ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-17

ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح

Limits-of-citizen-journalism
ہمیں صحافت کا یہ سبق اِس وقت یاد آرہا ہے کہ
" مدیر(صحافی) کوئی ڈاکیہ نہیں کہ اِدھر جو کچھ دِیا گیا اُدھر یونہی پہنچا دِیا گیا۔ مدیر کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اسے دیکھے اور سمجھے کہ یہ اس کے قاری کے لئے کتنا مفید یا مضر ہو سکتا ہے۔!!"
کچھ برسوں قبل کی بات ہے کہ ممبرا کے ایک ڈاکٹر( جو ایم بی بی ایس نہیں تھے) کا کینسر سے متعلق اخبارات میںایک اشتہار چھپتا تھا کہ اُنہوں نے کینسر کا تریاق ڈھونڈ لیا ہے۔ عموماً اخبارات میں اشتہارات کی ذمے داری مدیر پر نہیں ہوتی مگر ہمارے مدیرِ محترم واقعی" مدیر" تھے ایک دن ان کے کسی کرم فرما نے اس اشتہار کی جانب موصوف کی توجہ مبذول کرائی۔ موصوف نے اسی وقت اُس اشتہار کی اشاعت موقوف کر دِی۔
متعلقہ شعبے کے بچ کُنڈوں نے شو ر مچایا۔ مگر ان کی ہائے ہو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مدیر موصوف کو مالکان کی خاموش تائید حاصل تھی۔ مدیرِ موصوف کاکہنا تھا کہ "واقعی ان ڈاکٹر موصوف نے کینسر کا علاج دریافت کر لیا ہے تو انھیں نوبیل پرائز ملنا چاہئے۔"
مگر وہ اشتہار بازی سے آگے کچھ بھی ثابت نہیں ہوئے۔ ذرا سوچئے کہ موصوف نے واقعی کوئی کارنامہ انجام دیا ہوتا تو انھیں مذکورہ پرائز ملتا یا نہ ملتا کم از کم اپنی ملت میں اپنی قوم میں تو وہ ممتاز ہو ہی جاتے۔

یاد آتا ہے کہ اسی شہر ممبئی میں ایک ' حکیم نذیری' تھے جن کے بارے میں ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ' اُن موصوف کو ہم نے دیکھا ہے' عام طور پر حکیموں کی جو شہرت ہے وہ علاج ِ قوت باہ کی وجہ سے ہے مگر سب پر یہ پھبتی نہیں کسی جاسکتی۔ حکیم نذیری، عام حکیم تھے ہی نہیں وہ تو اُ ن حکما میں سے تھے جو اپنے زمانے کو کچھ دے جاتے ہیں اور تاریخ کا کردار بن جاتے ہیں۔ ان موصوف کی بنائی ہوئی ایک دوا اِس وقت بھی تمام میڈیکل پریکٹیشنر مریضوں کو تجویز کر رہے ہیں اُس دوا کا نسخہ موصوف نے ایک فارما سیو ٹیکل کمپنی کو فروخت کر دِیا تھا۔ اس کمپنی نے چالیس پچاس برسوں میں کروڑہا روپے کمائے اور اس دوا سے نجانے کتنے مریض شفاپا چکے ہیں۔ ہمارے اکثر میڈیکل پریکٹیشنر اس دوا کو تو اچھی طرح جانتے ہیں مگر حکیم نذیری سے نا واقف ہیں اور نہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ مشہوردوا ہےLiv52 جو جگر(لیور) کے امراض میں مبتلا لوگوں کو دِی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی دِلچسپی سے خالی نہیں کہ اس دوا کے نسخے کی بنیاد' یونانی' ہے۔ البتہ ہمالیہ ڈرگس نے اس دوا کو ایسا جامہ دیدیا ہے کہ وہ ایلوپیتھک دوا ہی لگتی ہے۔
پتہ چلا کہ زمانے کی طلب اور اس کی رفتار کو سمجھنا بھی حکمت سے کم نہیں۔ دُنیاکا یہ طریق ہے کہ یا تو آپ اس درجے پر ہوں کہ زما نہ آپ کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو یا پھر آپ میں یہ فہم ہو کہ اب زمانے کے ساتھ ہی چلنا ' ضرورت ِوقت ' ہے۔ جو لوگ اس حکمت کو جانتے ہیں وہی ترقی کی سیڑھی چڑھتے ہیں یقینا اللہ کی توفیق بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مگر توفیق بھی انہیں ملتی ہے جو عزم یعنی نیت اور عمل کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
بات چلی تھی صحافت کی اور مدیروں کی، در اصل آج زندگی کے ہر شعبے میں اکثر ان لوگوں کا عمل دخل ہو چکا ہے جو صرف "صارفیت" پر یقین رکھتے ہیں۔ نتیجہ اس کا سامنے ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ایک اتھل پتھل مچی ہوئی ہے جس میں ہمارا شعبہ بھی شامل ہے۔ ہم جیسے نا اہل اب مدیر انہ کالر اونچا کئے ہر جگہ اینڈ رہے ہیں۔ کل اپنی ہی برداری کے ایک ہندی زبان کے سجّن کا ایک مضمون" کسی معصوم کو دُکھ دینا کارٹو ننگ نہیں" ایک معاصر اخبار میں پڑھا۔ شریمان مادھو جوشی اپنے مضمون میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
" یہ دن مجھے کارٹوننگ کی تاریخ میں ایک کالے دھبے کے روپ میں یاد رہے گا۔ لیکن میری یہ بھی رائے ہے کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو ہمیں بربرتا کے روپ میں دِکھائی دے رہا تو وہیں دوسرا پہلو بازار کی مقابلہ آرائی میں ٹِکے رہنے کی ایک مورکھ (بے وقوف) سنپادَک (مدیر) ہٹ د َھرمِتا کا بھی ہے، جسے بڑی ہی خوبصورتی سے اُس نے 'اظہارِ آزادی' کا جامہ پہنا رکھا ہے۔ تبھی تو ایک غلط سنپادکی( مدیرانہ) سوچ کی وجہ سے چار کارٹونسٹ اور اَنئے(دیگر) لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔"
اس عبارت کے فوراً بعد جوشی جی نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس ضمنی سرخی کے ساتھ " آخر کتنی سوتنترتا(آزادی)" ایک بڑے سوال پر مبنی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ
" کارٹو ننگ میں اظہار کی آزادی کی بات بے حد اہم ہے مگر کیا کارٹون بننے سے لےکر چھپنے تک کے بیچ میں کوئی اور نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی ذمے داری کیا ہے۔؟ یہ کون ہے جو اِس بات پر مہر لگاتا ہے کہ کیا شائع ہونا چاہیے اور کیا نہیں۔!"
جوشی جی نے مزید لکھا ہے کہ
" اگر ہم تھوڑی دیر کےلئے مدیر کو بری الذمہ کر بھی دیں تو کیا کارٹونسٹ ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ آپ اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ اب آپ کی کوئی حد ہی نہیں؟ کارٹونسٹ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اظہارِ آزادی کو بے سمت آزادی مان لیں، کارٹون کی حد وہاں تک ہے جہاں تک کسی کے ضمیر پرچوٹ نہ لگے۔"

یہ اندازِ فکر رکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہمارے ہاں بھی اب عنقا ہی ہیں۔ ہم تو جدھر کی ہوا ہو اُدھر چلنے ہی کو اب دانش مندی سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہمارے لئے تو مجروح سلطانپوری صحیح کہہ گئے ہیں:
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The limits of citizen journalism. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں