زبردستی تبدیلئ مذہب - ایس ڈی پی آئی کی جانب سے زعفرانی بریگیڈ کی سخت مذمت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-12

زبردستی تبدیلئ مذہب - ایس ڈی پی آئی کی جانب سے زعفرانی بریگیڈ کی سخت مذمت

سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے آگرہ میں مبینہ طور پر تقریبا 300مسلمانوں کو جبری طور پر ہندو مذہب میں تبدیل مذہب کروانے میں ملوث زعفرانی بریگیڈ کی سخت مذمت کی ہے۔ تاہم ان خاندانوں نے ایک دن بعد یہ دعوی کیا ہے کہ ان کو \"گھرواپسی کی رسم \"کے نام پر دھوکہ دہی سے تبدیل مذہب کروایا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر اے سعید نے اس ضمن میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے رپورٹس سے یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ نریندر مودی کے وزیر اعلی بننے کے بعد ہندو دائیں بازو گروپس اپنے جارحانہ علامات ظاہر کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آرایس ایس نریندر مودی کی آزادی اور مقبولیت سے خوفزدہ ہے ؟یا آرایس ایس نریندر مودی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟۔ موجودہ صورتحال سے ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم ہی آر ایس ایس سے خوفزدہ ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے قومی اقلیتی کمیشن (NCM) پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں سنگھ پریوار گروپوں کی جانب سے زبردستی تبدیلی مذہب کی پوری سازش کا جائزہ لے اور مناسب قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے ان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کریں جو تبدیلی مذہب کے لیے اعانت اور مدد کررہے ہیں۔ انہوں نے قومی اقلیتی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے اس رجحان کے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لیے وزرات داخلہ کو ہدایت دیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر پارٹیاں \"ہندو ووٹ\"کو گنوانے کے ڈر سے فرقہ پرستوں سے مقابلہ کرنے یا ان کو سوال کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں ایک پر تشدد اور نفرت بھراماحول پیدا کردیا ہے، جس کی وجہ سے کوئی ان کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کر رہا ہے۔ آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیمیں حکومت کی \"سرپرستی\"میں ملک کے مختلف حصوں میں نفرت اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی اجتماعی کوششیں کررہے ہیں، لیکن اس معاملہ میں سیاسی پارٹیوں کا نرم رویہ قابل تشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ سنگھ پریوار واضح طور پر جلدی میں دکھائی دے رہی ہے اور بی جے پی کے سیاسی طاقت اور عروج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس کے اس ناپاک مقصد کا ملک کے تمام صحیح سوچ اور فکر رکھنے والے شہری سخت مزاحمت کریں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے اقلیتی طبقات کے ذہنوں کو مشتعل کیا جارہا ہے اور یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ حکمران جماعت کے ارکان اور کے سر پرست تنظیمیں اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اب اپنے ہتھکنڈوں کو تبدیل کرکے کم شدت کے فسادات کروارہے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی توجہ سے محفوظ رہیں۔ قومی صدر نے اپنے یقین کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ گجرات قتل عام اور سکھ مخالف فسادات سے ملک کا نام بین الاقوامی سطح پربدنام ہوا تھا، یہی وجہ کی بنا پر انہوں نے اب اپنے حکمت عملی کو تبدیل کردیا ہے۔انہوں نے مزید کہاہے کہ سنگھ پریوار اور اس کے محاذی تنظیمیں جیسے آرایس ایس اور بجرنگ دل نے ملک کی آبادیاتی تصویر کو بدلنے کا ارادہ کر رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے سوال اٹھا یا کہ جتنے بڑے پیمانے میں گزشتہ کچھ دہائیوں میں جس طرح سے آبادیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں اس طرح کی تبدیلی صدیوں میں نہیں ہوئی تھی۔ قومی صدر اے سعید نے کہا کہ اس طرح کے جبری تبدیلی مذہب مایوسی کی وجہ سے کیا جارہا ہے کیونکہ( سی این این اور اے بی سی) کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ میں آج اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے کیونکہ اسلام سچائی سکھاتا ہے اور صرف ایک خدا کی عبادت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک خدا کے ماننے کے تصور کو ہندو صحیفوں نے بھی تصدیق کیا ہے۔ جس کا ذکر بھگوت گیتا (7:20)کے علاوہ چار ویدوں میں جیسے یجر ویدمیں32:3/5اور رگ ویدا میں کتاب 8اوربھجن 1اور ورس1میں موجود ہے۔ قومی صدر اے سعید نے مزید کہا ہے کہ ملک کے عوام ترقی ، روزگار اور مال و دولت کے طلبگار ہیں۔ عوام یہ نہیں چاہتے کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسے تشدد کے پجاری ملک میں بدامنی پھیلا کر اور والے ملک مخالف اقدامات سے ان کے امنگوں کو مجروح کردیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سازشوں کو روکا نہیں گیا تو پورے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے سرگرمیوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اٹھائے۔ قومی صدر اے سعید نے کہا کہ فرقہ پرستوں کے خلاف عوامی دباؤ بناناضروری ہے تاکہ سیاسی پارٹیاں ملک کو تقسیم کرنے والے عناصرکا سامنا کرنے اور ان سے جواب طلبی کی ہمت جٹا سکیں۔ انہوں نے ان واقعات پر میڈیا کی مجرمانہ خاموشی اور سست ردعمل پر بھی سخت اعتراض کیا ہے۔بھارت میں فرقہ ورایت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ ایسے صورتحال میں ہندتوا فرقہ پرستوں کی منصوبے کی انفرادیت کو سمجھنے کی فوری ضرورت ہے۔

وزیر اعظم ترقیاتی ایجنڈہ کے وعدے سے کنارہ کش ، ہندوتوا طاقتیں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں مصروف ۔ اے سعید
نئی دہلی سے ایک علیحدہ پریس ریلیز کے بموجب سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے مرکز میں بی جے پی کی نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی کارگردگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت 16ویں لوک سبھا انتخابات میں ترقیاتی ایجنڈے کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی ، لیکن گزشتہ 6ماہ میں کسی بھی قسم ترقیاتی ایجنڈے کا نفاذ نہیں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر اے سعید نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ، آر ایس ایس کے کارکنان کے کچھ اقدامات اور وزیر اعظم نریندر مودی کے جذبات کے درمیان ایک سنگین لاتعلقی پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی نے ایک سے زائد موقع پر اپنی جامع نقطہ نظرکی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلمان اس ملک کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں اور مسلمان کسی تخریبی عناصر سے کوئی روابط نہیں رکھیں گے اور آج ملک کو ایک ایسی سیاسی ترقی کی ضرورت ہے جس سے بھارت کے تنوع اور ترقی کو تعاون حاصل ہوسکے۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہاہے کہ بی جے پی کو چاہئے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان سے استفادہ کرتے ہوئے اقلیت مخالف سلوک سے باز آجائیں۔ بی جے پی کو پتہ ہونا چاہئے کہ اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی سے ہی ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کی ضمنی انتخابات کے بعد یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اقلیت مخالف حکمت عملی اور منفی مہم کی ترکیب نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات پر زور دیکر کہا کہ بی جے پی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اسلوب حکمرانی اور ترقی کے معاملا ت سے دور جانے سے حتمی طور پر پارٹی کے اہم اثاثہ یعنی خود وزیر اعظم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک پارٹی اور ایک لیڈر دونوں اس طرح مختلف انداز میں بات نہیں کرسکتے جس سے دونوں کا نقصان ہو۔ بی جے پی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مودی کے مقبولیت کے باوجود ملک بھر میں رسائی اور توسیع کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ دستیاب ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی میں کچھ ایسے بھیڑ جمع کرنے والے لوگ اس بات پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ وہ آرایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے پر پیروی کرسکیں۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو لٹیرے اور مجرموں کے طور پر پیش کریں اور ہندؤں کو بے گناہ متاثرین کے طور پر پیش کریں۔ ریاستی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کا توہین آمیز ریمارک \"رام زادے اور حرام زادے\"جو انہوں نے مسلمانوں کے حوالہ سے دیا تھا ، اس کی وجہ سے نریندر مودی نے اب تک اقلیتوں کے اپنی طرف متوجہ کرنے اور اقلیتوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے جتنی کوششیں کی ہیں ان پر پانی پھیر دیا ہے۔
قومی صدر اے سعید نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی لیڈر شپ پارلیمنٹ میں اور عالمی سطح پر اپنے ترقی کے چہرے کا پاس رکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور اپنی سیاسی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے پیرنٹ آرگنائزیشن کے متنازعہ ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔ جس کا انکشاف پارٹی میں موجود عناصر اور رفیق کار تنظیموں کے کارگردگیوں سے اجاگر ہوچکا ہے۔ سادھوی کے معافی کے آڑ میں اس طرح کے رجحانات کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے متنازعہ ایجنڈے جہاں کہیں بھی انتخابات ہونگے وہاں کچھ ردو بدل کے ساتھ یہی متنازعہ ایجنڈے نا فذ کئے جائیں گے۔ دریں اثناء قومی صدر اے سعید نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ نریندر مودی نے ابھی ایک ماہ قبل ایک تقریب میں قدیم بھارت میں پلاسٹک سرجری کی ترقی کے بارے میں بات کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ قدیم بھارت میں کوئی ایسا پلاسٹک سرجن موجود رہا ہوگا جو بھگوان گنیش پر ایک ہاتھی کا سر لگایا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھارت کو سرجری میں اعلی درجہ کا علم حاصل تھا۔ \"ششرتا سمہیتا\"جو سنسکرت میں طب پر ایک اہم کلاسیکل کتاب تھا۔جس کو ششروت نے 6ویں صدی قبل مسیح میں تصنیف کیا تھا۔ جو بھارت کے سنہرے دور میں لکھا گیا تھا اس کتاب میں بھی سرجری کے تعلق سے بنیادی باتیں لکھی گئی ہیں۔ تاہم مودی کو بڑبڑاہٹ اور بکواس سے گریز کرنا ہوگا، ا ن کو بھارت کا آئین بھی پڑھنا ہوگا جو سائنسی رویہ کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اگر آپ نے کھبی سائنس کی بنیادی معلومات نہیں سیکھا ہوتو آپ کو مزید جہالت دکھانے اور پہلے ہی سے الجھے ہوئے ہندوستانیوں کو گمراہ نہ کریں۔ یہ مکمل طور پر ویدا اور ویدانتوں کی بنیادی باتوں کی خلاف ورزی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ خدا کا کوئی شکل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ ششما سواراج کا یہ خیال اور تصور کہ بھگوت گیتا کو قومی مقدس کتاب قرار دیا جائے ۔ ان کا یہ خیال بھارت جیسے کثیر الثفاقتی اور کثیر المذاہب ملک کے لیے مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش شاخہ کے بی جے پی صدرلکشمی کانت باجپائی کا دعوی کرنا کہ تاج محل ایک قدیم مندر کا ایک حصہ تھا، جس کو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تیجو مہالایہ مندر کی زمین کو راجہ جئے سنگھ سے خریدا تھا۔ لکشمی کانت نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔ ان کا یہ دعوی مضحکہ خیز ہے اور اس کی زیادہ تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا دعوی بھی اسی طرح ہے جس طرح معروف مورخ P.N.Oakنے تاج محل کو ہندو مندر ہونے کا دعوی کیا تھا۔ تاہم دونوں اپنے دعوی کی تصدیق میں ناکام رہے ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ نریندر مودی کو چاہئے کے وہ جلد از جلد اپنے کشمکش کو حل کریں اور ان کے یوم جمہوریہ کے تقریر اور جذبات کو سچ ثابت کریں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر اپنے تقریر میں انہوں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں فرقہ وارانہ تشدد پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی تقاریر پر بھی پابندی لگانے کی بات کہی تھی۔نریندر مودی کو وضاحت کرنا ہوگا کہ آیا وہ اپنے تقریر کا پاس رکھیں گے یہ اپنے ہمنواؤں کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے مقررین کی مذمت کرکے دہرا رویہ اختیار کریں گے؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ نریندر مودی سنگھ پریوار میں موجود جھگڑالو عناصرجو فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کو قابو میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کریں ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں