اے خیام کا ادبی سفر اور ناول - سراب منزل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-12

اے خیام کا ادبی سفر اور ناول - سراب منزل

A-Khayyam-novel-Saraab-Manzil
اے۔خیام ایک سچے،حقیقی اور کھرے تخلیق کار کا نام ہے جس کی شناخت دنیائے ادب میں ایک منفرد اور معتبر افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو اہمیت دیتے ہیں ذریعۂ اظہار ان کے نزدیک زیادہ اہم نہیں چنانچہ انہوں نے اپنے تخلیقی اور ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا۔اچھی نظمیں اور غزل کہنے کی بھر پور صلاحیت رکھنے کے باوجود اپنی تخلیق کا ایک مستند ناقد کی طرح تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ شعر میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار نہیں کر پارہے چنانچہ شاعری کو خیر باد کہ کت فکشن کی طرف ہوگئے۔
پرفیسر علی حیدر ملک،شہزاد منظر،شمیم منظر،محمود واجد،صبا اکرام،احمد زین الدین ،نسیم انجم اوریاور امان جیسے احباب کے حلقے میں اپنی تخیلق کا گہر لٹانے لگے مگر یہاں بھی ان کے اندر موجود کڑے نقاد نے انہیں اپنی بھرپور گرفت میں لئے رکھا۔مطالعہ ان کی فطرت ثانیہ تھی اور ہے۔ملازمت کے علاوہ ان کی مصروفیات خالص ادبی نوعیت کی رہی چنانچہ سہ ماہی "آئندہ"اور سہ ماہی"روشنائی"سے ان کی وابستگی قائم رہی اور ہے۔
1962ء سے افسانہ لکھنا شروع کیالیکن "کاتا اور لے دوڑے"کی بجائے ایک طویل وقفے کے بعد دوستوں کے بے حد اصرار پر 1993ء میں اپنا پہلا افسانوں کا مجموعہ "کپل وستو کا شہزادہ"کے نام سے منصہ شہود پر لائے۔اس مجموعے میں شامل افسانے اپنے زمانے کے مخصوص اثر کے ترجمان تھے۔آپ اسے ان کے مزاج کے perfectionistاور selectiveہونے کی دلیل کے طور پر لے سکتے ہیں مگر اسے کوئی فارمولا قرار نہیں دے سکتے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ کم لکھنے والے ہی اچھا لکھ سکتے ہیں۔یہ بات ان کے مزاج کی ہے۔ان کے افسانوں میں نہ صرف یہ کہ کہانی موجود ہوتی ہے بلکہ وہ کہانی بھی جو برصغیر بلکہ دنیا بھر کے لئے غیر معمولی کشش رکھتی ہے۔کہانی جو انسان کے جذبہء تجسس کو بیدار کرتی ہے،اسے ابھارتی ہے اور اس کے فطری جذبے کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔یہ سب کچھ انسان میں نامعلوم کو جاننے کی خواہش کا ہی کرشمہ ہے جو ماں کی گود سے لحد تک ساتھ ساتھ محو سفر رہتا ہے۔اے۔خیام نے بھی سفر کیا اور مختلف ممالک میں قیام اور وہاں کے معاشرتی و سماجی رویوں اور معاملات سے آگاہی نے بھی انکی کہانیوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے افسانے محض تصوراتی نہیں ہوتے بلکہ وقت اور سماج سے جڑے ہوتے ہیں جو قاری کو اپنی طرف بھرپور کشش کے ساتھ متوجہ کرتے ہیں۔
کوئی 12سال کے وقفے کے بعد افسانوں کا دوسرا مجموعہ "خالی ہاتھ"کے عنوان سے شائع ہوا جس کی ادبی دنیامیں بے حد پذیرائی ہوئی اور ہو رہی ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانے موجودہ منظر نامے سے مطابقت رکھتے ہوئے آج کا افسانے کہلانے کے صحیح معنوں میں حقدار ہیں۔جس خوبی سے ان کہانیوں میں نشتر زنی کی گئی ہے وہ ایک ماہر نباض اور قلم کار ہی کرسکتا ہے۔
ابھی اس مجموعے کی گونج جاری تھی کہ 2011ء میں مضامین کا مجموعہ بامعنی اور خوبصورت عنوان یعنی "ترسیل و ترویج"کے نام سے شائع ہوا۔اس میں شامل ہر مضمون نہ صرف یہ کہ خالص انتقادی حسن کا آئینہ دار ہے بلکہ ان کے ذوق مطالعہ اور فکری سطح کی بلندیوں کا تحریری ثبوت بھی۔اس مجموعے کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے داداغلام صمدانی صمد جو اپنے وقت کے انتہائی اہم اور قابل ذکر شاعر رہے ہیں،کے حالات زندگی اور ان کے دستیاب شعری سرمائے کو بھی اپنے مضمون کا حصہ بناکر آج کی ادبی دنیا کو ایک قابل ذکر اور قادرالکلام شاعر سے روشناس کروایا ہے۔ادبی حلقوں نے ان کی اس کتاب کو بھی ایک اہم اور قابل ذکر کتاب کے طور پر محسوس کیا اور اس کا برملا اظہار بھی۔یہ وہ ضمنی باتیں تھیں جو ان کے ادبی مقام اور مرتبے کے حوالے سے ضروری تھیں۔اصل موضوع ان کا حالیہ ناول جو 2013ء میں "سراب منزل"کے نام سے شائع ہوا،ہے۔اس ناول کے ضمن میں ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی کی بزم "مجلس احباب ملت"کی ماہانہ نشست میں تحریری آراء پیش کرچکا ہوں مگر اسے باضابطہ مضمان کی شکل دے کر اہل ادب مے سامنے ان کی کاوش اور خوبصورت اورکمال تخلیق پرمفصل گفتگو اخلاقی اور ادبی فریضہ جان کر پیش کر رہا ہوں۔
223صفحات پر مشتمل یہ ناول"سراب منزل"ہے جس کے فلیپ اور پس ورق پرناول کے حوالے سے ڈی۔ایچ۔لارنس اور محمد حسن عسکری کی ناول کی صنف ادب کے بارے میں مختصر مگر اہم رائے شامل اشاعت ہے۔انتساب اپنے بچوں کے نام ہے مگر کس طرح ملاھظہ فرمائیے۔
"یاور خیام،آصف خیام اور سونیا کے نام جنہیں پھلتے پھولتے اور زندگی بسر کرنے کی ایماندارانہ روش دیکھ کر ہمارے قلب و ذہن خوشیوں اور طمانیت سے مالامال ہوجاتے ہیں"۔
اس کتاب میں کسی پیش لفظ یا تقریظ کا اہتمام نہیں کیا گیابلکہ انتساب کے بعد جونہی صفحہ پلٹتے ہیں، ناول شروع ہو جاتا ہے۔اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ جوں ہی آپ نے اس کا مطالعہ شروع کیا آپ کہانی،تحریر اور کردار کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں پھر اختتام تک پڑھتے چلے جاتے ہیں(کم از کم میں نے ایسا ہی کیا تھا۔۔۔پڑھتا چلا گیا اور 223ویں صفحہ پر جاکر دیر تک سوچتا رہا اور سوچتا سوچتا سوگیا)۔کسی ناول کی کہانی،اس کا بیانیہ،طرز تحریریقیناًبہت اہم ہوتے ہیں مگر ناول کی readabilityبھی بہت اہم ہوتی ہے اور اس ناول کی یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے۔ایسا نہیں کہ اس ناول میں کوئی حیرت انگیز یا انوکھی کہانی تخلیق کی گئی ہو بلکہ ملک سے باہر روزگار اور سکون کی تلاش میں سرگرداں نوجوان کی کہانی ہے جس کا انجام عام طور پر خوش کن نہیں ہوتا۔اے۔خیام کی واقعات نگاری،مختصر اور بامعنی جملوں سے بات کو آگے بڑھائے جانے کا فن،کردار نگاری اور ہالینڈ جانے والے پاکستانیوں کی مشکلات سے واقفیت نے ناول کو انتہائی مربوط اور قابل مطالعہ بنا دیا ہے۔
سراب منزل کی کہانی متوسط طبقہ کی کہانی ہے جہاں خالص مشرقی اقدار پر مشتمل ایک چھوٹا سا خاندان جو صرف چار افراد علی احمد(ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر)،دو بیٹے ریحان اور فرحان جبکہ ایک بیٹی رابعہ ہے،ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہے۔بڑا بیٹا ریحان بینک میں ملازم ہے۔دوسرا بیٹا فرحان انگلش میں ماسٹرز کرنے کے باوجود۔۔لیکچرارکا باعزت پیشہ اس لئے اپنا نا نہیں چاہتا کہ والد علی احمد صاحب نے آخر پوری زندگی لگا کر اس شعبے سے کیا حاصل کیا چنانچہ وہ ہالینڈ جاکر اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنا چاہتا ہے۔وہ والد،بھائی،بہن اور احباب کی بات کسی صورت سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کیونکہ اس نے اپنی تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کا خواب ہالینڈ کے حوالے سے دیکھا ہے اور اپنی ضد پر قائم رہتا ہے۔اس کے خالہ زاد اسلم نے جو خود ایک کالج میں لیکچرار تھا بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔شہزاد مرزا جو اس کا دوست تھا اس نے سمجھانے کی کوشش کی مگر جب وہ اپنے ارادے پر قائم رہا تو اس نے ریحان سے یہ کہ کر اجازت دینے کی استدعا کی کہ اسے ایک تجربہ کر لینے دیں۔ہالینڈ سے آئے ہوئے رضی بھائی نے بھی اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ یورپ جانے کے خواب کو جلد از جلد تعبیر میں ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف رہا اور اس کے لئے احمد علی کے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم جسے انہوں نے اپنی بیٹی رابعہ کی شادی کے لئے رکھ چھوڑی تھی، سے اپنے ہالینڈ جانے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے باپ کو بھی راضی کر لیا۔بہ مشکل رضی بھائی بھی تمام انتظامات پر راضی ہوگئے۔چنانچہ پروگرام کے مطابق فرحن ترکی اور جرمنی کے راست ہالینڈ پہنچتا ہے۔سفر کی صعوبتوں کی داستان رضی بھائی کو سناتا ہے کہ کس طرح اور کن مشکلات سے گزر کر sealedکنٹینروں میں سفر کیا اوراس دوران دم گھٹنے کی وجہ سے ایک ساتھی مر بھی گیا۔غیر قانونی طرقوں سے بیرون ملک جانے اور وہاں رہنے والوں کو کن کن اعصاب شکن حالات اور پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ضمیر کے خلاف فیصلوں اور کام کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،بہت تفصیل کے ساتھ ناول میں بیان کیا گیا ہے۔اس دوران فرحان پر جو گزری سو گزری مگر اس کے بعد اس کے گھر والوں پر کیا گزری وہ ایک الگ دکھ بھری داستان ہے۔
فرحان کے جانے کے بعد شہزاد مرزا کا اس کے گھر آنا جانا بہت بڑھ گیا۔ادھر اس کے والد بینائی سے محروم ہوئے اور پھر ملک عدم سدھار گئے۔حالات کی مجبوری کے سبب رابعہ کو شہزادکے کارخانے میں ملازمت کرنی پڑی اور پھر ایسا وقت بھی آیا جب وہ شہزاد مرزا کی ہوس کا شکار ہوگئی۔بھائی ریحان بینک منیجر کے عہدے پر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پہنچے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئے جبکہ رابعہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک اسکول میں وائس پرنسپل کے عہدے پر فائز ہے۔خالہ ناظمہ کی بیٹی سلیمہ جو فرحان کے ہالینڈ جانے پر خوش نہیں تھی فرحان کی خاموش محبت سینے میں چھپائے بالآخر شادی کی اور دو بچوں کی ماں بن گئی۔رابعہ کی بھابھی مریم نے اسے شادی کرنے کے لئے راضی کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناچار رابعہ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اس کہانی میں رضی بھائی کو ایک ہمدرد ہم وطن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔چودھری عزیز ایک کاروباری شخص ہے جو تارکین وطن سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ساکھ بناکر پیسہ کماتا ہے۔سیمونا فرحان کی زندگی میں ایک اچے دوست کے طور پر آتی ہے جس کی نظروں میں فرحان ایک شریف اور باکردار مسلمان کا تاثر چھوڑتا ہے۔لیلیٰ ایک کاروباری کردار ہے جو paper marriageکے ذریعہ پیسہ کمانے کا پیشہ اپنائے ہوئے ہے۔
پورے منظر نامے کو اے۔خیام کے فنکارانہ انداز بیان اور کرداروں پر مضبوط گرفت نے کہانی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔کہانی کے مرکزی کردار فرحان کو بنیاد بناکر غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے والوں کا انجام جومحرومی،بربادی اور پچھتاوے پر منتج ہوتے ہیں "سراب منزل" سے تعبیر کیا ہے۔
ناول کی خوبی یہ ہے کہ نہ تو واقعات نگاری کی آر میں بے جا طوالت اختیار کی گئی اور نہ ہی اس درجہ اختصار سے کام لیا کہ کہانی ناول سے افسانہ کا روپ دھار لے۔واقعات اتنے مربوط طریقے سے بیان کئے گئے ہیں کہ آپ کو ایک ایک حرف اورایک ایک جملے پر بھرپور توجہ رکھنی پڑتی ہے۔آرزوؤں اور توقعات کے محل تعمیر کرنے والے ناعاقبت اندیشوں کا انجام نہ صرف یہ کہ اپنے چاہنے والوں،محبت کرنے والوں اور دعائیں دینے والوں سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں بھی بے بسی اور بے چارگی کا زہر بھر لیتے ہیں۔
ناول میں شامل کچھ جملے ملاحظہ کیجئے: -
"اگر تمہیں اللہ پر بھروسہ نہیں،اپنی تعلیم اور اپنی ذہانت پر اعتماد نہیں،اپنے بازوؤں پریقین نہیں تو تمہاری تعلیم و تربیت تو رائیگاں گئی"۔
"ایک کتاب پر اسکی نظر ٹھہر گئی۔یہ سلمان رشدی کی "سیٹنیک ورسز"تھی۔۔۔میں چاہوں گی کہ تم اسے نہ پڑھو،مجھے تو اس کتاب کو پڑھ کر بہت غصہ آیا۔یہ ناول نہیں ہے،دانستہ اسے متنازعہ بنایا گیا ہے،یہ سچ بھی نہیں ہے،تاریخی حقیقتوں کو بری طرح اور بہت بد نیتی سے مسخ کیا گیا ہے۔ایک فکشن رائٹر کو اتنی غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دینا چاہئے"۔
"سیمونا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔فرحان دروازے کی طرف بڑھنے لگا تو وہ راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔فرحان نے اسے حیرت سے دیکھا۔"تم مجھے kissکرنا چاہوگے! "اس نے فرحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔فرحان اسے دیکھتا رہا۔ّہستہ سے اس کا ہاتھ اپنے کاندھے سے ہٹایا اور اس کی پیشانی چام لی"۔
"کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تمہارے لئے سفارش نہ کر کے میں نے کسی دوسرے طریقے سے اس کا ازالہ کر دیا ہے۔لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا۔تمہاری زندگی،رابعہ کی زندگی،سب الجھنوں کا شکار ہوگئی"۔
"لیکن اتنی بات طے ہے کہ میں وہ زندگی بسر نہیں کرونگا جیسی عام لوگ بسر کرتے ہیں۔یہ کیا کہ عشق لڑاؤ،کورٹ شپ کرو،شادی کرو،بچے پیدا کرنے کی کوشش کرو،پھر بچوں کی پرورش،تعلیم و تربیت،خود بوڑھے ہو جاؤ،بچے بڑے ہوکر دور جابسیں اور پھر بچوں کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش لئے مر جاؤ۔ایسی عمومی زندگی سے بہترہے کہ اپنی کوئی الگ راہ نکالی جائے۔سو میں یہی کر رہی ہوں"۔لیلیٰ نے گویا اپنی زندگی کا نصب العین بتایا۔لیکن یہ فطری زندگی نہیں ہے۔فطری زندگی وہی ہے جسے تم عمومی زندگی کہ رہی ہو۔فرحان نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی"۔
"یہ تو وہی لفافہ ہے رضی بھائی جو میں نے آپ کو ابا کو دینے کے لئے دیا تھا"۔
"ہاں، یہ وہی لفافہ ہے۔یہ لفافہ لینے والے اب نہیں رہے"۔
"رابعہ کی شادی نہیں ہوئی؟اس نے آہستہ سے پوچھا۔"ریحان نے بتایا کہ اس نے شادی سے انکار کردیا ہے۔ریحان اور مریم بھابھی نے اسے بہت سمجھایا لیکن اس نے دھمکی دی کہ اگر اس کے ساتھ زبردستی کی جائے گی تو وہ گھر چھوڑ کر کہیں چلی جائے گی۔ اسے اس کی راہ پر چھوڑ دیا گیا۔مکان بیچنے پر جو پیسے ملے اسے ریحان نے تین حصوں میں تقسیم کردیا۔رابعہ نے اپنا حصہ ریحان کی بیٹی کے نام کردیا ہے۔ریحان نے بتایا کہ تمہارا حصہ محفوظ ہے،تم جب چاہوگے مل جائیگا۔"
"میری ضدی طبیعت نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔کیا حاصل کیا میں نے ۔ان سات آٹھ سالوں میں چاہنے والے بھائی بہن بچوں سے منہ موڑکر یہاں چلا آیا۔ابا کو تہی دست کردیا۔بہن کو تنہائی کے عذاب میں جھونک دیا۔خود کیا پایا۔بدترین ذلت بھری زندگی۔۔۔کتوں کی سی زندگی۔۔۔دھتکاری ہوئی زندگی۔۔اتنی بھری پری دنیا میں،بالکل اکیلا ہوں۔۔میرا کوئی نہیں،کوئی بھائی نہیں،کوئی بہن نہیں،ماں باپ نہیں۔۔۔"
سہانے خواب دیکھنے والوں اور اپنی ضد پر اڑجانے والوں کا انجام یقیناًسراب منزل ہی ہونا چاہئے۔اے۔خیام کی تحریروں سے آشنا ،نا آشنا،ادب سے تعلق رکھنے والوں کو اس ناول کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ تخلیقی سفر جاری رہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ادبی تخلیقات کے فروغ کے لئے اسے خرید کر ادب نواز لوگوں تک پہنچایا جانا چاہئے تاکہ ادب کی ترویج ممکن ہوتی رہے اور ملک میں کتاب کلچر کو فروغ مل سکے۔
اے۔خیام یقینی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اور حسب معمول چورخی صنعت توشیح میں منظوم خراج تحسین ملاحظہ فرمائیے۔
معروف اور معتبر افسانہ نگار و ناقد" اے۔خیام" کے شاہکار ناول "سراب منزل" کے حوالے سے چو رخی صنعت توشیح میں پیش کیا گیا

منظوم خراج عقیدت
"سراب منزل کے نام"
(شعر کے ہر مصرعے کے ابتدائی اور اختتامی حرف کی ترتیب سے عنوان حاصل ہوتا ہے)

سہانے خوابوں کی جستجو میں ہوئے ہیں کیا کیا وجود بے بس
سراب راہوں میں سب زیاں تھا رہا جو باقی وہ سود بے بس

رہا نہ اپنوں سے واسطہ کچھ بچا نہ سایا بھی کوئی سر پر
رہا سلامت نہ وہ دیا بھی جلاتاجس کو وہ خون دے کر

اگر طلب کا اسیر ہوکر نہ چھوڑتا اپنا وہ ٹھکانا
اسیر رنج و الم نہ ہوتا نہ پڑتا خود کو بھی آزمانا

بجز ملامت اسے ملا کیا ،گنوا دیا اپنا فخر و منصب
بہت مصائب کے ساتھ کاٹے گئے ہیں دن بھی، گزاری ہے شب

محبتوں کے عظیم رشتے بھی اس سے چھوٹے ہوئے سب ہی گم
ملا سلیمہ کو دکھ جدائی کا ہوگئی وہ خموش گم سم

نہ رابعہ کے حسین خوابوں کو، کر سکا اپنے ہاتھ روشن
نظر میں شہزاد کے چڑھی یوں کہ شیشہ عصمت کا ہوگیا چھن

زمیں کو ٹھکرا کے پا سکا نہ سکون فرحان پل کو ہر گز
زوال آثار ہوگئیں ساری آرزوئیں ہوا وہ عاجز

لٹا کے رشتوں کی حرمتیں سب نکل، گئے اسکے سارے کس، بل
لگا ئی غیروں سے جب امیدیں تو زہر پیتا رہا وہ پل پل

کمال فن سے لکھی گئی ہے سراب منزل نہیں کوئی شک
کہ چاہے ناقد لگائیں آنکھوں پہ اپنی بیشک کوئی بھی عینک

یہ خواہش ناتمام لائی مدام حسرت کے تازیانے
یہ وحشتوں کے سراب لائی فقط جدائی کے شاخسانے

نہیں نہیں کہ وطن سے باہرکسے ملا پر سکون خرمن
نہ راس آئی ہے زندگی میں، کمائی ہے بے سبب کی الجھن

انوکھا قصہ نہیں ہے لیکن یہ معاملہ ہے کمال فن کا
اب اور سمجھائے خود سروں کو مقام کیسے کوئی وطن کا

میری طرف سے قبول خیام کو مبارک ،دعاء ہے ہردم
مقام پائیں وہ رفعتوں کا، عظیم کی یہ صدا ہے ہر دم

***

A.Khayyam's novel 'Saraab Manzil'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں