محبوبہ مفتی این ڈی اے سے خوفزدہ کیوں ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-05

محبوبہ مفتی این ڈی اے سے خوفزدہ کیوں ہیں

جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات ۲۳ دسمبر کو ہی آگئے مگر اب تک کسی پارٹی یا کسی اتحاد نے حکومت سازی کا دعوی نہیں پیش کیاہے۔ مفتی سعید کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی ہے جس کے پاس ۲۸ نشستیں ہیں اور اسے مزید ۱۶ سیٹوں کی ضرورت ہے جو اسے نیشنل کانفرنس اور کانگریس دینے کو تیارہیں۔ مگر پی ڈی پی نے اب تک کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ کوئی سنجیدہ بات چیت شروع نہیں کی ہے۔ جبکہ موجودہ حالات میں پی ڈی پی کے پاس نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ اتحادکرنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا ہوشمندانہ راستہ نہیں ہے۔ بی جے پی نے الیکشن سے قبل ہی مشن کشمیر کے نام سے کشمیر میں حکومت سازی کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی اور اس میں اسے کافی حد تک کامیابی بھی ملی ۔ اسے کل ۲۵ نشستوں پر کامیابی ملی حالانکہ یہ کامیابی اسے جموں خطے سے ملنے والے ہند و ووٹوں کی مرہون منت ہے۔بی جے پی بھی ریاست میں حکومت بنانے کے لئے مضطرب ہے کیوں کہ کشمیر کے مسئلے پر اس کا ایک دیرینہ ایجنڈا ہے اور یہ وقت اسے اس ایجنڈا کو روبہ عمل لانے کے لئے مناسب ترین معلوم ہورہاہے کیوں مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ہندوتوا کے سب سے بڑے علمبردار نریندرمودی ہندوراشٹرکی تشکیل کے لئے ہونے والی کوششوں کو اپنی خاموش رضامندی دے کر اس سمت ہونے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔بی جے پی نے پی ڈی پی کو اپنی حمایت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور گذشتہ دس دنوں میں دونوں پارٹیوں کے لیڈران کے درمیان گفتگو بھی ہوچکی ہے۔ شروع میں بی جے پی اس شرط پر حمایت دینے کے لئے رضامند تھی کہ وزیر اعلی جموں سے کوئی ہندو ہوگا جبکہ پی ڈی پی چاہتی تھی کہ مفتی محمد سعید وزیر اعلی ہوں ۔ پی ڈی پی دفعہ ۳۷۰ کو لیکر بھی فکر مند تھی کیونکہ بی جے پی کا یہ ہمیشہ سے ہی انتخابی موضوع رہا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی جائے ۔ پی ڈی پی جو نرم حریت پسند نظرئیے میں یقین رکھتی ہے اس کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی ریاست میں کشمیر کی اس خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرے گی۔اس سمت بی جے پی کی طرف سے کوئی ٹھو س یقین دہانی نہ ہونے کی وجہ سے پی ڈی پی اس کے ساتھ اتحاد کرنے میں پس و پیش کررہی ہے۔ اس دوران محبوبہ کے متضاد بیانات نے بھی سیاسی مبصرین کو اور خود انکی پارٹی کے افراد کو کنفیوزن میں ڈالے رکھاہے ۔ انہوں نے پہلے تو بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم کی تعریفوں کے پل باندھے اور ہند۔پاک رشتے کی استواری کی طرف انکے مبینہ اقدامات کی تعریف کی اور اس سلسلے کوآگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ واجپائی کے دور حکومت میں ہی ہند پاک کے درمیان کارگل جنگ ہوئی اور دہشت گردی کے بدترین واقعات ہوے جس میں زعفرانی تنظیموں کے گرگوں کے ملوث ہونے کے باوجود مسلمانوں کو گرفتار کیا گیااور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ انہیں کے دور حکومت میں کشمیر میں فوج اور سیکوریٹی کے نوجوانوں کی طرف سے افسپا کا بے جا استعمال بے دریغ کیا گیا اور کشمیرکو رشک جہنم بنادیاگیا۔ گذشتہ سال تک فوج کے سابق سربراہ کے ذریعہ کی گئی کشمیر میں سازشوں کا ایک رپورٹ میں پردہ فاش ہوا اور سو سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو گولی مار دی گئی۔
سوال یہ ہے کہ پی ڈی پی گذشتہ دس دنوں سے کون سا مقصود حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر وہ حکومت بنانا چاہتی ہے تو اس کے پاس سیکولر پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے ۔بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد کا تصور اس وقت جائز ہوتا جب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ ہوتا۔ اگر پی ڈی پی چاہتی ہے کہ مفتی سعید ہی وزیر اعلی ہوں تو این سی اور کانگریس کی حمایت لینے کی صورت میں بھی وزیر اعلی بننے کا دستوری حق انہیں ہی حاصل ہوگا جبکہ کانگریس نے واضح کردیا ہے کہ وہ بی جے پی کو کشمیر میں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے پی ڈی پی کو غیر مشروط حمایت دینے کے لئے تیا رہے۔
بی جے پی نے کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے پی ڈی پی کی اس شرط کو بھی مان لیا ہے کہ وہ کسی ہندو وزیر اعلی پر اصرار نہیں کرے گی اور مفتی سعید کو وزیر اعلی کے بطور قبول کرلے گی۔ مگر دفعہ ۳۷۰ پر اس کا مؤقف واضح نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کہہ بھی دے کہ وہ دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرنے پر زور نہیں دے گی تو اسیصرف وقتی مصلحت پر مبنی فیصلہ سمجھا جائیگا اور مناسب وقت پر وہ اسے ختم کرنے کے اقدامات کرنے سے باز نہیں آئے گی کیونکہ یہ اس کا نظریاتی مؤقف ہے جو بدلا نہیں جاسکتا۔
تو پھر پی ڈی پی دو ریاستی سیکولر پارٹیوں کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود وقت ضائع کیوں کررہی ہے اور کیوں بی جے پی کے ساتھ ہی اقتدار میں شراکت کے لئے بے چین ہے۔ جب امیت شاہ اور ارون جیٹلی یہ دعوی کرتے ہیں کہ پی ڈی پی کے سینئیر رہنما پی ڈی پی کے رابطے میں ہیں تو محبوبہ مفتی فوراً اس کی تردید بھی کرتی ہیں مگر پھر یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ الیکشن مودی کیلئے ایک موقع ہیں اور جموں میں بی جے پی کو اکثریت اور کشمیر میں پی ڈی پی کو ملنے والی اکثریت دونوں پارٹیوں کے لئے ایک موقع ہے۔
جب بی جے پی انکے بیانات سے مایوس ہوکر تھوڑا فاصلہ بنالیتی ہے تو پھر وہ بی جے پی کو بلیک میل کرنے کے لئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس سے اتحاد کی بات کرنے لگتی ہیں تاکہ بی جے پی اپنے مؤقف میں نرمی لائے۔
در اصل محبوبہ مفتی کے مذکورہ عالم تذبذب کا راز یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ فرقہ پرست اور کشمیر یوں سے مخاصمت رکھن والی پارٹی بی جے پی کے ساتھ اسلئے اقتدار میں شراکت کرنا چاہتی ہیں کہ انہیں بنگال میں ممتا بنرجی کے خلاف بی جے پی کی مرکزی حکومت کا رویہ دیکھ رہی ہیں کہ کس طرح سی بی آئی کے ذریعہ این ڈی اے حکومت نے پہلے تو انہیں دہشت گردی کے معاملے کو لیکر گھیرنے کی کوشش کی اور پھر اس کے بعد شاردا گھپلے میں ترنمول کانگریس کو پریشان کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ کانگریس کے زمانے میں پے درپے درجنوں گھپلے ہوچکے ہیں مگر چونکہ کانگریس اس وقت اقتدار میں نہیں ہے اس لئے ان کے لیڈروں کو پریشان کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ محبوبہ اور ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈران ایک طرف تو اس بات سے فکر مند ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے ریاست میں ان کے سیاسی کیرئیر کو زبردست دھچکا لگے گا اور عوام ان کے اس فیصلے کو ریاست کے عوام کے ساتھ غداری سے تعبیر دیں گے کیونکہ کشمیر کے عوام نے بی جے پی کو یکسر مسترد کردیاہے اور پی ڈی پی کے حق میں فیصلہ دیاہے۔ کشمیر میں پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کو قریب لانے کی کوششوں کی مخالفت شروع ہوچکی ہے ۔ سی ٹی زن فورم نے ایک احتجاجی جلوس نکالا اور اس میں یہ نعرہ لگایا،’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدا ر ہے۔‘
بی جے پی سے اتحاد کی کوششوں کے پیچھے پی ڈی پی کا یہ خوف بھی کافرما ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد سے وادی میں کانگریس کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط ہونگی اور دوسرا خوف یہ ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد سے مرکز کی مودی حکومت پی ڈی پی کے ساتھ دشمنی پر اتر آئے گی اور ریاست کو طرح طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی۔
مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کواقتدار میں شریک کرکے وہ ایک بڑی مصیبت کو دعوت دیں گے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی وادی میں اپنی جڑیں پھیلانا شروع کردے گی۔ پہلے ہی وادی کے کئی ضمیر فروش اور ناعاقبت اندیش مسلم لیڈران بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے ساتھ وہ اسلئے نہیں جانا چاہتی کہ وہ ریاست میں پی ڈی پی کی دیرینہ حریف ہے۔ مگر سیاست میں کوئی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا۔ پی ڈی پی کو بہار کی سیاست سے سبق لینا چاہئے جہاں دو دیرینہ حریف نتیش کمار اور لالو پرساد یادو نے فرقہ پرست بی جے پی کو ریاست سے نکالنے کے لئے آپس میں اتحاد کرلیا اور بی جے پی کی طاقت کو توڑ دیا۔ المیہ ہے کہ کشمیر کے نام نہاد سیکولر مسلم لیڈران خود بی جے پی کو وادی میں قدم جمانے کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ ان کے پاس بہتر متبادل کھلے ہیں۔ پی ڈی پی بی جے پی کو لگام لگانے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے وہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ان ہی کے گلے کا پھانس بن جائیں گے اور کشمیر میں ان کی سیاسی موت کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ یہ بات پی ڈی پی کے لیڈران جتنی جلدی سمجھ لیں گے ان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔

***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com

Why is Mehbooba Mufti afraid of NDA? Article: Sohail Arshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں