دھواں - ایک جائزہ - سعادت حسن منٹو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-18

دھواں - ایک جائزہ - سعادت حسن منٹو

saadat-hasan-manto
چوبیس افسانوں کے اس مجموعے میں جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں، دو افسانے بعنوان "دھواں" اور "کالی شلوار" استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہیں۔
مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ یہ دونوں کہانیاں عریاں اور فحش نہیں ہیں۔
کسی ادب کے متعلق ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر ، ایک اشتہار فراہم کرنے والے اور ایک سرکاری مترجم کا فیصلہ صائب نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تینوں کسی خاص اثر ، کسی خاص غرض کے تحت اپنی رائے قائم کر رہے ہوں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حضرات ایسی رائے دینے کے اہل ہی نہ ہوں۔ کیونکہ کسی بڑے شاعر کسی بڑے افسانہ نگار کے افسانوں پر صرف وہی آدمی تنقید کر سکتا ہے جو تنقید نگاری کے فن کے تمام عواقب و عواطف سے آگاہ ہو۔
استغاثے نے میرے ان دو افسانوں پر کوئی بصیرت افروز تنقید نہیں کی۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ یہ دونوں افسانے فحش ہیں ، اس آدمی کی جو روشنی کا خواہش مند ہے ، جو اپنے عیوب و محاسن جاننا چاہتا ہے اور ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ہرگز ہرگز تسکین نہیں ہوتی ۔۔۔
میں اگر جواب میں صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاؤں کہ یہ دونوں افسانے فحش نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ میں اندھیرے میں اور بھی اضافہ کر دوں گا ۔۔۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا ، اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیز ہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی چیز فحش نہیں لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے ۔۔۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں ، کسی خاص غرض کے ماتحت۔
عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں اور اس کا ذکر بھی فحش نہیں۔ لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تحریروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیئے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا، مکروہ اور غیرصحتمند کہوں گا۔

فحش اور غیر فحش میں تمیز کرنے کے لیے شاید یہ مثال کام دے سکے :
ایک آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے ننگی عورتوں کی بہت سی تصویریں پیش ہوئیں۔ ان میں سے کسی نے بھی، جیسا کہ ظاہر ہے، دیکھنے والوں کا اخلاق خراب نہ کیا اور نہ ان کے شہوانی جذبات ہی کو ابھارا۔ البتہ ایک تصویر جس میں عورت کا سارا بدن کپڑوں میں مستور تھا اور ایک خاص حصہ اس ترکیب سے نیم عریاں چھوڑ دیا گیا تھا کہ دیکھنے والوں کے جذبات میں گُدگدی سی ہوتی تھی، فحش قرار دی گئی۔
کیوں؟
اس لیے کہ آرٹسٹ کی نیت میں فرق تھا اور اس نے جان بوجھ کر لباس کو کچھ اس طرح اوپر اٹھا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ جائے اور وہ اپنے تصور سے مدد لے کر اس نیم عریاں حصے کو عریاں دیکھنے کی کوشش کریں۔

تحریر و تقریر میں ، شعر و شاعری میں ، سنگ سازی و صنم تراشی میں فحاشی تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہئے۔ اگر یہ ترغیب موجود ہے، اگر اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر، وہ تقریر، وہ شعر، وہ بُت قطعی طور پر فحش ہے۔

اب ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ ترغیب"دھواں" میں موجود ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔آئیے! ہم اس افسانے کا تجزیہ کرتے ہیں ۔
مسعود ایک کمسن لڑکا ہے غالباً دس بارہ برس کا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے جسم میں جنسی بیداری کی پہلی لہر کس طرح پیدا ہوتی ہے ۔ یہ اس افسانے کا موضوع ہے ایک خاص فضا اور چند خاص چیزوں کا اثر بیان کیاگیا ہے ، جو مسعود کے جسم میں دھندلے، دھندلے خیالات پیدا کرتا ہے ایسے خیالات جن کا رجحان جنسی بیداری کی طرف ہے ، یہ بیداری وہ سمجھ نہیں سکتا ، لیکن نیم شعوری طور پر محسوس ضرور کرتا ہے ، بے کھال کا بکرا جس میں سے دھواں اٹھتا ہے ۔ سردیوں کا ایک دن جب کہ بادل گھرے ہوتے ہیں اور آدمی سردی کے باوجود ایک میٹھی میٹھی حرارت محسوس کرتا ہے۔ ہانڈی جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے ۔ بہن، جس کی ٹانگیں وہ دباتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب عناصر مل کر مسعود کے بدن میں جنسی بیداری پیدا کرتے ہیں جوانی کی اس پہلی انگڑائی کو وہ غریب سمجھ نہیں سکتا اور انجام کار اپنی ہاکی اسٹک توڑنے کی ناکام سعی کرتا کرتا تھک جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تھکاوٹ اس بے نام سی چنگاری کو "اس" کچھ کرنے کی تحریک کو دبا دیتی ہے ۔

"دھواں" میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کیفیت ایک جذبے ، ایک تحریک کا نہایت ہی ہموار نفسیاتی بیان ہے اصل موضوع سے ہٹ کر اس میں دو راز کار باتیں نہیں کی گئیں ۔ اس میں ہمیں کہیں بھی ایسی ترغیب نظر نہیں آتی جو قارئین کو شہوانی لذتوں کے دائرے میں لے جائے ، اس لئے کہ افسانے کاموضوع "شہوت" نہیں ہے ، استغاثہ اگر ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی کم نظری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔خشخاش کے دانے افیم کی گولی بننے تک کافی مرحلے طے کرتے ہیں ۔
میں نے اس کہانی میں کوئی سبق نہیں دیا ۔ اخلاقیات پر یہ کوئی لیکچر بھی نہیں کیونکہ میں خود کو نام نہاد ناصح یا معلم اخلاق نہیں سمجھتا ، البتہ اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ اس لڑکے کو مضطرب کرنے والی چیزیں خارجی تھیں ۔ انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا ۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں ۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں۔ بعض نہیں کرتے ۔ میرے نزدیک قصائیوں کی دکانیں فحش ہیں کیونکہ ان میں ننگے گوشت کی بہت بدنما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک وہ باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سر دبوانے کا بہانہ لگا کر اس سے ہمبستری کرتے ہیں ۔

ہندوستان میں بچوں کے اندر بہت کمسنی ہی میں جنسی بیداری پیدا ہوجاتی ہے ، اس کی وجہ کسی حد تک آپ کو میرے افسانے کے مطالعے سے معلوم ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔اتنی چھوٹی عمر میں جنسی بیداری کا پیدا ہونا میرے نزدیک بہت ہی بھونڈی چیز ہے یعنی اگر میں کسی چھوٹے بچے کوجنسیات کی طرف راغب دیکھوں تو مجھے کوفت ہوگی، میرے صناعانہ جذبات کو صدمہ پہنچے گا۔
افسانہ نگار اس وقت اپنا قلم اٹھاتا ہے جب اس کے جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے، مجھے یاد نہیں کیونکہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن "دھواں" لکھنے سے پہلے مجھے کوئی منظر کوئی اشارہ یا کوئی واقعہ دیکھ کر ضرور ایسا صدمہ پہنچا ہوگا جو افسانہ نگار کے قلم کو حرکت بخشتا ہے ۔

افسانے کا مطالعہ کرنے سے یہ امر اچھی طرح واضح ہوسکتا ہے کہ میں نے اس بے نام سی لذت میں جو مسعود کو محسوس ہورہی تھی، خود کو قارئین کو کہیں شریک نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک اچھے فن کار کے قلم کی خوبی ہے ۔ اس افسانے میں سے چند سطور پیش کرتا ہوں جس سے افسانہ نگار کے غایت درجہ محتاط ہونے کا پتہ چلتا ہے اس نے کہیں بھی مسعود کے دماغ میں شہوانی خیالات کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا ۔ ایسی لغزش افسانے کا ستیاناس کر دیتی ۔
(1) مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پید اہوا، جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا۔ شروع اسی طرح ،جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں۔۔۔۔۔تو کلثوم نے مزا لینے کے خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔
(2) کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رستے پر ایک بازیگر کو چلتے دیکھا تھا ۔ اس نے سوچا کہ بازیگر کے پیروں کے نیچے تناہوا رسا بھی اس طرح پھسلتا ہوگا ۔
(3) بکرے کے گرم گرم گوشت کااسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سوچا "کلثوم" کو اگر ذبح کیاجائے تو کھال اترنے پر کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا۔"۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اسی طرح صاف کردیا۔جس طرح وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیاکرتا تھا۔

خط کشیدہ الفاظ اس بات کے ضامن ہیں کہ مسعود کا ذہن کہیں بھی شہوت سے ملوث نہیں ہوا۔ وہ اپنی بہن کی کمر دباتا ہے جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں ۔ ٹانگیں دباتا ہے تو اس کا خیال بازیگر کی طرف چلا جاتا ہے جس کا تماشا اس نے ایک بار اپنے اسکول میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب یہ سوچتا ہے کہ اس کی بہن ذبح کردی جائے تو کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا تو فوراً اسے بری بات سمجھ کر اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے اور خود کو مجرم سمجھتا ہے ۔

خدا جانے استغاثہ اس افسانے کو فحش کیوں کہتا ہے جس میں فحاشی کا شائبہ تک موجود نہیں۔ اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا، عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا اُسترہ نہیں کہہ سکتے۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں کہ جن کو بکری کا ایک معصوم بچہ ہی معصیت کی طرف لے جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے ، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کردیتی ہیں۔ مگر لوہے کی ان مشینوں کا جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کوئی قصور نہیں۔ اسی طرح نہ بکری کے معصوم بچے کا اور نہ مقدس کتابوں کا۔۔۔

ایک مریض جسم ، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط تاثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی ، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں ، اصل میں انہی کے لیے شاعر شعر کہتا ہے ، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔

میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں۔
ایسے انسانوں کے لیے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے ۔۔۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔۔۔ جو کسی ادب پارے کو ایک ہی دفعہ نگل نہیں جاتے۔
روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ ، لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔
پڑھنے کے لیے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو ، ہر سطر کو ، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہوگا ، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لیے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے؟!

A review on short story Dhuvaan by Manto

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں