عزیز بلگامی - اردو غزل کا ایک معتبر نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-08

عزیز بلگامی - اردو غزل کا ایک معتبر نام

Aziz Belgami Belgaumi
عام طور سے غزل کو حسن و عشق کی باتوں، ہجرو وصال کے قصوں اور محبوب کی شوخیوں اور اداؤں کے بیان سے ہی عبارت سمجھاجاتا ہے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ عزیز بلگامی کی غزلیں دیکھنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ غزل میں فکروفلسفہ بھی ہے ، تصوف کی چاشنی بھی ہے، اخلاق و نصیحت کی باتیں بھی ہیں، پندو موعظت بھی ہے، تہذیب و تمدن، ادب و ثقافت بھی ہے اور طنزوظرافت کے پردے میں اصلاح و تربیت کی کوشش بھی ہے۔اور ان سب کے ساتھ ساتھ غزل علوم و معارف کا گنجینہ بھی ہے۔
اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ ریاست کرناٹک کے کسی ایسے غزل گو شاعر کا نام بتاؤ؟ جو اخبارات و رسائل میں خوب شائع ہوتا ہو تو میں شاید عزیز الدین عزیز بلگامی کا ہی نام پیش کروں۔ریاستِ کرناٹک کے مشہور شاعرو ادیب جناب عزیز الدین عزیزؔ بلگامی کی شہرت ان کی غزل گوئی کے حوالے عالمی سطح پر دستک دے رہی ہے۔
عزیز بلگامی کی پیدائش کڑچی ضلع بلگام میں ہوئی اسی وجہ سے بلگامی کا لاحقہ ان کے نام کے ساتھ جڑارہتا ہے جب کہ اب عزیز بلگامی بنگلور شہر میں مستقل قیام پذیر ہیں۔آپ نے اپنی شاعری کی ابتداء جناب سید نور الدین قادری نور مرحوم اور جناب عطاء الرحمٰن عطاؔ ہبلوی مرحوم کی رہنمائی میں کی۔
عزیز بلگامی کے اب تک دو مجموعہ ہائے کلام: ’’حرف و صوت‘‘ اور ’’سکون کے لمحوں کی تازگی‘‘اور ایک نثری کتاب’’زنجیر دست وپا‘‘، جو یم فل کا مقالہ بعنوان’’عطاء الرحمٰن عطاؔ ہبلوی فن اور شخصیت ‘‘ ہے ،شائع ہو چکے ہیں۔’’دعاہے ہمارے پاس ‘‘ سمیت۴ آڈیو کیسیٹ منظر عام پر آ چکے ہیں۔اور مزید مجموعہ ء کلام شائع ہونے کے منتظر ہیں جو کسی وقت بھی منظر عام پر آسکتے ہیں۔
غزل گوئی کے میدان میں عزیز بلگامی اس وقت اُفق کی بلدیوں پر پرواز کررہے ہیں۔ ان کی غزلیں اب ہندوپاک کی سرحدوں سے نکل کر جاپان و امریکہ کے رسائل و جرائدسے آگے سٹلائٹوں کی دنیا پربھی اپنی موجود گی درج کراچکی ہیں۔
عزیز بلگامی اپنی غزلوں میں ملک و ملت کے لئے ایک کسک ، درد، غم لئے ہوئے ہوتے ہیں ان کی غزلوں میں جہاں حالات حاضرہ پر روشنی پڑتی ہے وہیں ان کے کلام میں اسلامی عقیدہ وحدانیت و رسالت اور تقدیر کا بڑا اہتمام رہتا ہے ۔آپ مثبت طرزِفکر کے حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مثبت طرز فکر حاوی رہتی ہے،منفی رجحانات و میلانات سے گریز کیا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ اسلام کی حقانیت اس کی تہذیب و ثقافت کوبھی بڑے اہتمام سے اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کے کلام کو خاص اسلامی ذہن رکھنے والے حضرات بھی بڑی اہمیت سے پڑھتے ہیں۔ اسلامی طرز زندگی سے خاص لگاؤ کی وجہ سے ان کی غزلوں میں بھی اسلامی اسپرٹ دکھائی دینا ایک لازم سی بات ہے۔
لب پہ توحید کا دعویٰ بھی ہے، اعلان بھی ہے
اور اغیار کے در پر بھی جبیں سائی ہے
تری عظمت کے مقابل مرا سجدہ کیاہے
کوہ، احسان ترے، شکر مرا رائی ہے
موجودہ حکومت کے سیاہ کارناموں سے ہندوستان کا ہر شہری واقف ہے، اس کی ظلم و طغیان کی داستانِ الم کون نہیں جانتا۔یہ آئے دن اپنے نئے نئے منصوبوں سے اس ملک کا شیرازہ بکھیر رہا ہے۔ہر کوئی اس کی شرارتوں سے پریشان ہے۔ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ اس ملک کے امن و امان کو غارت کرنے میں لگے ہیں۔قومی یک جہتی کی روایت کو پامال کرنا ان کا مقصد بن چکا ہے۔عزیز اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تخت دِلی پر ستم رانوں کی یہ جلوہ گری
یاتراؤں سے بھی بڑھ کر پُرفتن ثابت ہوئی
چیخ اُٹھیں گے ایک دِن سارے دھرم کے ٹھیکیدار
زعفرانی رنگ کی چادر کفن ثابت ہوئی
عزیز کو اس بات کا بڑاافسوس ہے کہ موجودہ دور میں لوگ اُردو زبان بھی نہیں سمجھتے ہیں ۔ لوگ اُردو زبان کے لب و لہجہ اور اس کی شیرینی سے واقف نہیں ہیں بلکہ اب تو بس ترنم کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس کی چاشنی ، لطافت کی اہمیت اب لوگوں میں نہیں پائی جاتی، کہتے ہیں:
آپ نے جس کو غزل کہہ کر سنایا تھا ابھی
وہ ترنّم کے حوالے سے بھجن ثابت ہوئی
اسی کو دوسری غزل میں اس طرح کہتے ہیں:
دِل کو چھوتی نہیں اب کوئی غزل ، شعر کوئی
چھا گیا حسنِ ترنم پہ بھجن کا پہلو
عزیزکے یہاں ترنم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عزیز جس مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں وہاں اپنے ترنم ریز آوازسے سامع پر ایک مسحور کن اثر ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سامع داد و دہش اورپھولوں کے ہاروں سے ان کا جھوم جھوم کر استقبال کرتا ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ ایک دوسرے سے حسد بغض و کینہ لئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ کوئی کسی کی ہمت افزائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہر طرف سے بس ڈسکرج ، حوصلہ شکنی ،پژمردگی کی آواز سنائی دیتی ہے کوئی کسی کی سراہنا کرنے کو تیار نہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے کارناموں کو بھی کوئی صلہ نہیں دیا جاتا۔ کوئی اچھا کلا م پیش کرے ، کسی نے اچھے اشعار کہے ، کوئی اچھا افسانہ یا مضمون لکھے تو اس کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس بات سے عزیز کو بڑا افسوس ہوتا ہے،وہ کہتے ہیں:
اُڑان اُونچی بھلا اُن کی دسترس میں کہاں
زمیں سے جن کو کبھی حوصلہ ملا ہی نہیں
عزیزکی غزلوں کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں زبان و بیان کی سادگی و پرکاری اور تازہ کاری بھی ملتی ہے۔ ان کے کلام میں زبان و بیان کی چاشنی اور لہجے کی متانت نے ان کی شاعری کو فکری توانائی عطاکی ہے۔ان کے اشعار میں ہمیں فکری بصیرت اور علم و حکمت جھلکتی ہے۔
نہ جانے کیسے دُعائیں مری قبول ہوئیں
دُعا کے نام پہ لب پر کوئی دُعا ہی نہیں
دُعا خلوص سے مانگی، بدل گئی تقدیر
وہی ملا جو مقدّر میں تھا لکھا ہی نہیں
عزیز کے اشعار میں ہم ایک چیز بہت کثرت سے دیکھتے ہیں ان کے یہاں ’’دعا‘‘ لفظ کا بھی بڑا اہتمام ہے۔ عزیز کی زندگی میں خلوص و محبت کو بڑی اہمیت ہے۔ یہ چیز میں نے خود ان کے اندرمحسوس کیا ہے۔ چھوٹوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔میں خود بھی ایک دو بار ملا ہوں میں نے ان کو خلوص و محبت کا پیکر پایا ہے۔ایک شعر میں خلوص و دعا کا دیکھیں کس طرح استعمال کیا ہے:
فقط خلوص کے سِکّوں کا عرش پر ہے چلن
دُعا بھی لوٹ کے آتی ہے، بددُعا ہی نہیں
اعلیٰ انسانی قدروں کی شکست و ریخت کے اذیت ناک اور درد بھرے احساس کو لفظ و بیان کے قالب میں ڈھالنے کے لئے عزیز نے جن علامتوں کا سہارا لیا ہے اور جو پیکر تراشے ہیں ان سے شاعر کے فن کارانہ ذہن کی حسن کاری، تخلیقی جوہر اور قدرت اظہار کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسان دوستی کے زوال نے جس طرح انسانی ضمیر کو بے جان اور معطل کرکے رکھ دیا ہے اور انسان کی روحانی زندگی کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہے اس نے نفسیاتی پیچیدگیوں کو عام کردیا ہے۔
مقتول، قتل ہو کے سخاوت ہی کر گیا
قاتل کو سر فراز کیا سر کی بھیک سے
فن کا لباس فکر کی تزئین کا سبب
تاثیرِِ فکر شعر کے پیکر کی بھیک سے
ان کے یہاں خود داری و خودی بھی بہت ہے۔ ہر در کا بھکاری بننا عزیز کو پسند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ شعرا جو دوسرے کے کلام کو مشاعروں میں پڑھاکرتے تھے بڑے بڑے منصب و عہدہ حاصل کرلئے لیکن ایسے لوگ جو اپنی خودداری و وضع داری کو بچائے رکھے یا اپنی شخصیت کے انا کو پامال ہونے سے بچالئے وہ لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔ اور شاید اس انتظار میں تھے کہ میں اپنی فن کی وجہ سے کوئی مقام حاصل کر لوں گالیکن آج کے چاپلوسی و خود غرضی کے دور میں بغیر جی حضوری کئے کس کو منصب و عہدہ ملتا ہے؟ اب تو بس تعلقات کادور ہے۔ جھوٹی تعریف، صبح و شام کی حاضری میں ہی بڑے بڑے منصب حاصل کئے جاتے ہیں۔ کوئی فن کار اپنے فن کی وجہ سے بڑی ہی مشکل سے اپنا مقام بناپاتا ہے۔ورنہ نا اہل لوگ ہی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں:
بے غیرتی کا پینا بھی پینا ہے کیا عزیزؔ
تشنہ لبی ہی اچھی ہے ساغر کی بھیک سے
کہتے ہیں شاعر وقت کا نباض ہوا کرتا ہے۔حالات پر اس کی نظر ہوتی ہے۔اس کے اندر ادراک کی ایسی کیفیت ہوتی ہے جو عام انسان میں نہیں پائی جاتی اس کا وجدان ،اس کی فکر، وقت و حالات سے واقف ہوتی ہے۔عزیز کے یہاں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔
عزیز نے ظالم حکومت و اقتداکے خلاف بھی علم بغاوت بلند کیا ہے اپنے اشعار کے ذریعہ قاتل و ظالم کو بھی للکارا ہے۔ ان کے کلام میں جہاں رحم و کرم ، شفقت و محبت کے الفاظ ملتے ہیں وہیں قتل و غارت، ظالم وجابر ، چھری و تلوار کے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں، کہتے ہیں:
وہ قتل گاہ پہ پھر، اِختیار چاہتا ہے
لہو میں ڈُوبا ہوا، اِقتدارچاہتا ہے
لگی ہو چاٹ جسے قتلِ عام کی وہ شخص
چھری کوپھر سے بہت تیز دھار چاہتا ہے
عزیزصاحب نے ایک غزل میں لفظ ساحل کو بہت عمدہ طریقہ سے مختلف پیرایہء انداز میں برتا ہے۔ جن کی وجہ سے شاعر کے قادر الکلامی کا پتہ چلتا ہے۔ایک لفظ کو مختلف اسلوب میں الگ الگ ڈھنگ سے شاعروں کے یہاں برتنا فنکارانہ اہمیت کا حامل ہے۔
لاکھ طوفان اُٹھیں ڈوبنے والے چیخیں
سُن کے بھی اَن سُنی کردیتا ہے بہرہ ساحل
گو زمانے کی نگاہوں میں تماشہ ساحل
نا خداؤں کا ایک سہارا ساحل
غزل کی اہمیت سے شاعر اچھی طرح واقف ہے یہی وجہ ہے کہ آپ مسلسل غزل کہہ رہے ہیں ۔ غزل کی اہمیت کا اندازہ ان کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے:
غزل نہیں تو سخن کیسا، شاعری کیسی
سخنوروں کے سروں کے لئے ہے تاج غزل
آج کل الکٹرانک میڈیا اور اخبارات و رسائل میں سنسی خیز، بڑھکاؤبیان، مار دھاڑ،قتل و غارت گری کی وارداتیں اس کثرت سے نظر آتی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخبارات خون وخشت میں ڈوبا ہوا ہے۔ زیادہ تر خبریں ایسی نظر آتی ہیں جس میں خون ہی خون ، قتل ہی قتل دکھائی دیتا ہے۔کہتے ہیں:
اخبار ہے یا خون میں نہایا ہوا کاغذ
کیا قتل ہی اب مشغلہء اہل وطن ہے
عزیز صاحب دوسرے شعراء کو دعوت سخن دیتے ہیں کہ وہ لب و رخسار کے علاوہ بھی بہت سارے موضوعات و مسائل ہیں جس پر شعر کہنے کی ضرورت ہے۔اب محبوب کے لب و رخسار کی خول سے نکل کر باہر آنے کی ضرورت ہے۔ملک و ملت کے مسائل و حالات کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں:
کتنے ہیں مسائل لب و رخسار سے ہٹ کر
کیا حسن ہی فنکار کا موضوعِ سخن ہے
عزیز کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ اگر لب و رخسار سے کوئی ہٹ کر موضوع سخن بناتا ہے تو اس کو بھی لوگ بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس پر مذہبی شاعری کا الزام لگایا جاتا ہے۔کہتے ہیں:
آپ کے اشعار کی مقبولیت خطرے میں ہے
چھوڑدی رُخسار و لب کی گفتگو ،کیا کر دیا!
چھوٹی بحروں میں بھی عزیز کے یہاں اشعار مل جاتے ہیں:
راہ کٹھن ہے دور ہے منزل
پاؤں میں کانٹے چلنا مشکل
شہدو شکر ہے بات میں شامل
لہجہ لیکن زہر ہلاہل
ان کی غزلوں میں ہوا، پانی، آگ اور مٹی جن کو عناصر اربعہ کہا جاتا ہے ان کا بھی خوب استعمال ہواہے۔ان کی ایک غزل میں دیکھیں کس روانی سے لفظ’ ’ہَوا‘‘ کو شاعر نے برتاہے۔جس کے اندر موسیقیت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
گنگناتی جا ہوا، نغمے سُناتی جا ہوا
پھر خس و خاشاک سے دامن بچاتی جا ہوا
میری لَے میں لَے ذرا تو بھی ملاتی جا ہوا
پھر مرے عزم و یقیں کے گیت گاتی جا ہوا
آپ نے پانی پر بھی ایک عمدہ غزل کہی ہے جس کا ایک شعر مجھے بے حد پسند آیا پیش ہے:
جو ملا مجھ کو وہی پیش کیا ہے میں نے
میرا اخلاص ذرا دیکھ نہ جا پانی پر
عزیز الدین عزیز نے اُردو زبان کی پوری تاریخ ایک شعر میں کہہ دی وہ کہتے ہیں:
نہیں شاداب یوں ہی باغِ اُردو
عزیز اِس میں ہے خوں شامل ہمارا
یقیناًاس بات سے سبھی واقف ہیں کہ جنگ آزادی میں ہمارے اسلاف نے اپنی جانیں نچاور کردیں۔ اپنے قلم کے ذریعہ اپنی انقلابی نظموں، غزلوں اوربیانوں و ناروں کے ذریعہ سے اس وطن عزیز کو آزاد کرایا۔اُردو اخبارات کا رول جنگ آزادی میں ایسا رہا ہے جس سے ہر اُردو داں واقف ہے۔
عزیز صاحب نے اپنی محنت ، لگن، دھن اور جدو جہد کی وجہ سے یہاں تک پہونچے ہیں ان کو اس کا بخوبی احساس ہے ۔ وہ اس بات کا ذکر اپنے کئی اشعار میں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں:
بھیڑ کے بیچ کھڑا ہوں میں یہ احساس لیے
مری تقدیر میں تنہائی ہی تنہائی ہے
گو کہ مشہور ہوں، مقبول نہیں ہوں پھر بھی
کیا یہ کم ہے کہ مری خود سے شناسائی ہے
عزیز صاحب آج کل مشترکہ غزل بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کی کئی غزلیں مختلف شہروں کے شعراء کے ساتھ شائع ہوچکی ہیں۔یہ کام بھی بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھاجارہا ہے۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی اخبارات و رسائل میں ان کی مشترکہ غزلیں شائع بھی ہورہی ہیں۔
عزیز بلگامی صاحب نے غزل کے علاوہ حمد، نعت،نظم، منقبت، قطعات وغیرہ بھی کہے ہیں۔لیکن غزل گوئی سے ان کوایک خاص انسیت ہے۔عزیز بلگامی کا عکس ان کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔ آپ طبعاً شریف، مخلص، دیندار اور نیک انسان ہیں۔ اسلام سے سچی محبت و وفا داری رکھتے ہیں۔یہ اسلامی روایات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ان کی نظروں میں ہمیشہ اسلامی شان و شوکت، عدل و انصاب ، رہبری و رواداری کی وہ مستحکم روایات ہوتی ہے۔جس سے کبھی پوری دنیا اور انسانیت سچی اور صحیح راہ پاتی تھی۔حق گوئی و بے باکی ان کی فطرت میں شامل ہے۔ بہ حیثیت شاعر صاف، ستھری، فکر انگیز شاعری ہی ان کی شناخت ہے۔

***
salman_pbh[@]rediffmail.com
Mob. : 09341378921
26, Haines Road, 1st Floor, Egyptian Block, Bangalore -560051
عبداللہ سلمان ریاض قاسمی

Aziz Belgaumi, a renown laureate of Urdu Ghazal. Article: Abdullah Salman Riyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں