غیر مصدقہ تاریخی حقائق اور منفی سوچ - قومی بیانیہ کا جز بنانے پر مورخین معترض - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-01

غیر مصدقہ تاریخی حقائق اور منفی سوچ - قومی بیانیہ کا جز بنانے پر مورخین معترض

Indian-History-Congress-Platinum-Jubilee-Session
انڈین ہسٹری کانگریس نے اپنے پلاٹینیم جوبلی اجلاس کے اختتام پر ایک قرار داد منظور کرکے سوتوں کو جگانے کا کام کیا ہے۔ یہ قراد داد غیر مصدقہ تاریخی حقائق اور منفی فکر کو قومی بیانیہ کا جزء بنانے کی سیاسی لیڈروں کی کوششوں پر مورخین کے کڑے اعتراض کی عکاسی کرتی ہے۔ ہندوستان میں بے بنیاد باتیں عوامی منچ سے اور معتبر لوگوں کی زبان سے ادا ہونے کا نیا سلسلہ چل پڑا ہے۔ جس کے خلاف ایک بڑا طبقہ زبان کھولنے سے گریز کرتا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ سیاسی ہو۔ کسی بھی جمہوری سماج میں اپوزیشن کا بے پناہ کمزور پڑ جانا جمہوریت، ملک اور عوام تینوں کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ سولہویں لوک سبھا الیکشن کے بعد ہندوستان میں ایک اسی حکومت آئی ہے جس کی سوچ سائنٹفک بنیادوں پر کھڑی ہونے کی بجائے بے بنیاد اساطیر میں الجھی ہوئی ہے۔ جو باتیں کہ کر لوگ شرمندہ ہوتے تھے وہ باتیں اب بھرے اجتماعات میں معتبر لوگ بڑے شان سے کہتے ہیں۔ عام آدمی ایسی کوئی بات کہے تو اس کی پکڑ نہیں ہوتی لیکن اگر حکمران طبقے کی نمائندگی کرنے والے یاملک کے لیڈران ایسی بات کہیں تو نہ صرف حیرانی ہوتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ملک کا اعتبار کم اور اس کا وقار پست ہوتا ہے۔گڑیس بھگوان کے حوالے سے ملک کے اہم ترین لیڈر کا یہ کہنا کہ ہندوستان نے پلاسٹک سرجری کا ہنر لاکھوں برس پہلے سیکھ لیا تھا اور بعد میں بھول گیا کیونکہ گڑیس بھگوان کو ہاتھی کو سوڑ لگانے کا کام پلاسٹک سرجرمیں مہارت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، ایک ایسا بیان ہے جو کسی کے حلق سے نہیں اترتا۔ لیکن بیان کو معتبر بنانے والی آواز چونکہ سب سے بڑے لیڈر کی ہے اس لئے ہندوستان کو اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ پلاسٹک سرجری اس کی ایجاد ہے اور دنیا کو اس کا مذاق اڑانے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا کہ ہندوستا ن میں بے پر کی ہانکی جارہی ہے۔ انڈین ہسٹری کانگریس نے اپنے وجود کی ذمہ داری کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ کسی بھی طرح کے خوف سے بالا اور رعب ورعایت سے بلند ہو کر یہ بات صاف صاف کہی کہ وزیر اعظم سمیت تمام سیاسی لیڈروں کو اس کا دھیان رکھنا چاہئے کہ ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو مسلمہ تاریخی حقائق کی نفی کرتی ہو۔ انڈین ہسٹری کانگریس نے بجا طور پر نصاب میں تبدیلی کی پرزور مخالفت کی ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں بہت عام ہوگئی ہیں کہ اسکولوں میں بچوں کو جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس میں ہندوستانیت لائی جائے۔ ہندوستانیت لانے کا مطلب بی جے پی کے اس دور میں، جومودی سرکار کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ نصاب میں تبدیلی کرکے تاریخی حقائق کو مسخ کیا جائے گا اور باتیں کسی بھی ڈھنگ سے ثابت نہیں ہیں ان کو تاریخی سچ بنا کر پیش کیا جائے گا۔ یہ پروپیگنڈہ یوں تو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ جیسے یہی کہ تاج محل شاہجہاں نے نہیں کسی اور نے بنوایا تھا۔ جامع مسجد دہلی پر پہلے ایک مندر تھا بعد میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ یا ایسا ہی بہت کچھ۔ جو کسی عقیدے کا جزء تو ہے ، کسی بگڑی ہوئی فکر کا تسلسل تو ہے مگر تاریخ نہیں۔ اسے اب تاریخ بنایا جارہا ہے۔ انڈین ہسٹری کانگریس 1935میں قائم ہوئی تھی اور ان 75سے 80برسوں میں اس نے ہندوستان کی تاریخ کو مسلمہ واقعات سے مزین کرنے اور تذکروں سے دور رکھنے کی مکمل کوشش کی ہے۔ اسی لئے انڈین ہسٹری کانگریس کو لگا کہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے وزیر اعظم سمیت نئے لیڈروں کی غیر سائنٹفک فکر پر اپنی رائے ضرور دینی چاہئے۔ بجا طور پر اس قرارداد میں غیر مسلمہ حقائق کو قومی مکالمے پر حاوی اور قومی بیانیہ کا جزء بنانے کی مخالفت کی گئی ہے اور مورخین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ معتبر لوگ بے اعتباری پیدا کررہے ہیں۔ نصاب میں کوئی ایسی تبدیلی جو ملک کو نئے ملینئم کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے قرون وسطی میں لے جانے والی ہو قطعی قابل قبول نہیں ہے ۔ بی جے پی، اس کی ہمشیر تنظیمیں، اس کا نظریاتی گرو، آر ایس ایس، اس کے لیڈران اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وہ تمام لوگ جن کو انڈین ہسٹری کانگریس نے کہیں نام لے کر کہیں اشاروں میں ہوشیار کیا ہے ، ہوشیار ہو جانا چاہئے کیونکہ کچھ دنوں کا اقتدار اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ سچائی مسخ کرکے دوبارہ تاریخ لکھتے وقت جھوٹ کا طومار باندھیں اور نئی نسل کو بیدار کرنے کی بجائے بھیانک اندھیرے کے غار میں ڈھکیل دیں۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Indian History Congress takes dig at PM: 'don't distort past'. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں