پلاننگ کمیشن کے نام کی تبدیلی - نیتی یا پالیسی کمیشن کا کیا مطلب؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-03

پلاننگ کمیشن کے نام کی تبدیلی - نیتی یا پالیسی کمیشن کا کیا مطلب؟

yojana-bhawan-niti-ayog
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہندوستان میں اعلی ترین عہدہ پر فائز لیڈران اس عالمی آفاقی سوچ سے اپنے آپ کو منسلک کرنے میں کیوں ناکام ہورہے ہیں جس سوچ میں تفریقات اور تعصبات کم ہیں اور ایک دوسرے کو ساتھ لینے کا جذبہ زیادہ ہے۔ اقتصادیات نے سیاست پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ سیاسی اختلاف ہونے کے باوجود بعض ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے سے اقتصادی مصلحتوں کی بنیاد پر گریز کرجاتے ہیں۔ بہت کوشش کی جاتی ہے کہ جو کچھ بھی مسلمہ ہے اس کو مستحکم کیا جائے لیکن ہندوستان میں ایک نیا رویہ اور رجحان سامنے آگیا ہے۔ پلاننگ کمیشن کا نام بدل کر مودی سرکار نے نیتی کمیشن کردیا۔ نیتی کمیشن یعنی پالیسی کمیشن۔ یہ پلاننگ کمیشن اور پالیسی کمیشن میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب فرق نہیں کے برابر ہو گا ایک شخص یا ایک ادارے یا ایک انجمن کی ضد قوم، قومی اداروں اور قومی انجمنوں کی ضد سے بڑی نہیں ہوتی۔ یہ بات نریندر مودی کو سمجھانے کی نہیں ہے ۔ مودی خوب جانتے ہیں کہ ان کی ذاتی ترنگ کی حیات بہت زیادہ نہیں ہے۔ خود آر ایس ایس اور اس کی دیگر ہمشیر تنظیمیں ان کیلئے اتنی مشکلات کھڑی کردیں گے یا تووہ سمجھوتہ کریں یا وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر بھاگیں گے۔ چھ مہینہ نہیں گذرا کہ ایک بار چیزوں کو بے قابو ہوتے دیکھ کر اور دریدہ دہنوں کی زبانوں پر لگام لگانے میں ناکامی پر انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے کی دھمکی دے بھی دی ہے۔ قوموں کی زندگی میں مستقبل بینی ایسے اداروں کی تشکیل وتعمیر کراتی ہے جو ترقی کی بنیادیں چوڑی کرسکیں۔ پلاننگ کمیشن کا 65سال کا کام کاج اس قدر لائق ستائش ہے کہ پنج سالہ منصوبوں اور ریاستوں کے سالانہ منصوبوں پر غور وفکر کرنے ، انہیں وضع کرنے، ان پر عمل کرانے اور اس پوری کوشش میں بھر پور مرکزی یا مرکزی/ ریاستی یا دیگر ادارہ جاتی امداد کے ذریعہ منصوبوں کو مکمل کرکے ہندوستان وہاں پہنچا ہے جہاں آنے والے کسی وقت میں اس کے ایک اقتصادی سپر پاور ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ ہندوستان کی اپ تک کی پوری ترقی میں پلاننگ کمیشن کا رول محبت اور احترام کا تقاضہ کرتا ہے۔ سوچ کی یہ کون سی دھار ہے۔ جس نے کسی بنیاد کے بغیر پلاننگ کمیشن پر نریندر مودی سے وار کروایا۔ مودی صاحب اگر ہندوستان کی تاریخ میں، ہندو تاریخ میں نہیں، ہندوستان کی تاریخ میں اپنے لئے عزت کا مقام محفوظ کرانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے مفروضات پر ایک بار پھر غور کرتے وقت اس کا دھیان رکھنا ہے کہ صرف ضد سے کام نہیں چلتا۔ نہرووین لائن سے الگ ہو کر، سوشلسٹ نظام سے پرے ہو کر، سیکولرطرز فکر سے دور ہو کر جو منصوبہ بندی کی جائے گی وہ ہندوستان کی آبادی میں اکثریتی فرقے کو خوش کرنے کیلئے کی جائے گی اور اکثریتی فرقہ پورے کا پورا فرقہ پرست یا مذہبی جنون پرست نہیں ہے۔ مٹھی بھر لوگ ہیں جن کی ذہنی پرورش نفرت کے ماحول میں ہوئی ہے اور وہ اسی نفرت کو قومی پہچان بنانے پر تلے ہیں۔ مودی پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ان طاقتوں کی بھر پور مزاحمت کریں اور کسی کو بھی اس کی تحریک یا ترغیب یا حوصلہ دینے سے گریز کریں جو ہندوستانیت کو مٹانا چاہتا ہو۔ 15اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے جب انہوں نے پہلی بار قوم سے خطاب کیا تھا تو پہلی بڑی غلطی پردھان منتری کی جگہ اپنے آپ کو پردھان سیوک کہ کر کی تھی۔ پردھان سیوک کے ساتھ انہوں نے اپنا تعارف کراتے وقت صرف یہ پیغام دیا تھا کہ وہ سنگھ کے کارکن ہیں۔ جب کہ لال قلعہ کی فصیل سے وہ ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔ وہاں انہوں نے پلاننگ کمیشن کو توڑنے کا اعلان کیا جب کہ ان کے پاس اس وقت تک پلاننگ کمیشن کا متبادل کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ نام، نہ ساخت، نہ پالیسی، نہ پروگرام، نہ دیش کو آگے لے جانے کیلئے صلاح ومشورہ کیلئے کسی تھنک ٹینک کا تصور۔ صرف ایک ضد تھی۔ پلاننگ کمیشن توڑ دیں گے۔ نہرو کی یاد گار مٹادیں گے۔ یہ ضد پوری ہوگئی۔ لیکن کسی ذلت کے ساتھ15اگست کے بعد مودی سرکار نے عوام سے یہ سوال کیا کہ پلاننگ کمیشن کو توڑ کر کون سی تنظیم بنائی جائے۔ اس ادارے کی شکل و شباہت کیا ہو۔ اس ادارے کا نام اور اس کی وضاحت کیا ہو۔ ساڑھے چار مہینے کے بعد ساری ذہنی مشق صرف پلاننگ کو پالیسی بناسکی۔ یہ کار زیاں ہے۔ اس سے حکومت بچے۔ پلاننگ کمیشن کے ساتھ اگر نہرو کی یاد گاروں کو ختم کرنے کا جوش کچھ بھی کم ہوا ہے تو نیتی آیوگ پر ہی اکتفا کرکے مودی سرکار حکومت کے کام کاج میں لگ جائے کیونکہ ہندوستان میں کرنے کیلئے بہت سارے کام ہیں۔ لو جہاد، گھر واپسی، بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ، گیتا کو قومی کتاب کا درجہ جیسی چیزیں اصل کام سے بھٹکانے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ ملک آج بھی بھیانک قسم کی غریبی ، تنگی، نقش تغذیہ،بیماری اور دوسری بہت ساری سماجی لعنتوں میں مبتلا ہے۔ ایک نقش کو مٹا کر دوسرا نقش بنانا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کے پاس پہلے سے زیادہ بڑی بصیرت ہو۔ مستقبل کی دھند کاٹ کر دور تک اس پار دیکھنے والی آنکھ ہو۔ جو آنکھ ماضی کی سرنگ میں لوٹ کر اندھیرے کھوجنا چاہتی ہے اس آنکھ سے ترقی کا منظر نہیں دیکھا جا سکتا۔ صرف کانگریس دشمنی حکمرانی کے طور طریقے بہتر نہیں بناسکتی۔جمہوریت ہے تو سیاسی افکار کے رنگا رنگ دھارے بھی رہیں گے۔ ہر دھارے کا احترام اور ہر پارٹی کے ماضی کے کام کاج کی توقیر حکمران طبقے پر فرض ہوتی ہے کیونکہ اسے بہر حال تسلسل میں بڑھنا ہوتا ہے ۔ ترقی سابقہ فکر، سابقہ تجربہ، سابقہ منصوبہ بندی اور سابقہ فنڈ فراہمی کی صورتوں پر دھیرے دھیرے آگے بڑھ کر ملک کو وہاں لے جاتی ہے جہاں اقوام عالم میں اس کا سر بلند ہو۔ نیتی آیوگ کے قیام سے ہندوستان کی فکری اور انتظامی صلاحیتوں کو جلا دینے کا کوئی کام نہیں ہوا۔ صرف پلاننگ کی جگہ پالیسی کو دی گئی ہے جب کہ پلاننگ کمیشن ان 65برسوں میں پالیسی بھی بناتی تھی اور اس پر عمل درآمد کی منصوبہ بندی بھی کرتی تھی۔ اس فورم کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ چاہے اس کا نام بدل دیا جائے کام تو اسی فورم کو کرنا ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The renaming of the Planning Commission. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں