ملک میں سیکولرازم کی جگہ کمیونلزم لاگو کرنے کی کوشش - ایس ڈی پی آئی احتجاج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-31

ملک میں سیکولرازم کی جگہ کمیونلزم لاگو کرنے کی کوشش - ایس ڈی پی آئی احتجاج

SDPI-protest-against-communalism-agenda
بابائے قوم مہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے جنتر منتر میں منعقد مظاہرے میں ایس ڈی پی آئی کے سابق قومی صدر ای ابوبکر نے خصوصی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ 30جنوری یہ وہ دن ہے جس دن ہم بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کی یوم شہادت کے طور پر یاد کرتے ہیں ،30جنوری 1948کوگاندھی جی شام کے پوجا میں مصروف تھے۔ اس دن شام 5.17بجے، گاندھی جی سے ملاقات کے بہانے ناتھورام گوڈسے ان کے قریب پہنچا اور اس نے گاندھی جی کے قریب پہنچ کر ان کے سینے پر تین راؤنڈ گولی ماردی اور گاندھی جی قوم کے خاطر شہید ہوگئے۔ موہن داس کرم چند گاندھی ۔مہاتما گاندھی ، گاندھی جی اور باپو کے نام سے مقبول تھے۔ گاندھی جی کو ان کی مسلسل ، انتھک اور ناقابل فراموش جنگ آزادی کی جدوجہد کے عوض\'بابائے قوم \' کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔ ان کی عدم تشدد ( اہنسا) اور سچائی کے راستے کی قیادت کے ذریعے مجاہدین آزادی اور اس ملک کے شہریوں کے دلوں میں تحریک آزادی کاحوصلہ اور ولولہ پیدا ہوا۔ گاندھی جی نے غربت کے خاتمے ، عورتوں کو درپیش مشکلات سے آزاد کرانے، ذات پات کی امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کیا۔ان کا حتمی مقصد یہی تھا کہ بھارت میں سوراج قائم کیا جاسکے۔ ایک صدی سے زیادہ جنگ آزادی کے دوران ہمارے ملک نے انت گنت شہریوں کی قربانیوں کو دیکھا ہے۔ اس ملک کے بیٹو ں او ر بیٹیوں نے کسی بھی خود غرض مقصد ، بلا تفریق مذہب و ملت ، عقیدہ یا رنگ کے تعصب کے بغیربھائی بہنوں کی طرح آزادی کی جنگ کی تھی۔ دوسری طرف بھارت کی منفرد مثالی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہوئے کالونیل بر طانوی حکومت نے \"تقسیم کرو اور حکومت کرو\"کی پالیسی اختیار کرکے عوام کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ جس کے نتیجے میں بھارتی معاشرے کے درمیان نفرت اور آپسی جھگڑے پیدا ہوگئے۔اس صورتحال سے گاندھی جی کو بے حد صدمہ پہنچا، انہوں نے اپنے تقریروں، تحریروں ، بھوک ہڑتال،کے ذریعے آپسی بھائی چارے کو بحال کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ آزادی کی جدوجہد کے لیے گاندھی جی نے منفرد طریقہ کار کو اپنا یا ، جس میں نمک مارچ،خلافت موؤمنٹ،عدم تعاون مہم،وغیرہ ان کی عدم تشدد جدوجہد کی مثالیں تھیں۔ جب انہوں نے اپنے بیرسٹر پیشے کے لیے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تووہاں موجود غیر انسانی اور رنگ کی بنیاد پر بھید بھاؤ کو دیکھ کرانہیں کافی تشویش ہوئی ، خود گاندھی اس بھید بھاؤ کے شکار ہوئے۔ انہوں نے اس رنگ کی بنیاد پر بھید بھاؤ کے خلاف لڑنے کے لیے بھارتی ماہرین اور جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگوں کو منظم کیا اور اس ملک میں امتیازی رنگ بھید کے خلاف لڑنے کی وجہ سے ان کو ایک رول ماڈل لیڈر کا مقام حاصل ہوا۔ لیکن گاندھی جی کے نظریے سے ملک کے کچھ فرقہ پرست عناصر کو سخت نفرت تھی ۔بس انہوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کردیا اور ان کے قتل کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپنے کی بھی کوشش کی، گاندھی جی کے قاتل گاندھی جی کو قتل کرکے چپ چاپ نہیں رہے، اس کے بعد لاکھوں ہندوستانی شہریوں کو ماردیا، بابری مسجد کو شہید کردیااور ہر علاقہ میں اب تک ہندوستان میں ہر دن ان ہندوتوا فاشسٹوں کی وجہ سے فساد ات ہورہے ہیں۔ آج یہ لوگ اقتدار میں آگئے ہیں، صرف 31% فیصد ووٹ لیکر اقتدار میں آئے ہوئے یہ لوگ پورے ہندوستان کی نمائندگی نہیں کرتے کیونکہ یہ 31%فیصد ووٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ 120کروڑ کی آبادی کے مقابلے میں یہ ایک مائنارٹی گورنمنٹ ہے۔ لیکن ہمارے ملک کی جمہوریت میں یہ لوگ ایک گپت راستے سے اقتدار تک پہنچ سکے ہیں۔ اسی طرح کے ایک راستے سے ہٹلر بھی اقتدارمیں آیا تھا۔ نازی فاسست ہٹلر نے جس طرح جرمنی میں اقتدار حاصل کیا تھا ، آج وہی نازی ہٹلر کے طریقہ کار یہ لوگ یہاں پر اپنانا چاہتے ہیں۔ آج ہمارے پارلیمان میں ایک اپوزیشن لیڈر تک نہیں ہے ! کیوں کہ بر سر اقتدار حکومت یہ نہیں چاہتی کہ کوئی ان کے خلاف آواز اٹھائے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ا راکین پارلیمان ملکر ان کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں ۔تشویش کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے آزادی کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے۔وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنے ایک پسندیدہ آدمی کواپنی پارٹی کا صدر بنایا اور پارٹی کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے ۔ پارٹی کے نئے صدر کے توسط سے گجرات کے تجربہ کو ملک بھر میں عمل پیرا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو اپنے قبضہ میں کرلیا گیا ہے کوئی بل نہیں بلکہ آرڈیننس راج چل رہا ہے۔ اب یہ ملک عام آدمی کا نہیں رہا بلکہ کارپوریٹ گھرانوں و امریکہ کے طرفدار ہوکر رہ گئے ہیں۔ بلاشبہ ایسا نظام ہمارے ملک کو تباہ کرنے والا ہے۔ملک کے جمہوری اور سیکولر اقدار کو پرے رکھ دیا گیا ہے۔ سوشیلزم کو چھوڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کو جاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اپنے اس مقصد کو حصولیابی کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سردار اوباما کو ہمارے ملک میں مدعو کیا گیا ہے۔ملک میں سیکولرازم کی جگہ کمیونلزم لاگو کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ جمہوریت کی جگہ شخصی راج کو لا یا جارہا ہے۔ اس طرح ہمارے ملک کے ثقافت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ رواداری ہمارے ملک کی ثقافت ہے۔ انسانیت ہماری پہچان ہے۔ ہندوستان ایک گلستان ہے، اس گلستاں میں ایک ہی ذات کے پھول کی پیداوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ گلستان تبھی گلستان کہلاتا ہے جب اس میں کئی قسم کے پھول موجود ہوں، لیکن ان پھولوں کو مسلنے اور کچلنے کی کوشش کیا جارہا ہے۔ مہاتما گاندھی کے قاتل نفرت کے سوداگر اور موت کے سوداگر ہیں۔ بر سر اقتدار حکومت نے انتخابات سے قبل ترقی کا وعدہ کیا تھا ، لیکن ترقی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے؟ بر سر اقتدار حکومت کی ایک بہت بڑی ترقی گھر واپسی ہے۔ ایک اور ترقی ہے جس کا نام لو جہاد کے خلاف لڑائی ہے۔ ایک اور ترقی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ایک اور خصوصی ترقی عوامی مقامات میں مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کا مندر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے؟ اتر پردیش ، تلنگانہ، بہار، راجستھان اور آندھرا پردیش میں آئے دن جو فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں وہ بر سر اقتدار حکومت کی ترقی ہے؟نریندر مودی نے 2اکتوبر کو سوچھ بھارت کا افتتاح کیا ؟ آپ اور ہم کو سمجھنا ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان کا مطلب ہمارے سڑکوں اور نالوں کی گندگی صاف کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ تو ہندوستان کی تاریخ صاف کرنے کا ابھیان ہے۔اسی لئے گاندھی جی کے جنم دن کو صفائی کا دن بنادیا گیا ہے اور اٹل بہاری واجپائی کے جنم دن کو گڈ گورننس دن بنا دیا گیا ہے۔نریندر مودی ، آر ایس ایس کا آخری نام نہیں ہے ، صرف ایک ہتھیار ہے ، برہمن واد حکومت قائم کرنے کے لیے ایک مہرہ ہے۔ چونکہ مودی کا تعلق پچھڑے طبقے سے ہے، اس لیے آر ایس ایس ان کو پسند نہیں کرتی ہے، مودی کو استعمال کرکے آر ایس ایس اس ملک میں برہمن واد حکومت لانا چاہتی ہے ۔عوام نے انتخابات سے قبل سوچا تھا کہ مودی ہمارے ساتھ دیں گے ، کیونکہ وہ ایک پچھڑے طبقے کے ہیں ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ برہمن واد نظام میں مودی کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ ملک کے عوام بہت خوش تھے کہ ہمارے ملک میں پچھڑے طبقے کا ایک فرد اچھے دن لانے کا نعرہ اور وعدہ کرکے و زیر اعظم بنا ہے ۔عوام بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ نریندر مودی نے گجرات میں کیا کیا ؟ لیکن پھر بھی عوام نے ان کے نعرے اور وعدے پر یقین کیا۔ آج ہم یہ دیکھ رہے کہ ایک چائے والا وزیر اعظم بننے کے بعد بھی غریبوں کے ساتھ نہیں ہے۔ نریندر مودی نے اڈوانی کو بھی پیچھے چھوڑدیا ، اس نام سے صرف ایک حرف کو نکال کر اڈانی کے ساتھ ہوگئے۔غریبوں کے ساتھی نہیں بلکہ کئی کارپوریٹ گھرانوں کے ساتھی بن گئے !۔گاندھی غریب نہیں تھے مگر وہ غریبوں کے ساتھ دو چادر یں لپیٹ کر زندگی گذارتے تھے لیکن ہمارے وزیر اعظم غریب ہیں ؟ چائے بیچنے والے تھے، لیکن یوم جمہوریہ کے تقریب میں نریندر مودی نام لکھا ہوا لاکھوں روپئے کا کوٹ پہنا۔ وہ غریب ہیں اور لاکھوں کا کوٹ پہن کر غریبوں کے ساتھ ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم غریب ہیں! اس لیے ایک دن میں پانچ سے چھ لباس بدلتے ہیں ؟ ایسے غریب ہیں ہمارے وزیر اعظم ! دراصل ہمارے وزیر اعظم غریب نہیں بلکہ غریب دل اور غریب آتما کے آدمی ہیں۔ہمارے وزیر اعظم نے انتخابات سے قبل بے شمار وعدے کئے تھے ۔ انہوں نے خاص طور پر کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کالا دھن واپس لاکر ہر ہندوستانی شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15لاکھ روپئے جمع کریں گے! میں ای ابوبکر اپنے بینک اکاؤنٹ دیکھتا ہوں ، وزیر اعظم کی جانب سے اب تک کوئی ایسی رقم نہیں آئی ہے ۔ کیا آپ لوگوں کے اکاؤنٹ میں ایسی کوئی رقم آئی ہے ؟ انتخابات سے پہلے یہ لوگ نیوکلیر معاہدہ کے خلاف تھے ، لیکن یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر اوباما کے ساتھ ہوئے معاہدے کیا ہیں ہم جان چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے وعدوں کو نگل گئے ہیں۔ ان لوگوں کی سرکار عام لوگوں کے خلاف ہے اور ہمارے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اب بتائیں پھر ترقی کیسے ہوگی ؟ اگر ترقی چاہتے ہیں تو سرکار کو چاہئے کہ تمام مذاہب اور ذات کے لوگوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ ورنہ ترقی یافتہ لوگ مزید ترقی یافتہ ہوجائیں گے اور ترقی سے محروم دلت طبقہ پیچھے رہ جائیں گے۔ ترقی تو تبھی ممکن ہے کہ جب جسم کا ہر حصہ یکساں طور پر نشو نما ہو، اگر جسم کا ایک حصہ پھول جاتا ہے تو یہ نشو نما نہیں بلکہ ایک روگ اور مرض کہلاتا ہے۔ اس طرح کا ترقی ہمیں نہیں چاہئے۔ امریکی صدر اوباما ہمارے مہمان بن کر ہندوستان آئے تھے اور اس مہمان نے میزبان کو ایک مشورہ دیا کہ ہندوستان اگر مذہبی منافرت سے پاک ہوکر ہمارے ساتھ چلے تو ہم ضرور ترقی کرینگے۔مہمان اوباما نے آر ایس ایس اور بی جے پی کی کار گردگیوں کو جان کر یہ مشورہ دیا ہے۔ اوباما کے ساتھ بہت دلچسپی رکھنے والے اور ان کی تواضع کرنے والے ہمارے وزیر اعظم سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ ان کے مشورے پر غور کرینگے۔ اوباما سے کیا ہوا نیوکلیر معاہدہ پورا کرنے سے پہلے ان کے اس مشورے پر چلیں گے تو ملک کے لیے یہ مشورہ بہت بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔۔ہمارے تصور میں ایک ایسا ہندوستان ہے ، یہ ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات کا نہیں بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی والے ہندوستان کا تصور ہے۔ ایسے ہندوستان کی تعمیر ضرور ہوگی ، اس کے لیے میں اور آپ لوگ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں تو ایسے ہندوستان کی ضرور تعمیر ہوگی۔ ہمارا خواب حقیقت میں تبدیل ہوگا۔ وہ ہندوستان رواداری اور بھائی چارگی کا ہوگا، ایسے ہندوستان میں ہندو میرا بھائی بنے گا اور میں اس کا بھائی بنوں گا۔ ایسے ہندوستان کی تعمیر کے لیے ہم مل کر کام کرینگے، ایسے ہندوستان کے لیے ہم ملکر جئیں گے اور ایسے ہندوستان کے لیے ہم مل کر مر جائیں گے۔ ایس ڈی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری افسر پاشا نے اپنے خطاب میں کہا کہ گاندھی کا قتل کرنے والے لوگ ہمارے دیش کو قتل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہم ہندوستانی مسلمان، دلت، آدی واسی اور سکھ متحد ہوکر ، مل جھل کر ان مجرموں کو لگام لگانے میں ناکام رہے تو ہندوستان باقی نہیں رہے گا ۔ کل کا ہندوستان رواداری والا ہندوستان تھا۔ آج کا ہندوستان آہستہ آہستہ نفرت بھرا ہندوستان بنتا جارہا ہے۔ لیکن مستقبل کا ہندوستان ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اسکے لیے ہندو، مسلم، عیسائی، سکھ اور تمام طبقات کو ملکر نفرت کی سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہے۔ گنگا جمنا ملانے سے پہلے ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی کاآپس میں ایک ہونا ضروری ہے۔ گنگا جمنا تہذیب کے بارے میں ہم بہت سنتے ہیں ، لیکن اس سے پہلے تمام طبقات کے دل و دماغ مہذب ہونا چاہئے ۔ اس احتجاجی مظاہرے میں قومی سکریٹری عبدالرشید اغوان ، صوبہ دہلی کے صدر اڈوکیٹ اسلم ، ڈاکٹر تسلیم رحمانی اور لوک راج سنگھٹن اور ایس ڈی پی آئی کے کارکنان کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام شریک رہے۔

بہار سے ایس ڈی پی آئی کی ایک علیحدہ پریس ریلیز کے بموجب بابائے قوم مہاتماگاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے ملک گیر سطح پر "گاندھی کے قاتل \"دیش کے قاتل "کے عنوان کے تحت عوامی اجلاس، اسٹریٹ میٹ، پوسٹر مہم کے ذریعے زعفرانی بریگیڈ کی جانب سے گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے مجسمے اور مندر تعمیر کرنے کے اعلان اور کوشش کی سخت مخالفت کی اور کئی مقامات میں عوامی ریالی اور احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ ملک کے تقریبا 20سے زائد ریاستوں کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک رہے۔ دہلی تا کنیا کماری ،گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی مخالفت کی گئی اور ملک کے پہلے دہشت گردانہ حملے کو عوام کے سامنے لانے کے لیے ایس ڈی پی آئی کے کارکنوں ، قومی ،ریاستی، ضلعی عہدیداروں نے انتھک محنت کی۔ گاندھی کے قاتل گوڈسے کی مخالفت میں ریاست بہارکے کٹہیار علاقے میں پارٹی قومی صدر اے سعید کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے اور عوامی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس میں قومی صدر اے سعید ، قومی سکریٹری ڈاکٹر محبوب شریف عواد سمیت ریاست بہار کے عہدیداران شریک رہے اور احتجاجی اجلاس میں عوام سے خطاب کیا۔

SDPI protest against communalism agenda

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں