بی جمالو کا دوپٹہ بیچ بجریا میں ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-10

بی جمالو کا دوپٹہ بیچ بجریا میں ۔۔۔

AAP-sweep-delhi
شیفتہ کا صوتی پیام کیا تھا بی جمالو سیاسی پارٹی کا کوئی مژدۂ دلخراش تھا ۔۔۔۔ کسی صیاد کا نالۂ حسرت و یاس تھا ۔۔۔۔۔۔ یا کسی شکوہ سنج کا اضطراب تھا ۔۔۔ یا ۔پتہ نہیں کسی دل جلے کی آہ کو برقی نظام میں قید کر دیا گیا تھا۔۔ عجیب و غریب موسیقی کی دھن تھی کہ جس میں درد و الم کا جدید امتزاج تھا۔۔۔ ایسی دھن جیسے اکثر اقتصادی انحطاط پر مغربی ایوانوں میں نوحہ خواں بجاتے ہیں ۔۔۔ کچھ ایسا ہی صوتی ارتعاش شیفتہ کے برقی پیام سے موبائیل میں پیدا ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔
ہم نے حیرت و استعجاب سے سوالیہ نشان کی علامت انہیں ارسال کردی ۔۔۔۔۔ تاکہ معلوم تو ہو کہ صبح صبح ایسا کیا ہوا ہے جو موبائیل کا اسقدر جدت پسندی کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے۔۔ ترقی پسندی کا بر ملا اظہار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ شیفتہ نے مو بائیل پر فورا جوابی بگل بجا دیا۔۔۔۔۔ فرمانے لگے۔۔۔۔۔یہ دھن ہمارے اخبار فروش نے دی تھی ۔۔۔خاص لکھنوکا ہے ۔۔۔کہہ رہا تھا ۔ حضور نادر شاہ سے پوچھیو۔ اور اگر ہمری نہ مانوں تو انگریزوا سے پوچھیوکہ دلی کو کوئی چانکیہ نیتی یا نادر شاہی حکم سے آج تک لوٹ نہیں سکا ۔۔۔۔ ہاں اچکا گیری اور اٹھائی گیری کر لیجو تو اور بات ۔۔۔
فرمایا ۔۔ہم نے اس کمبخت سے یہ بھی پوچھا کہ۔۔۔۔۔ بھیا کیا بی جمالو کی کوئی خبر ہے۔۔۔۔کہنے لگا ۔۔۔۔ حجور آپ نے بیچ بجریا میں اسکا دوپٹہ چھین لیا ہے۔۔۔۔۔ ہم نے کہا بھیا کیا کہہ رہے ہو ہم تو ابھی بازار کے لئے نکلے بھی نہیں ۔۔۔اور یہ اوچھی حرکتیں ہم لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔۔۔۔ ہم مغل الاصل والنسل ہیں ۔۔۔ہم کسی کے حقوق یوں نہیں چھینتے۔۔۔۔ارے ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنے فرائض منصبی ہو یا مسلکی کچھ بھی ادا نہیں کرسکے۔۔۔اور نہ ہی موروثی ایمان کا قرض ۔۔۔۔تاریخ کے اوراق سے لپٹ کر روتی ہوئی انسانیت کو حق کا پیغام نہیں سنا سکے تو ہم کسی کا حق کیسے چھینتے۔۔۔۔ ہم لوگ تو بس حکومت کے نشے میں مبتلا تھے ۔۔۔۔ اب پچھتاتے ہیں جب جامع مسجد کی محرابوں کو خون آلود دیکھتے ہیں۔۔۔ لال قلعہ کی لالی میں بد عنوانی اور سیاست غلیظہ کی سیاہی دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ زمانے کے رخسار پر ٹہرے ہوئے آنسو کے قطرے کو گدلایا ہوا اور بے نور دیکھتے ہیں۔۔۔ ہم لوگوں نے اپنی ہزار سالہ حکومت میں بہت کچھ اچھا برا کیا ہوگا لیکن سب سے برا یہی کیا کہ انسان کو انسان کا بنیادی حق جو ہمیں حاصل تھا وہی نہیں دیا۔۔۔۔ حق سے آگاہ نہیں کیا۔۔۔۔۔طاقت و دولت کے نشے سے احتراز نہیں کیا ۔۔۔ہمارے قدم ہی نہیں بلکہ ہمارے تو قلب و ذہن بھی لڑکھڑاتے تھے۔۔۔۔۔ کیا عوام اور کیا خواص ہر کوئی ہمیں دیکھتا اور ہمارے پاؤں کی لغزشوں کو کبک دری کی چال سمجھتا ۔۔۔۔ اور بس ہماری اسی جھوٹی شناخت کو ہر کوئی رد و بدل کے ساتھ اپنانے لگا۔۔۔۔ جب ہنس ہی چال چلنے لگے کوے کی تو وقت بھی کیا کرتا ۔۔۔۔۔۔ رنگ بدلنے لگا۔۔۔ اخبار فروش کہنے لگا حجور برا مان گئے ۔۔ہم کیجریوا کا کہہ رہے ہیں۔۔۔اس کی پارٹی آپ نے بیچ بجریا میں بی جمالو کا دوپٹہ چھین لیا ہے۔۔۔۔ بہت اترائے ا پھر رہی تھی ۔۔۔۔۔ ہم نے کہا بھیا ۔۔ اب کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ کہنے لگا ہاں کچھ جیادہ نہیں ۔۔ بگھی تو سب باطل کی ہے کھیوے ہے۔۔۔ گھوڑے الگ الگ ہیں سب کے لیکن منزل سب کی ایک ہی ہے ۔۔وہی تختوا ہے۔۔۔جسکے ریشمی پایوں سے عوام کی گردن بندھی ہوئی ہے۔۔۔

ہم نے شیفتہ سے پوچھا۔۔۔۔۔ تو کیا حضور ہم یہ سمجھ لیں کہ اختتام کی شروعات ہو چکی ہے؟ ۔۔۔
کیا شازیہ کی کم علمی رنگ لے آئی ہے ۔۔ کیا کرن اور نجمہ کے قلب و نگاہ کی بے نوری کنول کے مرجھانے کا باعث بن گئی ہے اور کام تمام کر گئی بی جمالو کا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا شاہ نما گداوں کی اور شیر نما گدھوں کی ہیکڑی دھری رہ گئی ہے ۔۔ کیا بی جمالو کو کشکول اور تاج میں مماثلت کا پتہ چل گیا ہے ۔۔۔۔۔ کیا شہنوازوں، اکبروں اور مختاروں کو منافقت کے آئینہ میں سچ نظر آ گیا ہے ؟ کیا سادھووں سنتوں، عالموں اور اماموں کے بھیس میں چھپے بہروپیوں کی اصلیت ظاہر ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔ کیا اہل ہند کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔۔۔؟
فرمایا :
یہ سب ہم نے اس اخبار فروش سے پوچھا بھی تھا ۔۔ کہنے لگا۔۔۔۔۔ایسا ہی کچھ لگتا ہے۔۔ بلکہ اس سے سوا ۔۔۔۔ جب سے ببوا امریکہ سے آئے تھے ۔۔۔ پپوا کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے تھے ۔۔ پپوا تو انکے قدمن کا چاپ سے ہی بتیا گئے تھے ۔۔۔۔کیا کرتے، نئی نئی عاشقی اور اوپر سے معشوق بھی ابلقی ۔۔ببوا تو امریکہ پہنچ کر یہ کہنے لگے۔۔
اٹھ کر تو آگئے ہیں تیری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
۔۔بغیر کچھ کہے سنے۔۔ اپنی گہری گہری نگاہوں کو چائے کی چسکی میں غوطہ دے دے کر سمجھا آئے ہیں کہ ۔۔۔۔پپوا تعصب و طرفداری اور مذہبی دہشت گردی سے پرہیزکیجیو اور اپنی پارٹی کے لوگن کو سمجھا دیجیو ۔۔اور اگر ہمرا کہا نا مانوں تو پھر بھگتو ۔۔۔ یہی کچھ وہ چینی للنوا بھی پیسوا لگانے سے پہلن خاموشی سے کہہ گئے تھے ۔۔۔بلکہ او تو گھر پہنچ کر حملے کا حکم صدر کردیا تھا سسرا۔۔۔ ۔۔
شیفتہ نے فرمایا ۔۔۔۔اخبار فروش اور بھی نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا صحیح طور سے یاد نہیں رہا ۔۔ ہاں ایسا ہی کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ ببوا امریکہ سے آکر یہ بھی کہہ گیا ہے کہ ۔۔۔لال قلعہ پر بھگوا لہرانے کا خواب نہ دیکھیو ۔۔۔۔۔ ابھی ہندوستان ایسے کئی ملک ہیں جن پر دولت مشترکہ کی حکمت عملی کے تحت ہم جنگی اسلح، میک ڈونالڈ اور پتزا بیچ بیچ کر ذہنوں پر حکومت کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ساق بلوریں پر جام بلوریں رکھ کر تھرکتی موسیقی سے دلوں پر راج کرتے ہیں ۔۔۔۔
فرمایا ۔ وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ بی جمالو کے گنے چنے عاشقوں کو پتہ ہے کہ انکی کرتا دھرتا جماعت یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔۔۔اور ببوا بھی امریکہ سے آکر سب کچھ دیکھ گیا ہے ۔۔۔ گھر واپسی سے لیکر باپو کے قاتل کی پوجا تک۔۔۔۔۔اور اس دھرتی کے نام نہاد تاجر اور صنعتکارسپوتوں کی ٹیکس چوری اور کالے دھن کی داستان سے لے کر عیسائیوں پر ظلم کی ابتدا تک اور مسلمانوں پر ظلم کی انتہا تک ۔۔۔
اخبار فروش کہہ رہا تھا۔ بی جمالو کو کیا پتہ کہ دلی کیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ خود غرض سرمایہ داروں اور صنعتکا روں کی بستی نہیں ہے ۔۔۔ یہاں ابھی دلداری زندہ ہے ۔۔۔۔ ثقافت، رواداری بھی ابھی پائی جاتی ہے ، ۔۔۔ گنگا و جمنا بھلے ہی میلی کردی گئی ہو لیکن ان علامتوں پر اتنی کثافتیں نہیں جمی ہیں کہ بار دیگر لوگ دھوکا کھانے لگے ۔۔۔۔ ابھی یہاں شازیہ کی کم علمی اور کرن کی بے نوری لوگوں کو ورغلا نہیں پائی ۔۔۔۔
ہم نے پوچھا حضور اب ان دونوں کا کیا ہوگا۔۔۔۔
فرمایا۔۔۔ ان دونوں کا کیا ہے ۔۔ یہ دونوں اب نالاں رہیں گی جرس کیطرح کارواں میں۔۔۔ لیکن مسلمانوں کا کیا ہے اب انہیں کہاں یاد رہتا ہے دلی کا بار بار لٹنا اور پھر ابھرنا۔۔۔بلکہ ہم لوگ تو یہ سبق ہی بھول گئے ہیں کہ بقول شاعر ۔۔۔" یہاں کوتا ہئ ذوق عمل ہے خود گرفتاری ۔۔۔۔۔۔۔ جہاں بازو سمٹتے ہیں ونہیں صیاد ہوتا ہے"۔۔۔۔ پھر چاہے دلی ہو یا لاہور، کشمیر ہو یا سوات ، کابل ہو یا بغداد، استنبول ہو یا حمص۔۔۔ تہران ہو مسئول، اردن ہو یا فلسطین۔۔۔یمن ہو یا ریاض ۔۔۔ہم لوگ اپنی پرواز کھو بیٹھے ہیں۔۔۔۔علم و فن کی پرواز۔۔۔۔ افکار و بیان کی پرواز۔۔۔۔اخلاق و تکریم کی پرواز ۔۔۔۔رحمت و محبت کی پرواز۔۔۔ہم لوگوں نے اسیری بھی ان صیادوں کی مول لی ہے جو خود صیہونی دولت میں پابہ زنجیر ہیں ۔۔۔۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

AAP sweep in Delhi. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں