سوال یہ ہے کہ پی ڈی پی گذشتہ دس دنوں سے کون سا مقصود حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر وہ حکومت بنانا چاہتی ہے تو اس کے پاس سیکولر پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے ۔بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد کا تصور اس وقت جائز ہوتا جب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ ہوتا۔ اگر پی ڈی پی چاہتی ہے کہ مفتی سعید ہی وزیر اعلی ہوں تو این سی اور کانگریس کی حمایت لینے کی صورت میں بھی وزیر اعلی بننے کا دستوری حق انہیں ہی حاصل ہوگا جبکہ کانگریس نے واضح کردیا ہے کہ وہ بی جے پی کو کشمیر میں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے پی ڈی پی کو غیر مشروط حمایت دینے کے لئے تیا رہے۔
بی جے پی نے کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے پی ڈی پی کی اس شرط کو بھی مان لیا ہے کہ وہ کسی ہندو وزیر اعلی پر اصرار نہیں کرے گی اور مفتی سعید کو وزیر اعلی کے بطور قبول کرلے گی۔ مگر دفعہ ۳۷۰ پر اس کا مؤقف واضح نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کہہ بھی دے کہ وہ دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرنے پر زور نہیں دے گی تو اسیصرف وقتی مصلحت پر مبنی فیصلہ سمجھا جائیگا اور مناسب وقت پر وہ اسے ختم کرنے کے اقدامات کرنے سے باز نہیں آئے گی کیونکہ یہ اس کا نظریاتی مؤقف ہے جو بدلا نہیں جاسکتا۔
تو پھر پی ڈی پی دو ریاستی سیکولر پارٹیوں کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود وقت ضائع کیوں کررہی ہے اور کیوں بی جے پی کے ساتھ ہی اقتدار میں شراکت کے لئے بے چین ہے۔ جب امیت شاہ اور ارون جیٹلی یہ دعوی کرتے ہیں کہ پی ڈی پی کے سینئیر رہنما پی ڈی پی کے رابطے میں ہیں تو محبوبہ مفتی فوراً اس کی تردید بھی کرتی ہیں مگر پھر یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ الیکشن مودی کیلئے ایک موقع ہیں اور جموں میں بی جے پی کو اکثریت اور کشمیر میں پی ڈی پی کو ملنے والی اکثریت دونوں پارٹیوں کے لئے ایک موقع ہے۔
جب بی جے پی انکے بیانات سے مایوس ہوکر تھوڑا فاصلہ بنالیتی ہے تو پھر وہ بی جے پی کو بلیک میل کرنے کے لئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس سے اتحاد کی بات کرنے لگتی ہیں تاکہ بی جے پی اپنے مؤقف میں نرمی لائے۔
در اصل محبوبہ مفتی کے مذکورہ عالم تذبذب کا راز یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ فرقہ پرست اور کشمیر یوں سے مخاصمت رکھن والی پارٹی بی جے پی کے ساتھ اسلئے اقتدار میں شراکت کرنا چاہتی ہیں کہ انہیں بنگال میں ممتا بنرجی کے خلاف بی جے پی کی مرکزی حکومت کا رویہ دیکھ رہی ہیں کہ کس طرح سی بی آئی کے ذریعہ این ڈی اے حکومت نے پہلے تو انہیں دہشت گردی کے معاملے کو لیکر گھیرنے کی کوشش کی اور پھر اس کے بعد شاردا گھپلے میں ترنمول کانگریس کو پریشان کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ کانگریس کے زمانے میں پے درپے درجنوں گھپلے ہوچکے ہیں مگر چونکہ کانگریس اس وقت اقتدار میں نہیں ہے اس لئے ان کے لیڈروں کو پریشان کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ محبوبہ اور ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈران ایک طرف تو اس بات سے فکر مند ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے ریاست میں ان کے سیاسی کیرئیر کو زبردست دھچکا لگے گا اور عوام ان کے اس فیصلے کو ریاست کے عوام کے ساتھ غداری سے تعبیر دیں گے کیونکہ کشمیر کے عوام نے بی جے پی کو یکسر مسترد کردیاہے اور پی ڈی پی کے حق میں فیصلہ دیاہے۔ کشمیر میں پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کو قریب لانے کی کوششوں کی مخالفت شروع ہوچکی ہے ۔ سی ٹی زن فورم نے ایک احتجاجی جلوس نکالا اور اس میں یہ نعرہ لگایا،’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدا ر ہے۔‘
بی جے پی سے اتحاد کی کوششوں کے پیچھے پی ڈی پی کا یہ خوف بھی کافرما ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد سے وادی میں کانگریس کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط ہونگی اور دوسرا خوف یہ ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد سے مرکز کی مودی حکومت پی ڈی پی کے ساتھ دشمنی پر اتر آئے گی اور ریاست کو طرح طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی۔
مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کواقتدار میں شریک کرکے وہ ایک بڑی مصیبت کو دعوت دیں گے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی وادی میں اپنی جڑیں پھیلانا شروع کردے گی۔ پہلے ہی وادی کے کئی ضمیر فروش اور ناعاقبت اندیش مسلم لیڈران بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے ساتھ وہ اسلئے نہیں جانا چاہتی کہ وہ ریاست میں پی ڈی پی کی دیرینہ حریف ہے۔ مگر سیاست میں کوئی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا۔ پی ڈی پی کو بہار کی سیاست سے سبق لینا چاہئے جہاں دو دیرینہ حریف نتیش کمار اور لالو پرساد یادو نے فرقہ پرست بی جے پی کو ریاست سے نکالنے کے لئے آپس میں اتحاد کرلیا اور بی جے پی کی طاقت کو توڑ دیا۔ المیہ ہے کہ کشمیر کے نام نہاد سیکولر مسلم لیڈران خود بی جے پی کو وادی میں قدم جمانے کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ ان کے پاس بہتر متبادل کھلے ہیں۔ پی ڈی پی بی جے پی کو لگام لگانے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے وہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ان ہی کے گلے کا پھانس بن جائیں گے اور کشمیر میں ان کی سیاسی موت کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ یہ بات پی ڈی پی کے لیڈران جتنی جلدی سمجھ لیں گے ان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com
Why is Mehbooba Mufti afraid of NDA? Article: Sohail Arshad
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں