وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-03

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

prophet-mohammad
اللہ عزوجل نے تمام انسانوں کو یکساں طبیعت کا حامل نہیں بنایا ،ہر شخص کے مذاق ومزاج میں فرق رکھا ہے اوراللہ تعالی نے انسان کو بالطبع اختلاط پسند بنایا ہوا ہے ، جہاں چند برتن رکھے ہوتے ہیں تو وہاں کھٹ پٹ ضرور ہوتی ہے اور ا س کھٹ پٹ کے نتیجے میں آواز اور شورش کا پیدا ہونا بھی ایک فطری امر ہے ، بعینہ یہی مثال انسانوں کی ہے ، آپس میں رہتے ہوئے کچھ رنجشیں اور ناچاقیاں اور نااتفاقیاں مزاج ومذاق سے مختلف کچھ امور ضرور درپیش ہوتے ہیں ،جس میں معاشرے میں ناہمواریاں پیدا ہوجاتی ہیں ، آج کل تو دنیائے دنیۂ کی اندھی ہوس نے غیروں کو تو چھوڑیئے آپس کے دو خونی رشتے سے منسلک بھائیوں کو دست وگریباں کیا ہوا ہے ،بھائی بھائی کے خون کے درپے ہے ،جائداد کے مسئلوں نے خونی رشتہ داری کے خون کا بھی پاس ولحاظ نہیں کیا ، ہر شخص کی اپنی انانیت اور خود پسندی کی ایک دنیا ہے ، جس میں اس کو دوسرا شخص بالکل نہیں بھاتا ، ہوس اور اس حقیر کی دنیا کی چاہت نے انسان کو حیوان سے بھی بدتر بنادیا ہے ، ہر شخص دوسرے کے درپئے آزار اور اس کو تکلیف پہنچانے اور اس کے مال ودولت کے ہڑپ کرنے اور اس کی عزت وعصمت پر ہاتھ ڈالنے کا عادی بنایا ہوا ہے ، ایسی میں سیرت نبوی اور اسلامی تعلیمات سے ہی معاشرہ کے اصلاح ودرستگی کا کام ممکن ہوسکتا ہے ، رسہ کشی کے اس دور میں عفو ودرگذر اور معافی تلافی اور ایثار وقربانی کے ہی ذریعہ دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے ، سیرت نبوی میں عفو ودرگذر اور اورحلم وبربادی اور غلطیوں سے چشم پوشی کے ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ ان کو اگر حرزِجان اور آنکھوں کاسرمہ بنالیا جائے تو معاشرتی ، خاندانی مسائل کا حل چٹکیوں میں ہوجائے ، انسان کے اندر اللہ عزوجل نے جہاں نرمی اور لینت رکھی ہے وہیں گرمی اور حدت بھی اس کے اندر پائی جاتی ہے ،اس لئے جذبات کے خلاف کسی عمل کے درپیش ہونے پر انسان کا برانگیختہ ہونااور جذبات کی رو میں بہہ رد عمل کے تیار ہوجانا ایک فطری امر ہے ؛ لیکن حضور ا کی ذات اور شخصیت کے ساتھ محبت اور تعلق رکھنے والے کے لئے آپ ا کی تعلیمات اور اور سیرت نبوی میں چشم پوشی اور درگذر کے نمونے اس کو ان مواقع سے راہبر اور رہنما کے کام دیں گے ، اور آپ کی تعلیمات کے اپنانے میں جو حقیقی فائدہ ہوگا وہ دیرپا اور آپسی تعلقات کوپائیدار بنانے اور معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے میں ممد ومعاون ہوگا۔
ما تحتوں کے ساتھ عفو ودرگذر :
آپ ا کا اپنے ماتحتوں اور دیہات سے آنے والے صحابہ اوردیگر لوگوں کے ساتھ ان کے خطا کرنے پر اور ان کی کڑوی کسیلی کہنے پر بھی جو عفو ودرگذر کا معاملہ تھا اس کی مثالیں تاریخ کی کسی شخصیت میں ملنا مشکل ہیں ۔
آپ ا کی صفت عفو ودرگذر اور آپ ا کی حلم وبردباری کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ا ہمیشہ اپنے ذاتی امور میں عفو ودرگذر سے کام لینے ، انتقام کے جذبہ اپنے اندر بالکل فرو ہونے نہ دیتے ؛ البتہ دینی امور میں کوتاہی اور کمی آپ اکے لئے بالکل ناقابل برداشت تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا، اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الا یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہو تی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم الہی کو پامال کیا جا تا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کر تے تھے(مسند احمد : ۴۰۲۰)حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی تو آپ نے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی فرمایا کہ کیوں تو نے ایسا کیا اور نہ یہ فرمایا کہ کیوں تو نے ایسا نہیں کیا۔(بخاری، حدیث: ۹۹۶)حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں : میں نے سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی اگر میں نے کوئی کام کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے اس کو اس طرح کیوں کیا اور اگر کوئی کام میں نے نہیں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔(بخاری ،حدیث:۲۶۱۶)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گالی گلوچ کرنے والے بدگوئی کرنے والے، لعنت کرنے والے نہ تھے، ہم میں سے کسی پر اگر کبھی ناراض ہوتے تو فرماتے اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔(بخاری، حدیث :۵۶۸۴)۔
تکلیف دینے والوں سے درگذر :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوڑے حاشیہ کی ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے تو ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے کھینچا اور میں نے دیکھا کہ اس اعرابی کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر چادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا تھا اور اس بدو نے کہا کہ مجھے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس مال میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے کچھ دلوادیجئے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کچھ دینے کا حکم دیا۔(بخاری، حدیث : ۲۹۸۰) عبداللہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں، کہ ایک انصاری نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حرہ کی نہر کے متعلق جھگڑا کیا، جس سے اپنی کھجوروں کو سیراب کرتے تھے، انصاری نے کہا کہ پانی آنے دو، (لیکن زبیر نے انکار کر دیا)نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مقدمہ پیش ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر سے فرمایا کہ اے زبیر رضی اللہ عنہ اپنی زمین کو سیراب کر لے پھر پانی اپنے پڑوسی کیلئے چھوڑ دے، انصاری کو غصہ آیا اور کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی کے بیٹے ہیں نا۔ یہ سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ کا رنگ بدل گیا۔ پھر فرمایا اے زیبر رضی اللہ عنہ پانی روک لو۔ یہاں تک کہ دیوار تک نہ پہنچ جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ میں گمان کرتا ہوں، کہ یہ آیت اسی کے متعلق نازل ہوئی، ’’قسم ہے تیرے پروردگار کی کہ وہ لوگ مومن نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقدمہ میں حکم (فیصلہ کرنیوالا)نہ بنائیں‘‘۔(النساء:۶۵)(بخاری) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جعرانہ کے سال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ اس وقت لوگوں میں چاندی تقسیم کرہے تھے جو حضرت بلال کے کپڑے میں پڑی ہوئی تھی ایک آدمی کہنے لگا کہ یا رسول اللہ عدل کیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر افسوس ، اگر میں ہی عدل نہ کروں گا تو اور کون کرے گا اگر میں عدل نہ کروں تو خسارے میں پڑ جاں حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ لوگ باتیں کرنے لگیں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کروا دیتا ہوں(مسند احمد )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک یا کئی اونٹ خریدے اور اس کا بدلہ ایک وسق ذخیرہ کھجور ( عجوہ)قرار دی اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کجھوریں تلاش کیں تو نہیں مل سکیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس باہر آئے اور فرمایا اے اللہ کے بندے ! میں نے تم سے ایک وسق ذخیرہ کجھور کے عوض اونٹ خریدے ہیں لیکن میرے پاس اس وقت کجھوریں نہیں ہیں، وہ اعرابی کہنے لگا ہائے! میرے ساتھ دھوکہ ہوگیا لوگوں نے اسے ڈانٹا اور کہنے لگے تجھ پر اللہ کی مار ہو، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دھوکہ دیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار بات کہہ سکتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین مرتبہ اپنی بات دہرائی اور ہر مرتبہ اس نے یہی کہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے ڈانٹا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ وہ بات سمجھ نہیں پا رہا تو اپنے کسی صحابی سے فرمایا خویلہ بنت حکیم کے پاس جا اور ان سے کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں اگر تمہارے پاس ایک وسق ذخیرہ کجھور ہوں تو ہمیں ادھار دے دو، ہم تہمیں واپس لوٹا دیں گے، ان شا اللہ۔ وہ صحابی چلے گئے ، پھر واپس آکر بتایا کہ وہ کہتی ہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کجھوریں موجود ہیں ، آپ کسی آدمی کو بھیج دیجئے جو آکر لے جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جا اور پوری کر کے دے دو، وہ صحابی اس اعرابی کو لے گئے اور اسے پوری پوری کجھوریں دے دیں، پھر اس اعرابی کا گذر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوا جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے تھے تو وہ کہنے لگا \" جزاک اللہ خیرا \" آپ نے پورا پورا ادا کر دیا اور خوب عمدہ ادا کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالی کے نزدیک بہترین بندے وہی پورا کرنے والے اور عمدہ طریقے سے ادا کرنے والے ہی ہوں گے۔(احمد)
جانی دشمنوں کے ساتھ درگذر:
عفو ودرگذر ، تحمل وبردباری ،کشادہ قلبی اور قوتِ برداشت میں جو آپ اکا مقام تھا وہاں تک شعراء کے خیال اور تصور کی بھی رسائی ناممکن ہے ،اگر ان واقعات کو اس مخصوص طریقہ(سے) بیان نہیں کیا گیا ہوتا جو شک و شبہ سے بالاتر ہے تو لوگوں کے ذہن آج اس کوقبول نہ کرتے ۔
چشم فلک نے شاید کوئی ایسا اندوہناک منظردیکھاہو جب رحمۃ اللعالمین کے جسم اطہر کو لہو لہان کردیا گیا ، طائف کے اوباش لڑکوں اور غنڈوں نے نور مجسم پر پتھراؤ کیا ، حتی کہ آپ کی پوشاک مبارک اور نعلین تک خون میں تر بتر ہوگئے ، آپ انے ان گستاخوں ، ظالموں اور بدکرداروں کے خلاف انتقامی اور جوابی کاروائی تو دور کی رہی بددعائیہ کلمات کہنا بھی آپ ا کی زبان نے گوارا نہ کیا ، فرشتوں نے تو دست بستہ ہوکر عرض کیا : حضرت ! آپ فرمادیں تو ان طائف والوں ان دو پہاڑوں کے بیچ کچل دیا جائے ، اس وقت حضور انے اپنی جانی دشمنوں کے حق میں ان کی ہدایت اور راستی کے جو کلمات کہے تھے وہ تاریخ میں لعل وگہر بن کر ثبت ہوگئے ،میں ان کی تباہی نہیں چاہتا ؛ ممکن ہے کہ ان کی نسل میں ایسے افراد پیدا ہوں جو اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں (بخاری،الروض الأنف : ۲۳۵)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مربتہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ واپس آرہے تھے ذات الرقاع میں پہنچ کر ہم نے ایک سایہ دار درخت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ دیا ایک مشرک آیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے کر اسے سونت لیا اور کہنے لگا کہ آپ مجھ سے ڈرتے ہیں میں نے کہا نہیں اس نے کہا اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا میں نے کہا اللہ بچائے گا صحابہ نے اسے ڈرایا دھمکایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تواس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی آپ نے فرمایا اب تجھے کون بچائے گا اس نے کہا آپ بہتر لینے والے ہیں اورکہا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں آپ لوگوں سے قتال نہیں کروں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گا جوآپ سے قتال کریں گے یہ سن کر حضور نے تلوار کو نیام میں ڈال لیا اور پھر نماز کا اعلان کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر وہ لوگ چلے گئے اور دوسرے گروہ کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوگئیں اور لوگوں کی دو رکعتیں ہوئیں ۔(مسند احمد)انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک یہودی عورت زہر آلود بکری لے کر آئی اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھا لیا اس عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ کیوں نہ ہم اسے قتل کردیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں میں اس کا اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تالو میں برابر دیکھتا رہا۔(بخاری)
آپ کی نوازش وکرم اور بڑے بڑے دشمنوں کے ساتھ دلداری اور احسان کا ایک نمونہ وہ تھا جب منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی ابن سلول جومدینہ میں آپ اکے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے میں ہر دم پیش پیش رہا کرتاتھا ؛ بلکہ وہ وہاں کی ہر سازش کا سب سے بڑا منصوبہ ساز تھا ، اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کیلئے کسی طرح کا دقیقہ فروگذاشت ہونے نہیں دیتا تھا ،مسجد نبوی کے بالمقابل مسجدِ ضرار بنانے والا ،مہاجرین کو ذلیل کہہ کر انہیں مدینۂ پاک سے نکالنے کا پروپیگنڈہ کرنے والا تھا ، آپ اکے رِدائے رحمت اور دامنِ ِ عفو وکرم کی وسعت اور کشادگی دیکھئے کہ اس عظیم دشمن کو جس نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ آپ ا کی چہیتی بیوی پر غلط تہمت لگائی ،ایک مہینہ تک مدینہ شہر میں اس منافقوں کے سردار کی افواہوں کا بازار گرم رہا ، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ : میں اپنے میکہ میں روتی پڑی رہی ، رسول اللہ اکی حسّاس ، نازک طبیعت پر کتنا بار رہا ہوگا ؛ لیکن آپ ا نے اس کا نام نہ اپنے خطبوں میں لیا اور نہ اپنی نجی محفلوں میں ، جب اس کی موت کا وقت آیا تو آپ انے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی ،حضرت عمر صنے دامن پکڑا اور کہا : یہ تو وہ ہے جس کے بارے میں اللہ نے یہ فرمایا کہ : اگر ستر مرتبہ بھی اس کیلئے استغفار کروگے تو اس کی معافی نہیں ہوگی ، نبئ رحمت انے فرمایا : اگر اکہترویں مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی معافی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی کرنے کیلئے تیار ہوں اور ا س کو قبر میں رکھنے کے بعد اس کو نکالنے کو کہا ،اس کے بعد آپ انے اس کو اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنا لعابِ دہن اس پر ڈالا اور اپنی قمیص مبارک اس کو پہنائی (بخاری حدیث:۱۲۵۸ )
ایسے ہی ابوسفیان جوبعثت سے لے کر فتحِ مکہ تک آپ ااوراسلام کی راہ کے بہت بڑے روڑے بنے رہے اور کافروں کی طرف سے کئی جنگوں کی قیادت کی ،آپ انے نہ صرف ان کو معاف کیا ؛ بلکہ ان کے گھر کو فتح مکہ کے موقع سے دار الامن قرار دے کرنہ صرف ان کو بلکہ ان کے گھر میں پناہ لینے والوں کیلئے بھی پروانۂ عفو جاری کردیا (مسلم: حدیث:۱۷۸۰)
اور آپ انے تمام قریشِ مکہ کو جنہوں نے آپ اکو آپ اکے قیامِ مکہ کے دوران طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تھیں ،تیرہ سال تک آپ کے بعثت کے بعد قیام کے دوران ظلم کے پہاڑ توڑے تھے ،آپ اکے کئی دفعہ یہاں کے باسیوں نے قتل کے منصوبہ بنائے تھے ،اسی سرزمی، کے باشندوں نے آپ کے رفیق وہمدم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خون سے زمین کو لہولہان کردیا تھا، بلال حبشی ، عمار بن یاسر ، صہیب رومی ،ابوذر غفاری ، خبیب اور حضرت سمیہ جیسے مخلص مسلمانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ تختہ مشق بنانے والے مجرم سامنے تھے ، جنہوں نے مدینہ منورہ پر بار بار چڑھائی کی تھی ، غزوہ خندق کے موقع سے تو سارے کفار کے اشتراک کے ساتھ مسلمانوں کے خاتمہ کے لئے مدینہ کا محاصرہ تک کر لیا تھا ، ایسے سخت جان دشمنوں سے آپ ا فرمایا : اے قریش! تمہیں کیا توقع ہے کہ میں اس وقت تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا ، تو انہوں نے کہا : ’’خیرًا، أخ کریمٌ وابن کریم‘‘اچھی امیدیں رکھتے ہیں ، آپ اکریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں ، آپ انے ارشاد فرمایا : میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف ں نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ’’ لَا تَثْرِےْبَ عَلَےْکُمُ الْےَوْمَ فَاذْھَبُوْا وَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ ‘‘ آج تم سے کوئی داروگیر نہ ہوگی ، جاؤتم سب آزاد ہو۔(السنن الکبری :حدیث:۱۸۰۵۵)
بعض صحابہ نے اس موقع سے جوش انتقام سے مغلوب ہو کر اس طرح کے کلمات کہے : ’’الیوم یوم الملحمۃ ‘‘(آج تو گوشت کانٹے کا دن ہے )یعنی وہ آج مشرکین کو ان کی اوقات دکھادیں گے اور ان کے ظلم ووستم کا حساب کتاب چکائیں گے ، لیکن رحمۃ للعالمین نے فرمایا : ’ آج گوشت کاٹنے کا دن نہیں ؛ بلکہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی کعبہ کو مزید عظمت عطافرمائیں گے اور آج کے دن کعبہ کو عزت کا لباس پہنا یا جائے گا(السنن الکبری : ۹؍۳۰۳)
یہ سب کچھ تو آپ اکا ذاتی معاملہ تھا ، بیٹی کا معاملہ تو نازک اور دردمند باپ کیلئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہوا کرتا ہے ،چنانچہ حضرت زینبؓ مکہ مکرمہ کی گلیوں میں رسول اللہ ا کو تلاش کرکے ، کافروں کے ڈالے ہوئے کوڑا کرکٹ اور گندگیوں کی صفائی کرتی تھیں ، ان کا نکاح زمانۂ اسلام سے پہلے ابوالعاص سے ہوا تھا ، ابوالعاص ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ، نبوت کے تیرہویں سال جب حضور انے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو اہل وعیال مکہ میں رہ گئے تھے ، حضرت زینبؓ بھی اپنے سسرال میں تھیں ، خالہ زاد بھائی شوہر ابوالعاص بدر میں گرفتار کئے گئے اور اس شرط پر رہا کردئے گئے کہ مکہ جاکر حضرت زینبؓ کو بھیج دیں گے ، ابوالعاص جو شریف مزاج تھے اور بعد میں مسلمان ہوکر دوبارہ حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا ، انہوں نے مکہ جا کر اپنے بھائی کے ساتھ تحفظ دے کر مدینہ روانہ کیا ، چند کفارِ مکہ نے تعاقب کیا ، ھبار بن اسود نے ان کی اونٹنی کو نیزہ مار کر گرادیا ، وہ حاملہ تھیں ، اونٹنی سے گرنے کی وجہ سے حمل ساقط ہوگیا ،اس کے علاوہ اور بھی جرائم کا وہ مرتکب تھا ،اسی بناء پر ہبار فتحِ مکہ کے وقت اشتہاران قتل میں داخل تھا ، چا ہا کہ بھاگ کر ایران چلا جائے کہ داعۂدایت نے خود آستانۂ نبوت کو جھکا دیا ، حضور اکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ا! میں بھاگ کر ایران چلا جانا چاہتا تھا ؛ لیکن پھر مجھے آپ اکے احسانات ، حلم اور عفو یا د آگیا ، میری نسبت آپ کو جو خبر پہنچی تھی وہ صحیح تھی ، مجھے اپنی جہالت اور قصور کا اعتراف ہے ، چنانچہ اس بے رحم موذی ھبّار بن اسودکو خدمتِ نبوی امیں اسلام لانے پر آپ انے معاف کردیا۔(موسوعۃ الصحابیات:۴۲۰، محمد سعید مبیض، سوریا)ایسے ہی لبید بن اعصم (یہودی )جس نے آپ اپر جادو کیاتھا جس کی تکلیف اور اس کا اثر آپ اکو چھ مہینے تک تھا ، اس کے جادوکرنے کی خبر کسی جھوٹے عامل یا کاہن نے نہیں دی تھی ؛ بلکہ اللہ جلّ جلالہ نے دی تھی مگر آپ انے اس کو بھی معاف کردیا ۔(مصنف ابن أبی شیبہ)آپ اکی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں کہ جس میں آپ انے اپنے جانی دشمنوں اور اپنے قرابت داروں کے قاتلوں اور اپنی بیویوں پر تہمت لگانے والوں کو تک آپ ا نے معاف کردیا ، کیا آج کے دورمیں کوئی اس عفوودرگذر کی کوئی مثال پیش کرسکتا ہے کہ کوئی اپنی بیٹی کو ناقابلِ بیاں تکلیف دینے والے اور اپنے جانی دشمن اور بیویوں کو بدنام کرنے والوں کو معاف کردیاہو۔؟
وہ وحشی جس نے نبئ رحمت اکے محبوب چچا ، دل وجان سے آپ اکے حامی اور مددگار ، اللہ اور اس کے رسول اکے شیر حضرت حمزہ صکو بے دردی سے قتل کردیا ، یہی نہیں بلکہ کان ، ناک ، ہونٹ کاٹ کر ان کا ہار بنایا ، کھوپڑی میں شراب پلوائی ، کلیجہ نکال کر ہندہ کودِیا اس ہندہ عورت ذات (جو صنفِ نازک کہلاتی ہے ) ہوکر اس نے اس کلیجہ کو چبانے کی کوشش کی ، حتی کہ نعش کی شناخت دشوار ہوگئی ، بالاخر حضرت حمزہ صکی بہن حضرت صفیہؓ نے انگلیوں کے پوروں سے پہچانا ، تاریخِ اسلام کا وہ جنازہ جس پرآقا انے ستر مرتبہ نمازپڑھائی ، مدینہ میں اپنے ہر جنازہ پر رونے پر حضرت حمزہ صکے واقعۂشہادت کو یاد کرکے رویا جاتا تھا ویسے وحشی بن حرب کو آقاا نے پانچ مرتبہ آدمی بھیج کر دعوت دی ، اس پر پرودگارِ عالم نے تین آیتیں اتاریں ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے اسوہ رسول کو اپنا کر ، معاشرے میں معاف اور درگذر کے اصولوں کو چلا کر ساری دنیا کو امن وامان کا گہوارہ بنایا جائے اور حضور ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی ہر گوشہ کا جائزہ لیاجائے اور جہاں کمی وکوتاہی نظر آئے اس کی اصلاح اور درستگی کے لئے کوشش کی جائے ۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نہ مکمل ہے

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Prophet Muhammad (PBUH) : A Mercy to the World. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں