کبھی یہ مشن روڈ اور لائٹ ہاؤس پر لگا کرتا تھا۔ وہ ٹھکانہ ختم ہوا، تو کتب فروش 58ء میں ریگل چوک اٹھ آئے۔ گو اُنھیں اِس بازار کا گرویدہ ہوئے سات برس ہی بیتے ہیں، مگر مختصر سے وقت میں عشق کے ساتوں درجات طے کر ڈالے۔ وہاں کے مشاہدات الفاظ کی لڑی میں یوں پروتے ہیں: "پرانی کتب کا اتوار بازار منفرد مقام ہے۔ یہاں بڑے بڑے شاعر، دانش وَر اور کتابوں کے شوقین اپنے مرتبے کا خیال کیے بغیر، اکڑوں بیٹھے ڈھیر میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی صاحب ثروت لوگ ہزاروں روپے کی کتب ایک ہی وقت میں خرید لیتے ہیں۔"
ان کے مطابق کتب فروش گلی گلی گھومنے والے کباڑیوں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نام وَر شاعر یا ادیب انتقال کر گیا، اور اُس کے لواحقین نے ذخیرہ کوڑیوں کے مول ردی فروش کو سونپ دیا۔ معروف ادیب، صحافی اور شاعر، حسن عابدی کا کتب خانہ اُن کی وفات کے تین برس بعد اتوار بازار آیا۔ شوکت صدیقی کا کتب خانہ 2013 میں فٹ پاتھ پر پہنچا، تو کتنی ہی اہم کتابیں خود انھوں نے پچاس پچاس روپے میں خریدیں۔
کراچی کی دو بڑی لائبریریوں کی کتابیں بھی اتوار بازار میں نظر آئیں۔ بہ قول ان کے؛ "تخلیق" کے مدیر اظہر جاوید کی کتابیں تو اُن کے انتقال کے محض بارہ روز بعد لاہور کے فٹ پاتھ پر دیکھی گئی تھیں۔ شاید اِسی ناقدری اور عدم توجہی کے باعث ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے کتب خانے کے لیے جاپان کی ایک یونیورسٹی کا چناؤ کیا۔
یہاں اُنھیں نام وَر ادیب اور شاعروں کی ایسی کتب بھی ملیں، جن پر اُن کے دست خط ثبت ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کی خودنوشت "یادوں کا جشن" انتہائی ارزاں قیمت پر حاصل کی۔ دست خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ 85ء میں یہ کتاب مہندر صاحب نے کراچی کی کسی خاتون کو پیش کی تھی۔
مقبول جہانگیر کے خاکوں کی یادگار کتاب "یاران نجد" کی ایک کاپی، جو اُنھوں نے اپنے دست خط کے ساتھ معروف براڈ کاسٹر اور ادیب، اخلاق دہلوی کو پیش کی، اُنھیں کراچی کے اتوار بازار سے ملی۔ ساقی، نیرنگ خیال، ادب لطیف اور نقوش جیسے جراید کے برس ہا برس پرانے شمارے بھی اُدھر پائے۔ جو معروف شخصیات اتوار بازار میں اکثر دِکھائی دیتی ہیں، اُن میں پروفیسر سحر انصاری اور ڈاکٹر ظفر اقبال نمایاں۔ قمر سہارنپوری بھی کسی زمانے میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ غالب جیسی وضع قطع والے ماسٹر اقبال کتب فروشوں کے قبیلے کی معروف ترین شخصیت تھے، جو گاہک کے حساب سے کتاب کی قیمت لگاتے۔
یہ راشد اشرف کی کہانی ہے، جو ہیں تو انجینئر، مگر عشق کتابوں سے کیا۔ فقط اتوار بازار کا احوال اس داستان کا حصہ نہیں۔ جم کر تحقیق کی۔ ابن صفی، مولانا چراغ حسن حسرت اور عبدالسلام نیازی جیسی شخصیات کو موضوع بنایا۔ پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ یوں تو ہر کتاب قابل ذکر، مگر "طرز بیاں اور" کی کیا بات ہے۔ کہنے کو ایک کتاب، پر کتنی ہی کتابوں تک رسائی کا وسیلہ۔ اتوار بازار سے خریدی، فراموش کردہ کتب سے ماضی کی گرد جھاڑی، اُن پر تبصرے اور مضامین لکھے۔ یعنی خود بھی اُدھر کی سیر کی، ہمیں بھی کروائی۔ اور تو اور اُنھیں اسکین کرکے انٹرنیٹ پر بھی پیش کر دیا۔
پانچ سو سے زاید اردو کتب "اسکرائبڈ" (Scribd) نامی ویب سائٹ پر "اپ لوڈ" کر چکے ہیں، جنھیں قارئین کے لیے تحفہ قرار دیتے ہیں۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مہاراشٹر میں بیٹھے محمد انیس الدین اور علی گڑھ کے پروفیسر اطہر صدیقی کا بھی اس ضمن میں تعاون حاصل رہا۔ اس ویب سائٹ تک رسائی کا طریقہ بے حد سہل۔ گوگل سرچ انجن پر راشد اشرف لکھیں، ابتدائی نتائج ہی میں اسکرائبڈ کا لنک پائیں، اور ایک طلسماتی دنیا میں داخل ہوجائیں۔ ایک لاکھ 31 ہزار افراد اس کی سیاحی کر چکے ہیں۔ کاپی رائٹ قوانین کا خیال رکھتے ہیں۔
وہ کتابیں چنتے ہیں، جن کے مصنفین یا تو انتقال کر چکے ہیں، یا شایع کرنے والے ادارے قصۂ پارینہ ہوئے۔ تازہ کتابیں اپ لوڈ نہ کرنے کی وجہ اُن کے بہ قول یہ کہ ایک کتاب سے کم از کم سو افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ تو نئی کتاب اپ لوڈ کرنا ناانصافی ہوگی۔ "طرز بیاں اور" میں انٹرنیٹ پر پیش کردہ کتب کی فہرست بھی دی ہے۔ پاک و ہند کے کئی طلبا کو ایم فل اور پی ایچ ڈی میں مدد دے چکے ہیں۔
اب ذرا توجہ حالاتِ زندگی پر مرکوز کرتے ہیں:
جائے پیدایش؛ کراچی۔ محمد سلیم اشرف کے گھر آنکھ کھولی، جو نیشنل بینک سے منسلک تھے۔ وہ ایک سخت گیر اور ایمان دار افسر کی شہرت رکھتے تھے۔ بہ طور باپ شفیق، مگر شفقت کا برملا اظہار نہیں کرتے تھے۔ مراسلت والدہ کے ذریعے ہوتی، مگر اولاد کی تمام ضروریات پر نظر رکھتے۔ اس بات کا قلق ہے کہ جس لگن سے اُنھوں نے پرورش کی، اس یک سوئی سے وہ اُن کی خدمت نہیں کرسکے۔
شعور کی دہلیز حیدرآباد میں عبور کی۔ بچپن میں بلا کے شرارتی۔ کرکٹ کا جنون تھا۔ ہاکی اور فٹ بال کا بھی تجربہ کیا۔ شمار اچھے طلبا میں ہوتا۔ پبلک کالج، حیدرآباد سے انٹر کرنے کے بعد لاہور کی ایک درس گاہ میں داخلہ لیا۔ آٹھ ماہ اُدھر ہاسٹل میں رہے۔ وہ وقت اب خوش گوار یادوں کا حصہ ہے۔ جب خبر ملی کہ داؤد انجینئرنگ کالج، کراچی میں داخلہ ہوگیا ہے، تو شہر قائد کا رخ کیا۔ 97ء میں کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اُس زمانے میں ماموں کے ہاں رہایش رہی۔ گذشتہ دو عشروں سے وہ آئل اینڈ گیس سیکٹر سے منسلک ہیں۔
لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط۔ پہلے پہل فیروزسنز کی بچوں کی سیریز نے گرویدہ بنایا۔ چھٹی جماعت میں تھے، جب ابن صفی کے ناولوں کا ذایقہ چکھا۔ تجربہ انوکھا رہا۔ آگے بڑھے، تو بڑھتے چلے گئے۔ کہتے ہیں،"جس طرح Prolific writers ہوتا ہے، بے تحاشہ لکھنے والا۔ تو اس طرح سے ہم Prolific reader رہے۔ یعنی مروجہ ادب میں سب کچھ پڑھا۔ البتہ دل چسپی کا محور خودنوشت، سوانح عمری اور شخصی خاکے رہے۔"
جب لکھنے بیٹھے، تو خشک موضوعات سے اجتناب برتا۔ مشفق خواجہ کے انداز میں، شگفتگی کے حامل مضامین لکھے۔ خواہش یہی رہی کہ قاری کو دل چسپ اور متنوع مواد فراہم کیا جائے۔ مضامین یہ پاک و ہند کے مختلف جراید میں شایع ہوئے۔ شاید اُن ہی میں ایک کتاب کا خاکہ چُھپا تھا۔ اپنے من پسند ادیب، محمد خالد اختر کے الفاظ دہراتے ہیں: "یہ مضامین اکیلے، اداس لمحوں میں خود کو بہلانے کے لیے لکھے۔ جب وہ مدیروں کی فراخ دلی کی بدولت چھپے، تو دیکھ کر تعجب ہوا کہ چند پڑھنے والوں کو ان کا انداز اچھا لگا۔"
تحقیق کے لیے اَن چھوئے موضوعات کا تعاقب کیا۔ ابن صفی بھی ان میں سے ایک۔ 2012ء میں پہلی کتاب "ابن صفی: کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا" شایع ہوئی۔ چار سو صفحات کی کتاب میں ابن صفی پر لکھے نادر مضامین اور خاکوں کو یک جا کیا۔ تلاش میں بڑا پتا مارنا پڑا کہ بیش تر ڈائجسٹوں میں گم۔ مضمون نگاروں میں نصر اللہ خاں، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، مجنوں گورکھپوری، شبنم رومانی، شاعر لکھنؤی اور شکیل عادل زادہ جیسے نام شامل۔
اگلے برس "ابن صفی: شخصیت و فن" شایع ہوئی، جس میں ان کے ادوار زندگی، ابن صفی بہ حیثیت شاعر اور مزاح نگار، اُن کے ناولوں کے رومانوی کردار اور ان کے ادبی مقام پر بحث کی۔ کئی ابہام دور کیے۔ ادب کے ناخداؤں نے ابن صفی کو کیوں تسلیم نہیں کیا، کس کس کی رائے معاندانہ رہی؟ اِس مدعا پر بھی حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی بات کی۔ وامق جون پوری، خالد اختر اور نیازفتح پوری کا اس ضمن میں تذکرہ آتا ہے۔
ابن صفی کے بیش تر مخالفین اُن کے بہ قول، حسد کے نرغے میں تھے۔ اُنھیں گوارا نہیں تھا کہ قارئین ابن صفی کے ناول قطار لگا کر خریدتے ہیں۔ ایڈیشن راتوں رات ختم ہوجاتا۔ تو اُن پر پھبتیاں کَسی گئیں۔ اُسے سری ادب کہہ کر ایک خانے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی۔
جب عالمی ادب میں سائنس اور کرائم فکشن کے شعبے الگ، رومانوی اور پُراسرا ادب کے قاری جدا، تو یہاں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کو ادب عالیہ میں شمار کرنے پر اصرار کیوں؟ اس بابت راشد اشرف کہتے ہیں،"مغرب کے پاپولر فکشن میں آپ کو ادبی چاشنی اور شاعرانہ تخیل نہیں ملے گا۔ ابن صفی کے ناول ان عناصر کے حامل تھے۔ اتنے پرقوت کہ انسان کی عقل حیران رہ جائے۔ 2013 میں مولانا آزاد یونیورسٹی، دکن میں منعقدہ سیمینار میں تسلیم کیا گیا کہ ابن صفی کی تخلیقات ادب عالیہ کا حصہ ہیں۔ تو اب یہ بحث ختم ہوگئی ہے۔ اُن پر کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ سیمینار ہورہے ہیں۔ طلبا ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
ان کا کمال یہ تھا کہ پان والا بھی ان کا اسیر، ایٹمی سائنس داں بھی اُن کا قاری۔ وہ کمال کے مزاح نگار تھے۔ کچھ عرصے قبل ان کا شعری مجموعہ ’متاع قلب‘ شایع ہوا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ 2009 میں پہلی بار ایک پرائیویٹ چینل نے اُن کی برسی پر رپورٹ نشر کی تھی، اُس سے قبل اُن سے متعلق کبھی کوئی خبر نہیں چلی۔ مگر اب میڈیا کا رویہ بھی تبدیل ہوا ہے۔"
ابن صفی کے مشہور زمانہ کردار، عمران پر کئی کہانی کاروں نے طبع آزمائی کی۔ راشد اشرف کے مطابق 61ء میں جب ابن صفی بیماری کے باعث اگلے تین برس تک نہیں لکھ سکے، تو مارکیٹ کی طلب پوری کرنے کے لیے کئی لوگوں نے جعلی ناموں سے لکھا، مگر انھوں نے لوٹ کر جب "ڈیڑھ متوالے" لکھا، تو یہ تمام افراد غائب ہوگئے۔
جب ہم نے ذکر کیا کہ مظہر کلیم کی عمران سیریز خاصی مقبول ہوئی تھی، تو کہنے لگے،"ہے تو وہ چربہ، مگر ہر شخص میں کوئی نہ کوئی قابلیت ہوتی ہے۔ اُنھوں نے جدید انداز اپنایا۔ جیمز بانڈ کی فلموں کے مانند ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ میں قطعی نہیں کہوں گا کہ انھوں نے اچھا لکھا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی ریڈر شپ ہے۔" ایچ اقبال کی عمران سیریز کو وہ ناکام کوشش قرار دیتے ہیں۔ "ہاں، ان کی پرمود سیریز مقبول ہوئی، جسے ابن صفی نے بھی سراہا، مگر مشہور یہ ہوگیا کہ انھوں نے ایچ اقبال کی عمران سیریز کی تعریف کی ہے۔"
"مولانا عبدالسلام نیازی: آفتاب علم و عرفان" اُن کی تیسری کتاب۔ دلی کی اس عبقری شخصیت سے مولانا مودودی اور اُن کے بھائی، ابو الخیر مودودی نے اکتساب فیض کیا۔ عنوان مودودی صاحب کے بیٹے، حیدر فاروق مودودی نے تجویز کیا۔ کتاب میں جوش، اخلاق دہلوی، شاہد دہلوی ، ملا واحدی اور خلیق انجم جیسے قلم کاروں کے مضامین۔ رزی جے پوری اور مسعود حسن دہلوی کے تحریر کردہ خاکوں کا حصول بڑی کام یابی تھا۔
یہیں بیٹھے بیٹھے ان کی قبر کی تصویر بھی حاصل کرلی۔ حالاں کہ دلی کے ایک محقق کا دعویٰ رہا کہ مولانا کی قبر کی کسی کو خبر نہیں۔ کہتے ہیں؛ محقق کو حکم نہیں لگانا چاہیے۔ موقف میں لچک ضروری ہے۔ کوشش کریں، تو راستہ نکل آتا ہے۔ دل چسپ امر یہ کہ عزیز میاں قوال کی سوانح سے مولانا نیازی کا تذکرہ بھی حاصل کر لیا۔ یہ ٹکڑا پنڈی کے ایک صاحب، حسن نواز شاہ کے توسط اُن تک پہنچا۔ قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔
"چراغ حسن حسرت: ہم تم کو نہیں بھولے" تازہ ترین کاوش۔ اس ممتاز صحافی، کالم نویس اور شاعر پر مرتب کردہ اِس شگفتہ اور معلوماتی کتاب میں شامل بیش تر تحریر 70 سے 80 برس پرانی۔ 33 خاکے۔ خود نوشتوں سے تذکرے۔ "چٹان" اور "امروز" کی فائلوں سے حسرت کے یادگار واقعات۔ دیباچہ انتہائی دلچسپ۔ اُن کے پسر، ظہر الحسن جاوید اور بھانجے، محمود الحسن کے مضامین بھی شامل۔ کتاب کا بہت چرچا ہوا۔
مجیب الرحمان شامی، جبار مرزا، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی اور الطاف حسن قریشی نے تعریف کی۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت پر تحریر کردہ ڈاکٹر طیب منیر کے پی ایچ ڈی مقالے سے بھی بہت مدد ملی۔ راشد اشرف کے بہ قول؛ مولانا اہل زبان نہ ہونے کے باوجود بہت شستہ زبان لکھتے تھے۔ ناقدین نے سرسید، شبلی اور حالی کی تحریروں سے تو زبان کی غلطیاں نکالیں، مگر دو ادیبوں پر وہ انگشت نمائی نہیں کر سکے، ایک مولانا ظفر علی خان اور دوسرے مولانا چراغ حسن حسرت۔ قلق ہے کہ اس قوم، بالخصوص صحافی برادری نے ان جیسے قدآور اور دیانت دار صحافی کو یک سر فراموش کر دیا۔
زیر ترتیب کتابوں پر بھی بات ہوجائے۔ آج کل مختلف سوانح عمری اور خود نوشتوں سے ماورائے عقل واقعات اکٹھے کرنے میں جٹے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں اس کی اشاعت متوقع۔ پاک و ہند کے شخصی خاکوں کے انتخاب پر بھی کام کر رہے ہیں۔ پچاس خاکوں کا انتخاب کیا ہے۔ ممکن ہے، کتاب یہ دو جلدوں پر مشتمل ہو۔ بنگال میں مقیم، مشتاق اعظمی نے، جو خاکوں کے بہت بڑے شوقین، اپنے ذاتی کتب خانے سے خاکے بھجوائے۔ اِس تناظر میں مشفق خواجہ کے تین جلدوں پر مشتمل انتخاب کا بھی تذکرہ آیا۔ راشد اشرف کا کہنا ہے؛ ان کی کاوش خواجہ صاحب کی کتاب سے یک سر مختلف ہوگی۔ معلومات کے ساتھ ساتھ انھوں نے دل چسپی کے عنصر کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔
تمام کتابوں کی اشاعت کا اہتمام خود ہی کیا۔ "بزم تخلیق ادب" کے تحت کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ اِسے وہ دیوانے کا خواب کہتے ہیں۔ البتہ خوشی ہے کہ مشاہیر نے اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ قارئین کا ردعمل بھی مثبت رہا۔ ان کے مطابق ہمارے ادبی ادارے جو کتابیں چھاپ رہے ہیں، اُن کا معیار ہمارے سامنے ہے۔ "کتنے ہی افراد اچھی کتاب کا مسودہ بغل میں لیے گھوم رہے ہوں گے، مگر جیب اُن کی خالی ہوگی، اور سرکاری اداروں سے ان لوگوں کی کتابیں چھپ رہی ہیں، مشفق خواجہ جن سے متعلق کہا کرتے تھے؛ دو سوگرام کے کاغذ پر دس گرام کی بات۔ تو ایسا نظام وضع کیا جائے، جس کے تحت تخلیقات کو جانچ کر شایع کیا جائے۔"
خوشیاں اور غم کتابوں سے جڑے ہیں۔ جب کوئی اچھی کتاب ہاتھ میں ہو، اردگرد خاموشی ہو، تو خوشی کے کامل لمحات کا تجربہ کرتے ہیں۔ کتابوں کی تقریب رونمائی میں جب خواہ مخواہ مصنف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہوں، تو دکھ ہوتا ہے۔
فکشن نگاروں میں وہ قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی اور عبداللہ حسین کو سراہتے ہیں۔ "جانگلوس" کو شاہ کار قرار دیتے ہیں۔ کلاسک شعرا کے مداح۔ کہنا ہے؛ اب تو اتنی شاعری ہورہی ہے کہ اس کے بوجھ تلے انسان دب کر ہلاک ہو جائے۔ البتہ کبھی کبھار اچھا شعر سامنے آجاتا ہے۔ گائیکی میں محمد رفیع، لتا اور جگجیت سنگھ کو سراہتے ہیں۔ آرٹ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ "شطرنج کے کھلاڑی"، "پارٹی" اور "منڈی" کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ پینٹ شرٹ کو آرام دہ محسوس کرنے والے راشد اشرف سادہ خوراک ہیں۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
Rashid Ashraf, A researcher of world of rare Urdu books
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں