بھی اہم اور ضروری بات ہے کہ اسلام فرقہ واریت کا سخت مخالف ہے۔ اسلام کے نزدیک سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ ایک ہی خاندان ایک ہی پریوار سے سب کا تعلق ہے ۔ انسانوں کے سارے مسائل ہمارے مسائل ہیں یعنی مسلمانوں کے مسائل میں ان کو بڑھانا نہیں بلکہ چاہئے بلکہ حل کرنا ہمارا کام ہے اگر ہم صرف مسلمانوں کے لیڈر اور رہنما بنتے ہیں اور مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ جو کمزور ہیں ۔ کچلے اور دبے ہیں ان کو بھول جاتے ہیں تو یہ اسلام کے مطابق نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ہے ۔ اسلام سب کے لئے ۔ قرآن سب کے لئے ہے ۔ حضرت محمد ﷺ سب کے رسول اور ہادی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں فرقہ واریت نہیں ہے ۔ اسلام حقیقت میں بندگی رب کا نام ہے اور نتیجہ کے لحاط سے سب کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور کمزوروں اور غریبوں کے ساتھ ہمدری کرنے کا نام ہے ۔
مسلمان ہندوستان میں اپنا مسئلہ صرف اس لئے حل نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل صرف مسلمانوں کے پاس ہیں ۔ حالانکہ پوری ہندوستانی قوم مسائل اور مصائب سے جوجھ رہی ہے ۔ تعلیم کا مسئلہ ہے، معاشی کا مسئلہ، صحت کا مسئلہ اور رہائشی مسئلہ ہے ان سب سے ہر مذہب اور فرقہ کا غریب کراہ رہا ہے ۔ امیروں کی ٹولی اور سرمایہ داروں کا طبقہ غریبوں اور کمزوروں کا خون چوس رہا ہے ۔ کھیت، جوتنے والے کو دو وقت کی روٹی ٹھیک سے میسر نہیں ہے ۔ مزدور کو اپنے بچوں کو پڑھانے اور علاج کرانے کی سکت نہیں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان سب کے لئے سوچیں سب کے مسئلہ کو حل کریں اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اللہ کے کنبے کا ہر فرد اسلام کے قریب آئے گا مسلمانوں سے قریب آئے گا اور سنگھ پریوار کی نفرت کی دیوار گرے گی اور وہ اپنی کوشش اور جدو جہد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ آخر میں ہم کہیں گے کہ اسد الدین صاحب اس وقت مسلم عوام کی امید پر کھرے اتر رہے ہیں ۔ مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبولیت بھی حاصل کررہے ہیں ۔ تمام مسلم جماعتوں کو ان کا ساتھ دینا چاہئے اور ان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا لب و لہجہ بدلیں سارے انسانوں کی بات کریں صرف مسلمانوں کی بات نہ کریں اس سے موصوف مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت کے کچھ زیادہ ہی لائق و فائق ہوجائیں گے ۔ آخر میں علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں جو مومن کے اوصاف بیان کئے ہیں وہ محترم اسد الدین کی نذر کرتا ہوں ۔
مصافِ زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا
گزر جا بن کے سیلِ تندرو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
****
نگہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
***
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
***
عبدالعزیز
azizabdul03[@]gmail.com
عبدالعزیز
azizabdul03[@]gmail.com
After Shahabuddin, Asaduddin emerges as strong Muslim leader. Article: Abdul Aziz
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں