مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی - یہ کیسا دستور زباں بندی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-31

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی - یہ کیسا دستور زباں بندی

Charges-and-complaints-against-MANUU
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ایک بار پھر تنازعات میں گھری ہوئی ہے ۔ اور ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئیہے۔ بی جے پی ماینا ریٹی موچہ نے مبینہ بد عنوانیوں کے خلاف یونیورسٹی کے باب الداخلہ پر احتجاج بھی منظم کیا اور مرکزی وزیر تعلیم کو یادداشت بھی پیش کی ہے ۔ اردو یونیورسٹی یا کسی مسلم ادارہ سے متعلق اگر بی جے پی احتجاج کرتی ہے یا مہم چلاتی ہے تو مخالف بی جے پی جماعتیں اور عوام ان اداروں کی حمایت کرنے لگتے ہیں ، تاہم اس مرتبہ حالات کچھ بدلے بدلے نظر آتے ہیں کیونکہ مخالف بی جے پی میڈیا اداروں نے بھی حالیہ عرصہ کے دوران اردو یونیورسٹی کے خلاف مواد شائع بھی کیا اور نشر بھی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی اقلیتی مورچہ نے ایک ایسے وقت احتجاج کیا ہے جب یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ پر وزیر اعظم نریندر مودی سے قربت رکھنے والے ظفر سریش والا کا تقرر عمل میں لایا گیا ۔ مرکز میں بی جے پی حکومت ہے، نئے چانسلر نے حال ہی میں اپنے عہدہ کا جائزہ لینے کے بعد دانشوروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران یہ واضح کردیا تھا کہ وہ یونیورسٹی کی کارکردگی پر خاموش تماشائی نہیں رہیں گے ۔ دراصل وہ یونیورسٹی کے ارباب مجاز کو یہ جتا دینا چاہتے تھے کہ چانسلر کا عہدہ بھلے ہی اعزازی ہو، وہ ربر اسٹامپ بن کر نہیں رہیں گے ۔ شاید انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں تفویض کی ۔ ظفر سریش والا کے لئے اردو یونیورسٹی کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے، الزامات اور شکایتیں چیالنج ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس کی تیزی سے بگڑتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے یا نہیں ۔
جناب محمد میاں کی وائس چانسلر کی حیثیت سے میعاد ختم ہونے کے لئے چند مہینے رہ گئے ہیں ، وہ تو چلے جائیں گے مگر جو مسائل پیدا ہوئے یا کئے گئے ، وہ حل طلب رہ جائیں گے ۔تقررات میں بے قاعدیوں، تعصب یا جانبداری اور مختلف بد عنوانیوں سے تعلق وقتاً فوقتاً میڈیا کے مختلف گوشو ں سے آوز اٹھائی گئی ۔ بعض آوازیں جانے کیوں خود بخود معدوم ہوگئیں۔ حق کے لئے چلنے والے بعض قلم خرید لئے گئے ہیں، اس یونیورسٹی کے لئے باوثوق ذرائع کہتے ہیں ، اس میں کس حد تک صداقت ہے اس کا آج نہیں تو کل پتہ چل جائے گا ، کیونکہ بی جے پی ماینا ریٹی مورچہ کا یہ احتجاج رسمی نہیں ہے بلکہ اسے سنجیدگی کے ساتھ منظم کیاجارہا ہے اور نمائندگی اعلیٰ سطح پر کی جارہی ہے ۔ اردو یونیورسٹی کے انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے ، شکایات کے ازالہ کے لئے دانشمندی، فراست اور بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یونیورسٹی کے بعض ملازمین کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے خود اپنی مخالفت میں شدت پیدا کرلی ہے ۔ جن ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی اسے خود یونیورسٹی کے بعض ذمہ دار ارباب غیر منصفانہ اور انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں ۔ اسے دستور زبان بندی کہاجاسکتا ہے ۔ نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ ا پنے جذبات سے واقف کروایاجاسکتا ہے ، ان آوازوں کو وقتی طور پر بند کیاجاسکتا ہے ۔ مگر ایک آواز کم ہوگی تو سینکڑوں آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔ انتقامی کارروائی سے یونیورسٹی کے الزامات میں صداقت دکھائی دیتی ہے ۔ جناب محمد میاں حیدرآباد سے تلخ اور ناخوشگوار یادیں چھوڑ کر جارہے ہیں ،انہیں شاید ہی اردو یونیورسٹی کی تاریخ میں مناسب الفاظ میں یاد کیاجاسکے گا ۔ ملازمین کے خلاف کارروائی سے یقینی طور پر وقتی طور پر یا ایک مقررہ مدت تک ان کے ارکان خاندان متاثر ہوں گے اور دوسرے ملازمین پر اس کا نفسیاتی اثر بھی ہوگا،تاہم اسکے نتائج منفی مرتب ہوں گے جس سے اردو یونیورسٹی کی ساکھ متاثر ہوگی۔اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ہے، حیدرآبادی صحافت میں ہمیشہ اس کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کیا جائے مگر نہ جانے کیوں حیدرآباد کی اردو صھافت کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ نے امتیازی رویہ اختیار کررکھا ہے ۔ اس کی تازہ مثال مارچ2015میں صحافت پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس ہے ، جس میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں سے صحافیوں کو مدعو کیا گیا، میزبان شہر کے کسی بھی اخبار کے نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ حالانکہ سیاست کے مدیر اعلیٰ جناب زاہد علی خان عالمی اردو کانفرنس کی کئی بار میزبانی کرچکے ہیں۔ منصف ، اعتماد ، رہنمائے دکن سے نمائندگی دی جاسکتی تھی مگر اردو یونیورسٹی انتظامیہ نے مقامی کسی مدیر یا صحافی کو اس لائق نہیں سمجھا ، یہ حیدرآبادی صحافت کی توہین ہے ۔ حیدرآبادی صحافیوں کو ساری دنیا میں عزت و وقار اور احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ۔ اردو یونیورسٹی نے ان کے ساتھ تنگ نظری کا مظاہرہ کیا۔ جو ناقابل برداشت ہے ۔ حیرت اور افسوس ہے کہ یونیورسٹی میں موجود حیدرآباد ی ذمہ داروں نے بھی اس اس پر توجہ نہیں دی ، اب حیدرآباد اردو میڈیا ان سے ہمدردی کرے تو کیوں......؟
28جنوری کو اردو یونیورسٹی کیمپس میں طلباء ، اساتذہ غیر تدریس عملہ نے بی جے پی کے احتجاج اور یونیورسٹی کے بعض مفاد پرست عناصر کی جانب سے مبینہ تخریبی سرگرمیوں کے خلاف مظاہرہ منظم کیا جو لائق تحسین ہے ۔ اساتذہ ایک طویل عرصہ تک یونیورسٹی سے وابستہ رہ سکتے ہیں جب کہ طلباء کی عملی وابستگی کا عرصہ محدود ہوتا ہے تاہم تا حیات اس مادر جامعہ سے ان کی جذباتی وابستگی رہتی ہے ۔ خود راقم الحروف کا یونیورسٹی کے ایم اے اردو کے افتتاحٰ بیاچ سے تعلق ہے ۔ اس طرح اس مادر جامعہ کے ایک فرزند کی حیثیت سے اسے بھی اتنی ہی ہمدردی اور انسیت ہے جتنی طلباء کے موجودہ بیاچ کو ہوسکتی ہے ۔ہر طالب علم اور ہر اس یونیورسٹی سے وابستہ ہر ایک فرد کی یہ صرف ذمہ داری نہیں بلکہ فریضہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے ۔ اسے محفوظ رکھے ، ان طاقتوں عناصر سے جو اردو کی ترقی ترویج و اشاعت ، اردو والوں کو اس کی تعلیم اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے مقاصد کے ساتھ قائم کی گئی ملک کی اس واحد یونیورسٹی کا استحصال کرنا چاہتے ہیں ۔ اردو جائیدادوں پر غیر اردو افراد کے تقرررات کے ذریعہ اردو والوں کا حق چھیننا چاہتے ہیں تقرر طلب جائیدادوں پر ریٹائرڈ افراد کے تقرررات سے نوجوانوں کو روزگار سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ اردو یونیورسٹ کو اشرار سے محفوظ رکھنے کی جدو جہد میں ہم سب ساتھ ساتھ ہیں، ساتھ رہیں گے انشاء اللہ۔
بہر کیف یہ بات قابل غور ہے کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے دو سینئر ملازمین کے خلاف انتظامیہ کی کارروائی اور مارچ میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں حیدرآباد صحافیوں کو نظر انداز کیاجانا محض ایک اتفاق ہے یا حیدرآباد سے اردو یونیورسٹی کے ارباب مجاز کا امتیازی سلوک ۔ یونیورسٹی کو واقعی اردو والوں کے روشن مستقبل کی ضامن بنانا اس کے لئے اسے بد عنوانیوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔ واقتی مفادات کی خاطر اسے نظر انداز کردینے والے بھی اس کی تباہی و بربادی کے مساوی طور پر ذمہ دار ہوں گے ۔ جناب محمد میاں ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہیں ، انہیں فراخ دلی سے کام لینا چاہئے ۔ دنیا گول ہے ، جانے کب کس موڑ پر کون کس سے ٹکرائے۔ کب کوئی مخالف بھی کام آجائے ۔

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (6/ تا 12/ فروری 2015)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
No.30, 2nd Floor, Bachelor Building, M.J. Market, Hyderabad. 500001.
سید فاضل حسین پرویز

Charges and complaints against MANUU. Article: Syed Fazil Hussain Parvez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں