سیدنا حضرت محمد ﷺ کے ظاہری و معنوی صفات و کمالات پر ایک نظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-02

سیدنا حضرت محمد ﷺ کے ظاہری و معنوی صفات و کمالات پر ایک نظر

physical-spiritual-virtues-of-Prophet-Muhammad
خلاصہ کائنات،افضل المخلوقات، سیدالکونین،خاتم النبیین
جس کی شان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہو (انک لعلیٰ خلق عظیم) یعنی ہم نے آپ کو عظیم اخلاق پر فائز کیا ہے۔۔۔ جس کے بارے میں صدیقہ بنت صدیق کا بیان ہو کہ آپﷺ کے اخلاق قرآن (پر عمل کرنا) تھے، جسے اعلیٰ ترین اخلاق حروف کی شکل میں دیکھنا ہو،وہ مکتوبہ قرآن دیکھ لے اور جسے چلتا پھرتا قرآن دیکھناہو، وہ سیدنا حضرت محمدﷺ کی ذات کو دیکھ لے۔۔۔ اُس ذات کے اخلاق پر لکھنا، وہ بھی ایک مختصر مضمون میں۔۔۔ظاہر ہے نہایت مشکل بلکہ کہیے ناممکن ہے، لیکن ’’جو سب نہیں کر سکتا، کیا وہ کچھ بھی نہ کرے‘‘ کے تحت رسول اللہﷺ کے ظاہری و معنوی کمالات و صفات پر اختصار کے ساتھ یہاں چند باتیں عرض کرتا ہوں، امید کہ سود مند ثابت ہوں اور یہ گنہگار بھی آپﷺ کے ثنا خوانوں میں جگہ پائے۔
رسول اللہﷺ درمیانہ قد کے پُر وقار شخص تھے، آپ جیسا نہ کبھی کوئی ہوا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ آپﷺ اس قدر حسین و خوبصورت تھے، گویا چاندی سے آپ کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہو۔آپ باوجود رمیانہ قد کے، لمبوں میں لمبے نظر آتے تھے، یہ آپﷺ کا معجزہ تھا۔ آپﷺ نہ چونے کی طرح زیادہ سفید تھے اور نہ بالکل گندم گو کہ سانولا پن آجائے، بلکہ آپﷺ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن اور پُر نور کچھ ملاحت لیے ہوئے تھے۔ یہ سب صرف سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ تو ایک چاند کیا ہزار چاند بھی اس محبوبِ کبریا جیسا نور نہیں رکھتے۔
آپﷺ کا سر مبارک خوبصورتی اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، آپﷺ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگرالے تھے اور نہ بالکل ہی سیدھے کھلے ہوئے، بلکہ ان میں ہلکا سا گھنگرالہ پن تھا۔ آپﷺ نہ موٹے بدن کے تھے، نہ گول چہرے کے، البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک پر تھی۔ آپﷺ کی پیشانی کُشادہ، بھویں لمبی اور خم دار تھیں۔ دونوں ابرو الگ الگ تھے اور اُن کے درمیان ایک رگ تھی، جو غصّے کے وقت ابھر آتی تھی۔ آپﷺ کی آنکھیں کشادہ اور پُتلیاں بالکل سیاہ تھیں ۔ آپ کی آنکھوں کی سفیدی میں سُرخ ڈورے تھے اور پلکیں ذرا دراز تھیں۔ ناک بلندی مائل تھی اور اُس پر ایک نور تھا جسے بغیر غورسے دیکھنے والا اُسے بلند اور اونچی خیال کرتا تھا۔ آپﷺ کے دندانِ مبارک باریک آب دار تھے اور اگلے دو دانتوں کے درمیان کچھ کشادگی تھی، جب آپﷺ گفتگو فرماتے، تو محسوس ہوتا کہ جیسے ایک نور ہے، جو دانتوں کے درمیان سے نکل رہاہے۔ آپﷺ کے رُخسارِ مبارک پُر گوشت تھے اور ڈاڑھی مبارک بھر پور اور گنجان تھی۔
رسول اللہﷺ کا دہنِ مبارک اعتدال کے ساتھ فراخ تھا۔ آپﷺ کی گردن مبارک خوبصورت اور چاندی کی طرح صاف تھی۔ آپﷺ کا پیٹ اور سینہ دونوں برابر، ہمورا تھے۔ دونوں مونڈھوں کے درمیان کچھ فصل تھا، جوڑوں کی ہڈیاں مضبوط اور بھاری تھیں۔ آپﷺ کا جسم مبارک مکمل طور پر معتدل، پُر گوشت اور گٹھا ہوا تھا۔آپﷺ کے سینہ اور ناف کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک سی دھاری تھی، اِس کے علاوہ چھاتی اور شکمِ مبارک پر بال نہ تھے، البتہ دونوں بازوؤں، کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے۔آپﷺ کی کلائیاں طویل اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، دونوں ہاتھ اور پاؤں پُر گوشت تھے، انگلیاں لمبی تھیں، پاؤں کے تلوے مکمل طور پر زمین سے نہیں لگتے تھے، بلکہ کچھ گہرے تھے اور دونوں پاؤں ہموار اور چکنے تھے، ان پر سے پانی فوراً ڈھل جاتا تھا۔آپﷺ جب چلنے کے لیے قدم اٹھاتے تو پوری قوت سے اٹھاتے اور قدرے آگے کو جھُک کر چلتے تھے، اس طرح کہ قدم زمین پر آہستہ پڑتا تھا، یوں آپﷺ تیز رفتار تھے اور ذرا کشادہ قدم رکھتے تھے، چھوٹے چھوٹے قدم نہیں رکھتے تھے، جب آپﷺ چلتے تو ایسا لگتا جیسے آپ نیچے کی طرف اُتر رہے ہوں۔ یہ آپﷺ کے چند ظاہری کمالات کا ذکر ہوا، اب ذرا معنوی کمالات کا حال سنیے۔
رسول اللہﷺ کا قبیلہ سب سے زیادہ بزرگی والا تھا۔ آپﷺ مخدوم و مُطاع تھے کہ خدام آپﷺ کی خدمت کرنے کے متمنی اور آپﷺ کی اطاعت کے لیے بسر و چشم حاضر رہتے تھے۔ آپﷺ تُرش رو یا سخت مزاج نہیں تھے۔آپﷺ سب سے زیادہ سچے، سب سے زیادہ وعدے کو پورا کرنے والے اورباوفا، سب سے زیادہ نرم طبیعت تھے۔ آپﷺ عظیم القدر اور معظَّم اور سب سے زیادہ حلیم و بُردبار تھے۔ آپﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ اس قدر باحیا تھے کہ کسی کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے۔ آپﷺ کی نگاہیں نیچی اوراکثر زمین کی طرف رہتی تھیں، عامۃً کنکھیوں سے دیکھنے کی عادت تھی۔ آپﷺ سب سے زیادہ رحم فرمانے والے تھے، یہاں تک کہ بلّی کے لیے بھی پانی کا برتن جھکا دیتے اورجب تک وہ سیراب نہ ہو جاتی برتن نہ ہٹاتے۔ عین نماز کی حالت میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آتی اور اس کی ماں آپﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہی ہوتی، تو آپﷺ شفقۃً نماز کو مختصر فرما دیتے۔
رسول اللہﷺ سب سے زیادہ تواضع کرنے والے اور نرم مزاج تھے۔ غنی، فقیر، شریف، ادنیٰ، آزاد، غلام --جو بھی آپﷺ کی دعوت کرتا، آپﷺ قبول فرما لیتے۔آپﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کی سخاوت رمضان میں خصوصیت سے زوروں پر آ جاتی تھی، آپ نے کبھی کسی سائل کو نہ نہیں کہا۔ آپﷺ اپنی ذات کے لیے ذخیرہ کے طور پر کچھ نہیں رکھتے تھے، درہم و دینار کبھی آپ کے گھر میں رات نہیں گزار سکتے تھے۔ آپﷺ سب سے زیادہ پاک دامن تھے، کبھی آپﷺ کے دستِ مبارک نے اپنی منکوحہ، مِحرم یا باندی کے سوا کسی عورت کو نہیں چُھوا۔
رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کا اکرام کرنے میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے، کبھی کسی مجلس میں آپ کو کسی کی طرف پیر پھیلا کر بیٹھے نہیں دیکھا گیا، یہاں تک کہ جب آپ کے اصحاب کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی، تو آپﷺ خود سِکُڑ کر ان کے لیے گنجائش نکال لیتے۔آپ کے گھٹنے کبھی کسی ساتھی کے گھٹنوں کے آگے نہیں بڑھے۔آپﷺ کے اصحاب آپ کے آس پاس جمع رہتے تھے، اگر آپ کچھ ارشاد فرماتے، تو سب خاموش ہو جاتے، اگر آپ کوئی حکم دیتے، تو سب اُسے پورا کرنے کے لیے پھُرتی کرتے۔ آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ چلتے وقت اُنھیں آگے بڑھا کر خود اُن کے پیچھے چلتے، راستہ میں جو بھی ملتا آپﷺاسے سلام کرنے میں پہل کرتے۔ آپ کے چہرۂ انور پر رعب کا یہ عالم تھا کہ جو شخص اچانک آپ کو دیکھتا، ہیبت زدہ ہو جاتا اور جوآپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا، وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔آپ جس قدر اپنے گھر والوں کی خاطر تحمل فرماتے، اس سے بھی زیادہ اپنے اصحاب کے ساتھ تحمل فرماتے تھے۔آپ ﷺ اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے، بیمار کی عیادت کرتے، مسافر کے لیے دعا کرتے، انتقال کرنے والے پر انا للہ الخ پڑھتے۔ آپﷺ کبھی اپنے اصحاب کے باغوں میں بھی تشریف لے جاتے، اگر وہاں وہ کوئی چیز پیش کرتے، تو آپ نوش فرما لیتے۔
رسول اللہﷺ اہل عزت و شرف سے الفت رکھتے اور اہل علم و فضل کا اکرام کرتے اور کسی سے ناراض ہوکر پیشانی پر بَل نہیں لاتے تھے۔ کسی کے ساتھ سختی کا معاملہ نہیں فرماتے تھے، عذر پیش کرنے والے کے عذرکو قبول فرما لیتے تھے، حق کے معاملے میں طاقت ور، کمزور، قریب اور دور کے---آپ کے لیے سب برابر تھے۔ آپﷺ کا غصہ اور انتقام کبھی اپنے نفس کے لیے نہیں ہوتا تھا، ہا ں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب پر آپ سرزنش فرماتے تھے اور جب آپﷺ غصہ فرماتے، تو کوئی اس کی تاب نہ لا سکتا تھا۔
رسول اللہﷺ کے بہت سے باندی وغلام بھی تھے، مگر آپ لباس و طعام میں ان سے برتر کچھ اختیار نہیں کرتے تھے اور جو بھی آپﷺ کی خدمت کرتا، آپ بھی اس کی خدمت کرتے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں ’’میں نے تقریباً دس سال آپﷺ کی خدمت کی، اللہ کی قسم! سفر و حضر جہاں بھی مجھے خدمت کا موقع ملا ، جتنی خدمت میں نے آپکی کی، اُس سے زیادہ آپﷺ نے میری کی۔ آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ انتہائی محبت و بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیجیے کہ ایک روز آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے کھجوریں نوش فرما رہے تھے کہ صہیبؓ ایک آنکھ کو ڈھانکے ہوئے آگئے، اس لیے کہ اُن کی وہ آنکھ آ رہی تھی، یعنی وہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے۔ وہ سلام کرکے کھجوروں کی طرف جھکے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمھاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور کھجور کھاتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جو آنکھ اچھی ہے، اس طرف سے کھاتا ہوں۔ اس پر آپﷺ مسکرا دیے۔
رسول اللہﷺ جب اپنے گھر پر ہوتے، تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرما لیتے، ایک حصہ خاص اللہ کی عبادت کے لیے، دوسرا حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے نفس کے لیے اور جو حصہ اپنے لیے طے فرماتے، اُس کو اپنے اور لوگوں کے درمیان بانٹ لیتے اور خواص کے ذریعے اس وقت میں عوام کی ضرورتیں پوری فرماتے۔آپﷺ اپنے اصحاب میں الفت پیدا فرماتے اور اُنھیں نفرت سے بچاتے۔ قوم کے ہر کریم کا اکرام کرتے اوراُسی کو اُن پر والی بناتے۔ قوم کے بہترین افراد کو آپﷺ سے زیادہ قُرب ہوتا تھا، آپ کے نزدیک افضل وہ تھا، جو عام خیر خواہی اور نصیحت کرتا، آپ کے نزدیک بڑا وہ تھا، جو لوگوں کی مدد اور غم خواری زیادہ بہتر طریق پر کرتا۔
رسول اللہﷺ کی کوئی نشست و برخواست ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ آپﷺ جب کسی مجلس میں تشریف لے جاتے، تو مجلس کے کنارے پر ہی بیٹھ جاتے، صدر مقام پر پہنچنے کی کوشش نہ فرماتے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ سب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ فرماتے کہ مجلس میں بیٹھا ہوا ہر شخص یہ سمجھتا کہ سب سے زیادہ میرا اکرام فرمایا ہے۔جب کوئی شخص آپﷺ کی خدمت میں آکر بیٹھتا، جب تک وہ خود نہ اُٹھ جاتا، آپﷺ نہ اٹھتے، سوائے اس کے کہ آپ کو کوئی جلدی کا کوئی کام درپیش ہوتا۔ اگر آپ کو کوئی کام ہوتا، تو آپﷺاُس سے اجازت لے کر اُٹھتے۔ آپ کبھی کسی کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرتے تھے، جو اُسے گراں گزرے۔ آپﷺ نے کبھی کسی خادم کو مارا نہ کسی عورت کو، بلکہ آپﷺ نے جہاد کے علاوہ کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔
رسول اللہﷺ صلہ رحمی فرماتے ، مگر اس کی وجہ سے کسی مفضول کو افضل پر، ادنیٰ کو اعلیٰ پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ آپﷺ کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ برا کرنے والوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ فرماتے تھے۔پڑوسی کے حق کی حفاظت فرماتے، مہمان کا اکرام کرتے، سب سے زیادہ تبسّم فرماتے اورسب سے زیادہ بشاشت سے ملتے ۔آپﷺ کا تمام وقت اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ کسی حکم کو پورا کرنے ، اپنے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری کرنے یا اپنی حوائجِ ضروریہ کو پورا کرنے میں گزرتا تھا۔آپﷺ کو جب بھی دو جائز چیزوں میں اختیار دیا جاتا، تو اپنی امت پر شفقت کے باعث آسانی کو قبول فرماتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان اعلیٰ ترین اخلاق و صفات سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔ آمین

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

The physical and spiritual virtues of Prophet Muhammad s.a.w. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں