وزیر اعظم ترقیاتی ایجنڈہ کے وعدے سے کنارہ کش ، ہندوتوا طاقتیں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں مصروف ۔ اے سعید
نئی دہلی سے ایک علیحدہ پریس ریلیز کے بموجب سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے مرکز میں بی جے پی کی نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی کارگردگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت 16ویں لوک سبھا انتخابات میں ترقیاتی ایجنڈے کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی ، لیکن گزشتہ 6ماہ میں کسی بھی قسم ترقیاتی ایجنڈے کا نفاذ نہیں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر اے سعید نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ، آر ایس ایس کے کارکنان کے کچھ اقدامات اور وزیر اعظم نریندر مودی کے جذبات کے درمیان ایک سنگین لاتعلقی پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی نے ایک سے زائد موقع پر اپنی جامع نقطہ نظرکی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلمان اس ملک کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں اور مسلمان کسی تخریبی عناصر سے کوئی روابط نہیں رکھیں گے اور آج ملک کو ایک ایسی سیاسی ترقی کی ضرورت ہے جس سے بھارت کے تنوع اور ترقی کو تعاون حاصل ہوسکے۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہاہے کہ بی جے پی کو چاہئے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان سے استفادہ کرتے ہوئے اقلیت مخالف سلوک سے باز آجائیں۔ بی جے پی کو پتہ ہونا چاہئے کہ اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی سے ہی ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کی ضمنی انتخابات کے بعد یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اقلیت مخالف حکمت عملی اور منفی مہم کی ترکیب نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات پر زور دیکر کہا کہ بی جے پی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اسلوب حکمرانی اور ترقی کے معاملا ت سے دور جانے سے حتمی طور پر پارٹی کے اہم اثاثہ یعنی خود وزیر اعظم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک پارٹی اور ایک لیڈر دونوں اس طرح مختلف انداز میں بات نہیں کرسکتے جس سے دونوں کا نقصان ہو۔ بی جے پی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مودی کے مقبولیت کے باوجود ملک بھر میں رسائی اور توسیع کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ دستیاب ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی میں کچھ ایسے بھیڑ جمع کرنے والے لوگ اس بات پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ وہ آرایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے پر پیروی کرسکیں۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو لٹیرے اور مجرموں کے طور پر پیش کریں اور ہندؤں کو بے گناہ متاثرین کے طور پر پیش کریں۔ ریاستی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کا توہین آمیز ریمارک \"رام زادے اور حرام زادے\"جو انہوں نے مسلمانوں کے حوالہ سے دیا تھا ، اس کی وجہ سے نریندر مودی نے اب تک اقلیتوں کے اپنی طرف متوجہ کرنے اور اقلیتوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے جتنی کوششیں کی ہیں ان پر پانی پھیر دیا ہے۔
قومی صدر اے سعید نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی لیڈر شپ پارلیمنٹ میں اور عالمی سطح پر اپنے ترقی کے چہرے کا پاس رکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور اپنی سیاسی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے پیرنٹ آرگنائزیشن کے متنازعہ ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔ جس کا انکشاف پارٹی میں موجود عناصر اور رفیق کار تنظیموں کے کارگردگیوں سے اجاگر ہوچکا ہے۔ سادھوی کے معافی کے آڑ میں اس طرح کے رجحانات کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے متنازعہ ایجنڈے جہاں کہیں بھی انتخابات ہونگے وہاں کچھ ردو بدل کے ساتھ یہی متنازعہ ایجنڈے نا فذ کئے جائیں گے۔ دریں اثناء قومی صدر اے سعید نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ نریندر مودی نے ابھی ایک ماہ قبل ایک تقریب میں قدیم بھارت میں پلاسٹک سرجری کی ترقی کے بارے میں بات کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ قدیم بھارت میں کوئی ایسا پلاسٹک سرجن موجود رہا ہوگا جو بھگوان گنیش پر ایک ہاتھی کا سر لگایا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھارت کو سرجری میں اعلی درجہ کا علم حاصل تھا۔ \"ششرتا سمہیتا\"جو سنسکرت میں طب پر ایک اہم کلاسیکل کتاب تھا۔جس کو ششروت نے 6ویں صدی قبل مسیح میں تصنیف کیا تھا۔ جو بھارت کے سنہرے دور میں لکھا گیا تھا اس کتاب میں بھی سرجری کے تعلق سے بنیادی باتیں لکھی گئی ہیں۔ تاہم مودی کو بڑبڑاہٹ اور بکواس سے گریز کرنا ہوگا، ا ن کو بھارت کا آئین بھی پڑھنا ہوگا جو سائنسی رویہ کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اگر آپ نے کھبی سائنس کی بنیادی معلومات نہیں سیکھا ہوتو آپ کو مزید جہالت دکھانے اور پہلے ہی سے الجھے ہوئے ہندوستانیوں کو گمراہ نہ کریں۔ یہ مکمل طور پر ویدا اور ویدانتوں کی بنیادی باتوں کی خلاف ورزی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ خدا کا کوئی شکل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ ششما سواراج کا یہ خیال اور تصور کہ بھگوت گیتا کو قومی مقدس کتاب قرار دیا جائے ۔ ان کا یہ خیال بھارت جیسے کثیر الثفاقتی اور کثیر المذاہب ملک کے لیے مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش شاخہ کے بی جے پی صدرلکشمی کانت باجپائی کا دعوی کرنا کہ تاج محل ایک قدیم مندر کا ایک حصہ تھا، جس کو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تیجو مہالایہ مندر کی زمین کو راجہ جئے سنگھ سے خریدا تھا۔ لکشمی کانت نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔ ان کا یہ دعوی مضحکہ خیز ہے اور اس کی زیادہ تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا دعوی بھی اسی طرح ہے جس طرح معروف مورخ P.N.Oakنے تاج محل کو ہندو مندر ہونے کا دعوی کیا تھا۔ تاہم دونوں اپنے دعوی کی تصدیق میں ناکام رہے ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ نریندر مودی کو چاہئے کے وہ جلد از جلد اپنے کشمکش کو حل کریں اور ان کے یوم جمہوریہ کے تقریر اور جذبات کو سچ ثابت کریں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر اپنے تقریر میں انہوں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں فرقہ وارانہ تشدد پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی تقاریر پر بھی پابندی لگانے کی بات کہی تھی۔نریندر مودی کو وضاحت کرنا ہوگا کہ آیا وہ اپنے تقریر کا پاس رکھیں گے یہ اپنے ہمنواؤں کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے مقررین کی مذمت کرکے دہرا رویہ اختیار کریں گے؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ نریندر مودی سنگھ پریوار میں موجود جھگڑالو عناصرجو فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کو قابو میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کریں ۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں