مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی - وائس چانسلر کا ایک اور اسکام منظر عام پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-17

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی - وائس چانسلر کا ایک اور اسکام منظر عام پر

ملک کے اردو بولنے والوں کے ایک دیرینہ مطالبہ کے بعد قائم ہونے والی اردو کی قومی یونیورسٹی’’ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو ولوں کی علمی ، تعلیمی، تحقیقی پیاس کو بجھانے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی بجائے اردو کے نام پر بے قاعدگیوں ، بدعنوانیوں ، بے ایمانیوں اور دھاندلیوں کے ذریعہ یونیورسٹی کے مالیہ کو لوٹنے اور اپنے حواریوں ، حاشیہ برداریوں اور جی حضوری کرنے والوں کو نوازنے کا ایک بدترین اڈہ بن چکی ہے ۔ اردو والوں کی یہ بد نصیبی ہے کہ اس یونیورسٹی کو ہر گزرتے دن کسی نہ کسی مافیا کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں اس مافیا گروہ نے پوری یونیورسٹی کو یرغمال بنالیا ہے ۔ یوں تو یہ یونیورسٹی ایک قومی یونیورسٹی ہے جو صدر جمہوریہ ، وزارت فروغ انسانی وسائل اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے تحت کام کرتی ہے لیکن اب یہ یونیورسٹی ایک بدعنوان مفادات حاصلہ کی شخصی جاگیر بن چکی ہے۔ یہاں تعلیم صرف برائے نام ہے اورلوٹ مار ، دھاندلیوں ، بد عنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا دور دورہ ہے ۔ عام شکایت یہ ہے کہ وائس چانسلر کی آمرانہ روش اور من مانیوں کے سامنے کوئی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرسکتا ۔ یونیورسٹی کے تقررات کے سلسلہ میں وائس چانسلر کی مرضی کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے ۔ پرو وائس چانسلر ہو کہ کوئی پروفیسر یا درجہ چہارم کا ملازم اس کا تقررکہنے کو تو کسی اپنے ہی حواریوں کی بنائی ہوئی کمیٹیوں کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو وائس چانسلر کا منشاء ہوتا ہے ۔ موجودہ وائس چانسلر کے دور میں ہر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے یونیورسٹی میں ہونے والی بد عنوانیوں کا پردہ چاک ہوتا رہا ہے ۔ لیکن وائس چانسلرکی دہلی سیاسی راہداریوں میں جان پہچان کے نتیجہ میں ٹھوس شواہد و ثبوت کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر اب اس قدر دیدہ دلیر ہوچکے ہیں کہ انہوں نے تمام قاعدے قانون کو اپ نے پیروں سے روندتے ہوئے اپنی میعاد کے اختتام سے صرف3،4ماہ قبل نئے چانسلر کی آمد کے دن ہی انتہائی ہوشیاری، چالاکی اور مکاری کے ساتھ اپنے حواریوں اور پاپوش برداروں کو فینانس آفیسر، کنٹرولر آف اگزامنیشن ، لائبریرین ، ڈیٹی رجسٹرار ، میڈیا کو آرڈینٹر ، اسسٹنٹ رجسٹرار اور کونسلرجیسی جائیدادوں پر بٹھانے کے لئے ایک اشتہار جاری کیا اور ان جائیدادوں کے سلسلہ میں صرف12دن کے اندر یعنی27جنوری تک درخواستیں حاصل کرنے کی ہدایت دی ۔ چالاکی کا مظاہرہ یہ کیا گیا کہ اردو اخبارات میں یہ اشہتارات صرف ایک شمالی ہند سے شائع ہونے والے ایسے اخبار کو جاری کیا گیا جس کا ایڈیشن حیدرآباد سے بھی شائع ہوتا ہے۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ہے لیکن حیدرآباد سے شائع ہونے والے کسی اردو اخبار کے لئے یہ اشتہار جاری نہیں کیا گیا ہے ۔ مکاری کی انتہا یہ ہے کہ شمالی ہند سے شائع ہونے والے اخبار میں یہ اشتہار اس صفحہ پر شائع کیا گیا جو صرف حیدرآباد کے لئے مختص رہتا ہے ، چونکہ حیدرآباد میں اس اخبار کا کوئی سرکیولیشن نہیں ہے ، اس لئے چالاکی یہ کی گئی کہ قائدہ کی تکمیل کے لئے رسمی طور پر یہ اشتہار چھپوایا گیا ۔ انگریزی اخبار میں بھی ایسی ہی مکاری کی گئی اور اس اشتہار کو نیٹ پر بلاک کردیا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ اس اشتہار میں درخواست گزاروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ تعلیمی قابلیت ، تجربہ، عمر سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی کی سیب سائٹwww.manuu.ac.inسے بک لیٹ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں ۔ لیکن ویب سائٹ پر نہ ہی یہ اشتہار اپ لوڈ کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی بک لیٹ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وائس چانسلر کو ایسی کیا عجلت پیش آئی کہ وہ اس طرح ہوشیاری کے ساتھ ان جائیدادوں کو اپنی میعاد کے اختتام سے قبل پُر کرنا چاہتے ہیں ۔
در حقیقت یہ اشتہار ایک خانہ پری اور قاعدہ کی تکمیل ہے ۔ جب کہ ان جائیدادوں کے سلسلہ میں پہلے ہی وائس چانسلر کے حامی و پاپوش برداران کی فہرست میں منتخب ہوچکے ہیں ۔ اور بعض تو کام کررہے ہں ۔ ایک قومی یونیورسٹی میں جب کہ باقاعدہ پبلک ریلیشنس آفیسر موجود ہے اور ایک شعبہ کا م کررہا ہے وہاں میڈیا کو آرڈینیٹر کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا میڈیا کو آرڈینیٹر کی جائیداد پیدا کرنا اور اس جائیداد پر تقرر کے لئے درخواستیں طلب کرنا در حقیقت کسی پاپوش بردار بیروزگار صحافی کو باز آباد کرنے کی ایک کوشش تو نہیں ؟ جو موجودہ وائس چانسلر کے اشاروں پر چپراسی سے کہیں زیادہ وفاداری کے ساتھ ان کے وقار کو بنائے رکھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ اسی طرح اشتہار میں دئیے گئے تمام اکیڈیمک اینڈ نان ٹیچنگ جائیداد وں کو بھی وائس چانسلر جانے سے پہلے اپنے لوگوں سے پر کردینا چاہتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک و صاف نظم و نسق دینے کی دعویدار مرکزی حکومت ، وزارت فروغ انسانی وسائل ، وائس چانسلر کے اس اسکام کو بھی سابق کی طرح نظر انداز کرے گی یا پھر سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کرواتے ہوئے نہ صرف وائس چانسلر کو کیفر کردار تک پہنچائے گی بلکہ پورے مافیا کو بھی بے نقاب کرے گی۔

MANUU Vice chancellor new scam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں