الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب سابق ناظم علاقہ اڑیسہ ایک پیکر جرار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-02

الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب سابق ناظم علاقہ اڑیسہ ایک پیکر جرار

maulana-abdul-ghaffar
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مت سہل ہمیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اقبال اور میر نے ہر زمانے میں جن خاص لوگوں کی آمد کی اطلاع دی تھی وہ ہوتے تو زمانے کی ہی پیداوار لیکن اپنے گراں قدر کارناموں اور انسانیت کی خدمت اور اپنے خصوصی اوصاف کے ذریعے رہتی دنیا تک جانے جاتے ہیں۔ بڑے انسان آسمان سے نہیں اترتے بلکہ اپنے جیسے انسانوں سے ابھرتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے درد کو پہچانتے ہیں اپنے رب کو پہچانتے ہیں انسان کے منصب کو پہچانتے ہیں اور اپنی دینی‘فلاحی‘ملی‘سیاسی‘سماجی و تہذیبی خدمات سے نہ صرف اپنے علاقے کو بلکہ اپنے زمانے کو متاثر کرتے ہیں ایسی ہی ایک شخصیت الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب سابق ناظم جماعت اسلامی اڑیسہ کی تھی جو سرزمین نظام آباد سے اٹھی اور اپنے علاقے میں خدمات پیش کرتے ہوئے اپنے دور اور زمانے کو متاثر کر گئے۔ایسی ہی شخصیات کے لئے کسی شاعرنے کیا خوب کہا کہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی میں اسی لئے مسلماں اسی لئے نمازی
الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب 1937ء کو ضلع نظام آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے بابا پو ر میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام محمد عبدالمجید صاحب تھا جو پیشہ سے پولیس پٹیل تھے۔مولوی محمد عبدالغفار صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔زریعہ معاش کی خا طر انہوں نے 1956ء کو بابا پور کو خیر آباد کیا اور ضلع مستقر پر سکونت اختیا ر کی اس دوران شہر نظام آبادکی ایک چھوٹی سی مسجد جو شہر کے درمیان میں واقع محلہ احمدی بازار قدیم بس اسٹانڈ پر قائم تھی اور جوبعض احباب کے مطابق غیر آباد تھی اس کو اپنے احباب کے ساتھ ملکر آباد کیا اور اس مسجد میں امامت کا آغاز کردیا حالا نکہ وہ کوئی مدرسہ کے فارغ تھے نا عالمِ تھے نا حافظ لیکن عربی اور اردو کی مبادیات سے واقف تھے اللہ رب العزت نے انہیں بصیرت و بصارت سے نوازہ تھا وہ علم عطا کیا تھا جو شائد مدرسہ سے فراغت کے بعد بھی بہت کم افراد کے حصہ میں آتا ہے۔بڑے سے بڑے عالم دین یا تعلیم یافتہ فرد کے سامنے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے مسجد کے ہی ایک کمرے میں اپنے علمی سفر کا آغاز کیا اور جید علمائے اکرام سے زانوےِ ادب طئے کیا اور ساتھ ہی انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل کیا ۔ اسی دوران مولانا مودودی ؒ کی اقامت دین کی دعوت نظام آباد پہنچ چکی تھی ،جناب عبدالقادر خاں صا حب مرحوم صوبیدار کی تحریک پرجماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروں بنتا گیا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستگی نے جناب محمد عبدالغفار صاحب کی شخصیت کے اندر مقصد کے حصول کے لئے جہد مسلسل ،تڑپ،لگن ،خلوص، استقلال اور قربانی کا مادہ پیدا کیا۔1960ء میں انہیں جماعت اسلامی ہند کی باضابطہ رکنیت حاصل ہوئی ۔1966 ء مولوی محمد عبدالغفار شہر نظام آباد کے امیر مقامی منتخب ہوئے،اس دوران وہ ضلع میں جماعت کے پھیلاوٗ اور فروغ کیلئے ایسے متحرک ہوگئے کہ ان کے شانہ بہ شانہ چلنے والے احباب میں عبدالقادر خان صاحب، خواجہ معین الدین صاحب،قمرالدین صاحب،عبدالرزاق صاحب وغیرہ شامل ہوگئے۔ان کے پیش نظر جماعت کے کاموں کے علاوہ ملت اسلامیہ کا درد بھی پنہاں تھا وہ سماج میں ہونے والی نا ہمواریوں کے خلاف کمر بستہ ہوجاتے اور اس کیلئے جدوجہد بھی کرتے اور کام کی تکمیل تک بے چین رہتے،دراصل یہ ان کی فطرت کا خصوصی وصف تھا جو دنیا سے تشریف لے جانے تک بھی برقرار رہا۔1966ء کے دوران انہوں نے مسلم مجلس مشاورت کے قیام کی مساعی انجام دی ۔،اور وہ مسلم مجلس مشاورت کے معتمد بنائے گئے،اس وقت مسلم مجلس مشاورات کے مرکزی وفد نے نظام آباد کا دورہ کیا تھا ، جس کی رہنمائی میں وہ پیش پیش تھے،دراصل وہ ہمیشہ ملی مفاد کو عزیز رکھتے تھے۔1965 تا 1967ء نظام آباد میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے جس میں امن و امان کی بحالی اور نا حق گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی رہائی میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔اس سلسلہ میں وہ غیر فرقہ کے افراد کے ہاتھوں زخمی بھی ہوئے اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ ان سب چیزوں میں ثابت قدم رہے اور اپنی رفتار میں کوئی سستی آنے نہیں دی۔1972ء میں نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کاقیام عمل میں لایا اور ہ اڈھاک کمیٹی کے معتمد بنائے گئے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کے بعد سے انتقال تک بھی وہ معتمد کی ذمہ داری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا خصوصی وصف یہ تھا کہ وہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے اور کسی کی برائی کو سنتے بھی نہیں تھے اس لئے لوگ انھیں عزیز رکھتے تھے اور جب کبھی کوئی ملی مسئلہ آجائے تمام ہی جماعتوں سے مشاورت کرتے اور اس کے حل کیلئے متحرک ہوجاتے اور اللہ نے انہیں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو جوڑے رکھنے کا خصوصی وصف بخشا تھا۔ 26جون 1975ء میں اس وقت کی وزیر اعطم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے ہزاروں قائدین کو زنداں میں نظر بند کردیاگیا تو نظام آباد سے جن احبا ب کو گرفتار کرتے ہوئے چنچل گوڑہ جیل منتقل کیا گیا ان میں مولوی محمد عبدالغفار صاحب بھی شامل تھے جو21 ماہ یعنی تا 21مارچ 1977ء تک قید کی صوبتیں برداشت کرتے رہے ۔اس وقت ان کے ساتھ موجو دیگر افراد میں موجودہ وزیر جناب وینکیا نائیڈو بھی محروس تھے ۔انہوں نے کبھی بھی دین کی راہ میں اپنے گھر دار اور بیوی بچوں کو آڑ نہ بنایا بس خداکے دین کی جدوجہدمیں منہمک رہے ۔1977ء میں ہی وہ جماعت اسلامی ضلع نظام آباد کے ناظم منتخب ہوئے۔1988ء میں ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ بنائے گئے ۔1980ء سے 1995ء تک مجلس نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔1985ء شاہ بانو کیس کے مسئلہ کے وقت عدالتی فیصلہ کے خلاف نظام آباد میں مختلف جماعتوں کے تعاون کے ساتھ بڑے پیمانے پرتاریخی احتجاجی جلوس نکالا گیا تھا جو آج بھی ضلع نظام آباد کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز جلوس تسلیم کیا جاتا ہے جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی تھی جس کے بیانر پر ایک شعر بھی درج کروایا گیا تھا۔
ٍ عجب نہیں کے بدل دئے اسے نگاہ تیری بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا
بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ سے قبل بابری مسجد رابطہ کمیٹی قائم کی گئی تھی نظام آباد میں بھی اس کمیٹی کی تشکیل کروائی اور اس سلسلہ میں دہلی میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کیلئے نظام آباد سے اپنے رفقاء کے ساتھ شرکت کی۔2002ء میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی ۔2002ء سے 2008ء تک ناظم علاقہ اڑیسہ کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور اڑیسہ میں جماعت کے کا م کو استحکام بخشا۔2004ء میں یونائٹیڈ مسلم فورم کے معتمد منتخب کئے گئے۔1956ء تا 2013ء یعنی اپنے انتقال سے قبل تک مسجد رضا بیگ احمدی بازار نظام آباد پرخطیب و امام کے فرائض انجام دئے اور اللہ کے گھر کی تعمیر اور ترقی میں خوب حصہ لیا۔ ان کے رفقاء میں جناب عبدالحکیم صاحب،جناب عبدالقادر عارف صاحب، فقیر محمد خان صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مولو ی محمد عبدالغفار صاحب علامہ اقبال کے شیدائی تھے اللہ نے انھیں بہترین حاٖفظہ عطا کیا تھا،قائدانہ صلاحیت تو اتم درجہ کی تھی ہی دروس قران و خطابت ان کا خصوصی وصف تھا مطالعہ کے بہت ہی شوقین تھے خالی اوقات کو مطالعہ میں گزار تے تھے انہوں نے ہمیشہ سے ہی گھر اور دفتر میں خصوصی کتب خانہ قائم کیا تھا اور وہ ایک مکتبہ بھی چلاتے تھے جس کانام انہوں نے ’’مکتبہ تعمیر انسانیت رکھا تھا‘‘۔ اس کے علاوہ عبادتوں کا معمول یہ تھا کہ روزانہ صبح 3:30 بجے بیدار ہو جاتے ،تہجد کی ادئیگی کے بعد قبر ستان کی زیارت کرتے فجر کی نماز کی امامت کے بعد قران مجید کا درس دیتے اس کے بعد مطالعہ میں مصروف ہوجاتے،ساتھ ہی اپنے پیشہ تجارت میں مصرومشغول رہتے ،ظہر کی ادائیگی ،بعد عصر درس حدیث کا اہتما م کرتے ،مغرب اور عشاء کی ادئیگی کے بعد رات کو جلد سوجاتے تھے، تلنگانہ کے مختلف اضلا ع سے جماعت کے پروگرام یا تقریر کیلئے خصوصی طور پر مدعو کئے جاتے تھے کسی کو ناراض کرنا فطرت نہیں تھی۔ان کی تقریر کا وصف یہ تھا کہ جب تقریر شروع ہوتی تو سامعین تقر یر کے اختتام تک انہماک سے انہیں سنتے تھے قران کی آیتیں اور احادیث حفظ تھیں علامہ اقبال کے اشعار کا بر محل اظہار کرتے تھے۔ مختلف احباب سے تعاون حاصل کرتے ہوئے سیکڑوں بچوں کو تعلیم کا انتظام کرتے غریبوں اور مسکینوں کا خیا ل رکھتے کسی سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ خالی اوقات میں خاموش رہا کرتے تھے چھوٹوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے تھے جو بھی ان سے ایک بار ملاقات کرتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔غیر مسلم حضرات بھی ان سے مرعوب تھے۔ان کا اثر قبول کرنے والے افراد میں ڈی سرینوس سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی،مدھو گوڑ یاشکی سابق رکن پارلیمنٹ نظام آباد شامل ہیں۔
نہ شہرت کی تمنا نہ صلہ کی خواہش یہ لوگ وہ ہیں جو پیڑھ لگاتے ہیں بھول جا تے ہیں
انھیں کبھی بھی عزت و شہرت اور مال و دولت کی ہوس نہیں تھی اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کوئی چیز بلخصوص جائیدا وغیرہ کا نہ تو شوق تھا نہ مستقبل کی فکرہمیشہ دین اسلام کی سر بلندی میں منہمک رہتے وہ اکثر مسلمانوں میں اسلامی بصیرت کے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے،اجتماعیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے دعوت دین کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے افراد کو تیار کرتے تھے۔ان سے فیض حاصل کرنے والے احبا ب میں جناب ملک معتصم خان صاحب سابق امیر حلقہ آندھرا پردیش،جناب ایم این بیگ زاہد سکریٹری جماعت اسلامی آندھراپر دیش،جناب محمد عبدالعزیز سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پریش،جناب ظفر احمد عاقل سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پردیش وغیرہ شامل ہیں۔ موت برحق ہے جو آتا ہے اسے جانا ہے اور جانے کی تیاری کرنا ہے اور میرے والد محترم نے بھی فانی دنیا میں بس ضرورت کی حد تک دنیا داری کی اور اپنی ساری زندگی اشاعت دین اور ملت کی فلاح کے لئے کام کرتے ہوئے عمر عزیز کے اسی سال مکمل کئے اور مختصر سی علالت کے بعد 12نومبربروز چہارشنبہ 2014 کو ان کا انتقال ہوا۔ نماز جناز مسجد رضا بیگ میں ہزاروں لوگوں نے پڑھی۔ اور تدفین قبرستان مسجد کچیاں میں عمل میں آئی۔ مرحوم کے لواحقین میں 4فرزندان اور 5صاحبزادیاں شامل ہیں۔راقم الحروف بھی ان کا تیسرا فرزند ہے۔
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
جادہ جادہ چھوڑ جاوٗ اپنے قدموں کے نقوش آنے والے قافلوں کے رہنما بن جاو،
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مولوی عبدالغفار صاحب کی زندگی ایک جہد مسلسل کی داستان ہے۔ ان کی زندگی لوگوں کو یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے لئے تو سب جیتے ہیں دوسروں کے لئے جینا دوسروں کے لئے کام کرنا اور دین کی دعوت اور اشاعت کے لئے اپنا سب کچھ نچھا ور کردینا یہ عظیم مقصد ہے۔

محترم جناب محمد عبدالغفار صاحب قائد جماعت اسلامی ومعتمد مسلم پرسنل لا ضلع نظام آباد
کی وفات پر تعزیت کے طور پر لکھے گئے اشعار۔
محمد عبدالماجد نثارؔ نرمل
واہ کیا خوب تھے عبدالغفار
سب کے محبوب تھے عبدالغفار

دین کی تبلیغ میں ہی عمر کٹی
رب کے مندوب تھے عبدالغفار

کام آتے تھے ہر اک انساں کے
سب کے مطلوب تھے عبدالغفار

نام کے جز میں تھی بخشش شامل
حق سے منسوب تھے عبدالغفار

وہ ہر اک کے تھے معاون و ممد
سب کے مرغوب تھے عبدالغفار

حق کی خاطر تو وہ ڈٹ جاتے تھے
اور نہ مرعوب تھے عبدالغفار

دھن تھی بس دین کی اقامت کی انہیں

دین کے مطلوب تھے عبدالغفار
تھے وہ اقبالؔ کے شیدائی نثارؔ
خوب ہی خوب تھے عبدالغفار

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 09299655396
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

Maulana Abdul Ghaffar Nizamabad, a renown personality . Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں