کانگریس کا ختم ہوتا ہوا وجود - بچانے کی کوشش مزید تباہی خیز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-04

کانگریس کا ختم ہوتا ہوا وجود - بچانے کی کوشش مزید تباہی خیز

indian national congress i
کانگریس 130سال پرانی پارٹی ہے۔ اتنے دنوں تک ہندوستانی سیاست میں رہنا اس کیلئے سود مند بھی ہے اور نقصاندہ بھی۔ سود مند اسطرح کہ پارٹی میں قیادت اور حکومت، جدو جہد اور لڑائی، روایت اور پیروی کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ نقصاندہ اس لئے کہ بہت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جب کل کی ایجاد اور ادارے آج مسترد ہوجارہے ہیں تو 130سال پرانی کسی پارٹی یا انجمن یا تنظیم کی اہمیت وافادیت خود کم ہو جائے گی۔ لیکن دنیا میں وقت کے تقاضے کے مطابق تبدیلیاں کرنے، بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کے تحت کچھ چھوڑنے کچھ نیا شامل کرنے کا رجحان ایسا ہوتا ہے جو زیادہ دیر تک کسی چیز کی موجودگی کو مزید معتبر بنا دیتا ہے۔ کانگریس ابھی اپریل مئی 2014تک معتبر تھی اور 16مئی کے بعد غیر معتبر ہوگئی۔ کیا یہ سوچ ممکن ہے۔ ایک حالیہ رپورٹی میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس میں بعض سنیئر لیڈروں نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا ہے کہ ووٹروں کے درمیان کانگریس کی شبیہ اقلیت دوست کی ہے۔ اقلیت دوست کو مسلم دوست سمجھیں۔ منطقی طور پر یہ شبیہ اگر ہندو دشمن ہو جاتی ہے تو کانگریس کو گذشتہ لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے شدت پسند ہندو وادی نعرے سے بہک کر ووٹروں نے کانگریس سے دوری اختیار کرلی۔ یہ اندازہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ لیکن ایک ترمیم کے ساتھ۔ کانگرس کے لیڈروں نے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کی ہمدردی میں دو بول تو بولے مگر ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ مسلم فرقہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کا احسان مند ہے کہ انہوں نے ۔۔۔۔۔۔کو قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں بالکل صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ منموہن سنگھ کی یہ فکر مندی مسلمانوں میں احسان مندی ابھارنے کیلئے کافی تھی۔ سچر کمیٹی قائم کرکے ہندوستان کی موجودہ سماجی ، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ بھی لیا گیا اس سے بھی بہت کچھ ابھر کر سامنے آیا۔ ایسی کچھ اور چیزیں بھی ہیں۔ لیکن کانگریس کے دس پرس کے دور اقتدار میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جو عملی قدم سمجھا جائے۔ بلکہ کچھ فیصلے مسلم فرقے کے خلاف ہوئے۔ وقف ترمیمی بل اینٹی مسلم ہے۔ نواڈکو کا قیام بھی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت کو کانگریس کے دور میں صرف آرائشی اقدامات کے ذریعہ مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ عملی اقدام کم کئے گئے اور جو قدم بھی اٹھایا گیا وہ بظاہر مسلم دوست اور اصلا مسلم دشمن تھا۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ کانگریس جان بوجھ کر ایسا کچھ کررہی تھی۔ کانگریس نے مسلمانوں کے درمیان سے ان ہی لوگوں کو چنا جو اس کے سیاسی مقاصد کو تکمیل تک پہنچاتے ہوئے اپنا نجی امپائر بنانے کے ایجنڈے پر چل رہے تھے۔ کانگریس کے مسلم لیڈروں میں یا تو وہ تھے جن کو جمہوریت سے زیادہ شہنشاہیت پر یقین ہے، یا سلمان خورشید جیسے سچ مچ کے سیکولر لیڈر تھے۔ جن کے سامنے ہندو مسلمان کی نہ کوئی تفریق تھی، نہ امتیاز۔ صرف غلام نبی آزاد ایک ایسے معتبر کانگریسی مسلمان لیڈر ہیں جن کی فکر ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح پر مرکوز رہی ہے۔ کانگریس میں اگر اپنے مسلم دوست ہونے سے نقصان اٹھانے کا افسوس کیا جارہا ہے تو یہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ کانگریس نے اپنی سیکولر فکر مندیوں سے کٹر وادی ہندو افراد اور انجمنوں کی دشمنی خریدی ہے۔ مسلم چہرہ کی وجہ سے نہیں۔ کیونکہ مسلمان شاید مرکزی حکومت کی تشکیل میں تو کانگریس کا ساتھ دیتا رہا ہے،ریاستوں میں ایسا نہیں۔ مسلمان کے سلسلے میں ٹیکٹکل ووٹنگ کی جو اصطلاح ادھر کے بیس پچیس برسوں میں سننے کو ملی ہے یہ اصطلاح بیدار ریاستوں جیسے کہ مغربی بنگال میں بہت پہلے سے موجود ہے۔ 1969میں بھی بنگال میں یہاں کیلئے جوتی باسواور دہلی کیلئے اندرا گاندھی کا نعرہ سرگوشیوں میں مسلم ووٹروں کو گائڈ کررہا تھا۔ کانگریس کو فکر مند ہونا چاہئے ۔ لیکن تردد اس کا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کا چہرہ مسلم دوست ہو گیا ہے کیونکہ کانگریس گجرات کو چھوڑ کر ملک کے تمام بھیانک فسادات کیلئے ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔ کانگریس کے دور میں یوپی میں اردو کو دیس نکالا دینے کیلئے سرکاری فائلوں کا ایک میز سے دوسری میز تک جانا اب ہر کسی پر واضح ہو چکا ہے۔ ہندوستانی مسلمان یہ بالکل نہیں بھولا کہ 1972کے انتخابات میں اندرا گاندھی صاف لفظوں میں کہ چکی تھیں کہ کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہئیں۔ اجودھیا6دسمبر 1992کا آتنک کانگریس کے نام ہی لکھا جائے گا۔ اس طرح کے منتھن میں مسلم دوست چہرہ جیسی اصطلاح وضع کرنے والے کانگریسی لیڈران یہ بات بالکل بھول گئے کہ دو شیطانوں میں کم تباہی خیز شیطان کو چننے کا معاملہ ہو تو مسلم ووٹ کانگریس کی طرف جاتا ہے۔ ورنہ ہندوستانی مسلمان نے اپنے آپ کو ریاستی چھوٹی قابل اعتناء پارٹیوں کے ساتھ صدق دلی سے جوڑ کر ریاستوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور حکمرانوں سے قریب رہنے کی صورت بہت پہلے نکال لی تھی۔ کانگریس کو اگر اپنا چہرہ بدلنا ہے تو وہ زیادہ بڑے پیمانے پر یہ سوچے کہ دلت ووٹ اس کے پاس کیوں گئے؟۔ مسلمان سچ مچ اس سے کیوں دور ہوا؟ نہرو گاندھی خاندان کی قیادت سے الگ کوئی قیادت ان تمام برسوں میں کیوں نہیں ابھری؟ خوشامد اور چاپلوسی سے کانگریسی لیڈروں نے اپنے آپ کو بلند کیوں نہیں کیا؟ بچوں کی طرح کبھی کسی پارٹی کا منشور پھاڑنے اور کبھی ڈرامائی طور پر خود اپنی پارٹی کے کسی قانون سازی کے قدم کی مخالفت کرنے سے کیا کانگریس کو خود اس کے لیڈروں نے نقصان نہیں پہنچایا ۔ پوری انتخابی مہم میں راہل اور سونیا کو چھوڑ کر کس نے 2004سے 2014تک کے کام کاج کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ دس سال کی منموہن سنگھ حکومت تاریخ میں بہترین حکومتوں میں گنی جائے گی۔ اور بدترنی حکومتوں میں بھی۔ بہترین اس لئے کہ منموہن سنگھ نے اپنی علمیت، نیکی، ہندوستانیت، فقرو غنااور عفو درگذر کی بہترین روایتوں کے ساتھ ہندوستانی عوام کو حقوق پر مبنی وہ قوانین دیئے جس سے عام آدمی صاحب اختیار ہوا۔ ان قوانین سے فیض اٹھانے والوں تک کانگریس کے نام نہاد لیڈران اے کے انٹونی، پی چدمبرم، دگ وجے سنگھ اور دوسرے لوگ کیوں نہیں پہنچے؟ سولہویں پارلیمنٹ کے الیکشن میں کیوں کانگریس کسی وقت بھی پوری طاقت کے ساتھ انتخابی مہم میں نہیں آئی۔ یہ تاثر کیوں ملا کہ کانگریس واک اوور دے رہی ہے؟ مسلمان یا اقلیت کے ساتھ ہونا کسی بڑی پارٹی کے لئے اچھی بات ہوتی ہے۔ صرف ہندوووٹ بی جے پی کو راس آیا۔ یہ ایک عارضی مظہر ہے۔ خود بی جے پی، آر ایس ایس مودی سرکا اور سنگھی تنظیموں کے درمیان زبردست قسم کا تضاد ہے، اس تضاد سے فائدہ اٹھا کر کانگریس عوام تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ یہ نہ بھولے کہ وہ ہندوستان کے سیاسی فکری دھارے میں ایک بہت اہم اور آسانی سے نہ مٹنے والی دھارا ہے۔ غیر ضروری منتھن اور مشق سے ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The ending era of Congress in India. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں