شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا 15 ویں مکہ مکرمہ کانفرنس کے شرکاء کے نام پیغام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-24

شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا 15 ویں مکہ مکرمہ کانفرنس کے شرکاء کے نام پیغام

15th-Makkah-conference
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ؒ نے15ویں مکہ مکرمہ کانفرنس کے شرکاء کے نام پیغام ارسال فرمایا تھا جو بلا شبہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے ۔ گورنر مکہ مکرمہ شہزادہ مشعل بن عبداللہ نے اس پیغام کو2’’روزہ کانفرنس‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے پڑھ کر سنایا تھا۔ یہ کانفرنس’’ اسلامی ثقافت وراثت اور عصر حاضر کی ہمرکابی‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہوئی تھی اس میں مصر، عراق ، الجزائر ، مراکش، تیونس، امریکہ ، انڈونیشیا ، پاکستان ، ایران تاجکستان ، اور ترکی کے مہمان بھی موجود تھے ۔خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اپنے پیغام میں جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یوں تھا کہ:
’’اسلامی ثقافت ہی مسلم اقوام و ممالک میں اتحاد پیدا کرے گی ، لہذا اسلامی ثقافت اور اسے بنانے سنوارنے والے مذہب اسلام پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے ۔ مقامی اور قومی ثقافتوں کا دھیان رکھاجائے ۔ قومی وابستگی کو مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی وابستگی سے مربوط کردیاجائے ۔ خادم حرمین شریفین نے پیغام میں کہا کہ یہ کانفرنس ذالحجہ کے مبارک ایام میں منعقد ہورہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان دونوں کی عظمت کا تذکرہ’ والفجر ولیال عشر‘‘ فرماکر کیا ہے ۔ میں مبارک سر زمین میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں ، یہ سر زمین دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے لاکھوں فرزندان اسلام کو خوش آمدید کہہ رہی ہے ۔ میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے گو ہوں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلے میں ہمیں اپنے تعاون سے نوازے ۔ ہمیں اہل ایمان کے امن و امان اور راحت و سکون کے اسباب مہیا کرنے کی سعادت عطا فرتا رہے تاکہ فرزندان اسلام احسن طریقے سے حج کے مناسک ادا کرسکیں اور تمام ضیوف الرحمان اپنے اپنے وطن بسلامت و غنیمت واپس ہوں ۔برادران اسلام ! اسلامی ثقافت ہی امت مسلمہ کی شناخت بناتی ہے ۔ یہی اسلامی تمدن کی جہت متعین کرے گی ۔ یہی امت مسلمہ کے فریقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرے گی ۔ اسی ثقافت کی بدولت تمام مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے کروڑوں ہم مذہبوں کے ساتھ دینی اخوت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں ۔ مسلمان دین کے معاملے میں ایک دوسرے کے شریک ہیں ۔ ہر مسلمان کا پیگام وہی ہے جو اس کے دوسرے ہم مذہب کا ہے۔ تمام مسلمانوں کے جذبات، احساسات ، امیدیں اور آرزوئیں ایک ہیں ۔ سب کے وجدان میں امت مسلمہ کے حال و مستقبل کے حوالے سے ایک جیسی امنگیں سرابھارے ہوئے ہیں۔ اسلامی ثقافت ہی امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرے گی ۔ یہی مسلم اقوام و ممالک کو جڑے گی لہذا تمام فرزندان اسلام کا فرض ہے کہ وہ اسلامی ثقات کے لئے جدو جہد کریں اور اسلامی ثقات کو بنانے سنوارنے والے مذہب کی پابندی کریں۔ مقامی اور قومی ثقافتوں پر توجہ مرکوز کریں اور ان کے فروغ کی کوشش کریں ۔ اس طرح قومی وابستگی مختلف مسلم لکوں میں اسلامی وابستگی سے جڑ جائے گی ۔
امت مسلمہ کا مل شخصیت کی مالک ملت ہے ۔اس شاندار،درخشاں تمدنی تجربہ اور اس کا عظیم الشان تاریخٰ ریکارڈ تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔ امت مسلمہ دیگر اقوام سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ امت مسلمہ بنی نوع انسان کو اچھائی کی تعلیم دینے ، برائی سے روکنے اور اللہ کریم پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے لئے ہے ۔ امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کے آخری عالمی پیغام کی علمبردار ہے ۔ اسلام کا پیغام روشنی اور رحمت کا پیغام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات سورہ نساء کی آیت نمبر174میں یوں فرمائی ہے کہ:’’اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری جانب واضح نوراتاردیا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ بات سورہ انبیاء کی آیت نمبر107میں فرمائی ہے ۔ ارشاد پاک کا مفہوم ہے ،’’اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجاہے ۔‘‘
اس تناظر میں امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی ثقافت سے پوری قوت کے ساتھ جڑ جائے اور جائز طریقوں سے اپنی ثقافت کا دفاع کرے ۔ بین الاقوامی و انسانی تعاون کے باب میں اپنے عہدو پیمان کی تکمیل، اسلامی ثقافت کے منافی نہیں ۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ افرادی قوت کا فروغ اور اس حوالے سے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات امت مسلمہ کے ثقافتی ماحو ل کے دائرے سے خارج نہیں ہوسکتے۔ اپنی ثقافت سے ہمارا رشتہ ہم سے آباؤ اجداد کے تاریخی ورثے اور عصر حاضر کی ہمرکابی کے درمیان توازن کا طلب گار ہے۔ عصر حاضر کی ہمرکابی یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی دنیا سے موثر تعلق پیدا کریں ۔ معاصر دنیا کے مسائل اور اس کی مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔ علوم و معارف کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں اور زندگی کے مختلف طور طریقوں کے حوالے سے ابھر کر سامنے آنیو الی باتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اسکا تقاضا ہے کہ ہم لوگ اغیار کے ساتھ پر امن بقائے باہم کے اصول پر عمل پیرا ہوں ۔ اغیار کے ساتھ تعاون کے مثبت رشتے قائم کریں۔ وسیع البنیاد مشترکہ انسانی ماحول کو بنانے سنوارنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں ۔
عصر حاضر کی ہمرکابی کے تقاضوں کو پورا کرنا اسلامی ثقافت کے مسلمہ پہلو سے وابستگی کے منافی نہیں ۔ ہمارا دین ہماری زبان عربی اور ہماری اسلامی عربی قدریں ، ہماری ثقافت کا غیر متزلزل حصہ ہیں ۔ اسکا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تاریخی ورثے پر فخرو ناز کریں ۔ اس پر توجہ دیں اور اپنی زندگی کے امور کو منتظم کرنے میں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ آج امت مسلمہ جس پراگندہ ثقافتی صورتحال سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ علمائے کرام ، داعیان ملت اور اصحاب قلم اس کی گہرائی ، گیرائی کے ساتھ تفصیل سے جائزہ لیں، بگاڑ کے اسباب دریافت کریں ۔ حکمت اور تسلی بخش دلائل کی بنیاد پر اس گتھی کو سلجھائیں ۔ صحیح آگہی رائج کرنے ، غلط افکار کا مقابلہ کرنے اور اسلامی مضامین کی بابت غلط تصورات کو درست کرنے والی اسکیمیں اور پروگرام مل جل کر مرتب کریں ۔سعودی عرب امن و استحکام کی جس دولت سے مالا مال ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بدولت اسلامی ثقافت کی حفاظت ہی کا ثمر ہے ۔ سعودی عرب اسلامی ثقافت کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اور مستقبل میں بھی انشاء اللہ اسی نہج پر چلتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہم نے ثقافت کے معاملے میں تاریخی ورثے اور عصر حاضر کی ہم رکابی کے درمیان ہم آہنگی اور توازن پیدا کیا ۔ ہم نے تمام تخلیقات، جدت طرازیوں اور ایسی مفید تبدیلیوں سے فائدہ اٹھایا جو ہمارے مذہب اور ہمارے اخلاق کے لئے مضرت رساں نہیں تھیں ۔ ہمیں سوجھ بوکے ساتھ اس قسم کی ہمرکابی میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جو ہمارے تشخص ، امت سے ہماری وابستگی ، اپنے ورثے اور اپنی درخشاں تہذیب و تمدن سے انتساب کی بابت اثر انداز ہوتی ہو۔‘‘

King Abdullah's message to 15th Makkah conference

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں