بابری مسجد کی پہلی شہادت - پنت اور پٹیل کی ملی بھگت؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-06

بابری مسجد کی پہلی شہادت - پنت اور پٹیل کی ملی بھگت؟

babri-masjid-demolition
6؍دسمبر بابری مسجد کی شہادت کو ہی یاد نہیں دلاتا ہے بلکہ اس سلسلہ میں ہوئی تمام زیادتیوں اور دھاندلیوں کو بھی یاد دلاتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء کے گجرات کے فسادات ہندوستانی مسلمان بھول ہی نہیں سکتے ہیں، یوں تو بابری مسجد عملاً 1992ء میں شہید ہوئی تھی لیکن یہ بابری مسجد کی تیسری اور آخری شہادت تھی۔ جب مسجد کا نام و نشان مٹادیا گیا تھا اس سے قبل بابری مسجد کی دوسری شہادت وہ تھی جب 1986میں راجیو گاندھی نے بہ حیثیت وزیر اعظم عدل و انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑانے والے عدالتی حکم کا انتظام کیا اور مسجد کے مقفل دروازے عام پوجا پاٹ کے لئے کھول دئے گئے تھے اور مسجد مندر بنادی گئی تھی۔ بابری مسجد کی پہلی شہادت 23249دسمبر 1949ء کو ہوئی تھی جب رات کے اندھیرے میں بابری مسجد میں رام چندر جی کی مورتیاں ہندومہاسبھا کے قائدین اور مقامی انتظامیہ کے عہدیداروں کی مشترکہ سازش کے ذریعہ مسجد کی حیثیت تبدیل کردی گئی تھی اور مختصریہ کہ رام جنم بھومی پر رام مندر بنانے کے لئے 1949ء میں ہی نہ صرف راہ ہموار کی گئی بلکہ ایسا پختہ انتظام کیا گیا تھا کہ مسجد سے مسلمانوں کا واسطہ ہی نہ رہے۔ اس طرح 23؍دسمبر 1949ء کو مسجد کی پہلی شہادت ہوئی تھی۔ 1949ء میں مسجد پر قبضے کی ساری کارروائی اس دور کے یو پی کے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت کی مرضی اور سرپرستی میں ہوئی تھی اور پنڈت پنت کو اس قسم کے ہر معاملے میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی مکمل حمایت اور تائید حاصل رہا کرتی تھی۔ گوکہ اصل سازش ہندومہاسبھا کی تھی لیکن فیض آباد کے اس وقت ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کرشن کمار نائر کی مرضی ہی نہیں بلکہ عملی مدد کے بغیر ہندومہاسبھا کچھ نہیں کرسکتی تھی اور اگر پنت کی مرضی اور حمایت کے کے کے نائر کو حاصل نہ ہوتی تو نائر کے لئے مسجد کی بحالی کے لئے دباؤ برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا اور پنت میں پٹیل کی حمایت کے بغیر اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس سلسلہ میں پنڈت نہرو کے اصرار کو نظر انداز کرکے ان کو اس طرح دھوکا دیتے جس طرح انہوں نے جواہر لال نہرو کو دیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد کے پرشوب حالات میں بلکہ مہا تماگاندھی کے قتل کے بعد اس دور کے ہندتووادیوں (جو اس وقت ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس سے متعلق ہوا کرتے تھے ہندومہاسبھا والوں نے جن سنگھ کو جنم دیا اور بعد میں جن سنگھ کو بی جے پی کا نام دیا گیا۔ عام مسلمان ہی نہیں مسلم قیادت بھی مایوسی، ڈراور خوف اور خاصی حدتک مرعوبیت اور مصلحتوں کا شکار تھی۔ سردار پٹیل کا ایسا دبدبہ تھا کہ پنڈت نہرو بھی پٹیل کے آگے بے بس نظر آتے تھے۔ ان حالات کا فرقہ پرستوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا جس طرح دسمبر 1992ء میں بابری مسجد اچانک نہیں شہید کی گئی تھی بلکہ باضابطہ سازشی منصوبے پر عمل کیا گیا تھا اسی طرح دسمبر 1949ء میں بھی۔ مسجد میں مورتیوں کی تنصیب کی باضابطہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ماحول کو فرقہ واریت کے زہر سے مسموم کرکے کشیدہ کردیا گیا تھا۔ ایودھیا اور فیض آباد میں اس دور کے تمام پولیس افسرا (آج کل کے افسران کی طرح) فرقہ پرست تھے گوکہ یو پی کے وزیرداخلہ لال بہادر شاستری تھے۔ شاستری جی کے بابری مسجد کے بارے میں کسی مثبت یا منفی رول کا پتہ نہیں چلتا ہے کیونکہ بہ حیثیت وزیر اعلیٰ پنت ہی سب کچھ تھے۔
بابری مسجد میں بتوں کی تنصیب سے قبل کے حالات کا پتہ یو پی کے ایک ممتاز کانگریسی قائد اکشے برہما چاری (جو ضلع فیض آباد کی ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی کے معتمد ہونے کے علاوہ ریاستی کانگریس کمیٹی کے رکن بھی تھے) نے وزیر داخلہ شاستری جی کو لکھے تھے۔ جس میں ایودھیا اور فیض آباد کے مقامی حکام کی فرقہ واریت کا ذکر ہے۔ فرقہ پرست قائدین کو فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت دینے، مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے بابری مسجد کے قریب واقع قبریں کھودنے وہاں چبوترہ بناکر نو(9) دن تک رامائن کیرتن کیا جانا اور اکشے برہما چاری پر مسلمانوں سے ہمدری کی سزامیں دو تین بار حملے، گھر کی لوٹ اور اکشے کو زدوکوب کئے جانے کا ذکر ہے۔ اس کشیدہ ماحول کو خوش گوار بنانے اور فرقہ پرستوں پر شکنجہ کسنے کے لئے پنڈت پنت کچھ نہیں کیا اور ان ہی حالات میں مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھی۔
مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے نائر نے کس طرح اس خبر کو دیر تک چھپانے، مسجد کے سامنے لوگوں کو جمع کرنے اور نام نہاد معزۂ پر جشن مناکر ایسا ماحول بنانے میں کہ مسجد سے مورتیاں ہٹانا ناممکن ہوجائے سرکاری عہدیداروں کی اس دھاندلی پر پنت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور کے نائر کی ہر رپورٹ پر یقین کرکے بے عملی کا مظاہرہ وقت گزارنے کے لئے کرکے پنڈت جواہر لال نہرو کو دھوکا دیا تھا۔ مورتیاں ہٹانے پر خون خرابے اور تشدد کے جھوٹے بے بنیاد اور مفروضہ اندیشوں سے ہی پنت نے سب کو دھوکا دیا تھا کیونکہ پنت بھی چاہتے تھے کہ بابری مسجد میں نصب کردہ مورتیاں نہ ہٹائی جائیں اور پنت کو سردار پٹیل کی سرپرستی حاصل تھی۔ پٹیل کے ذکر سے پہلے اس بارے میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ اسی سے پنت اور سردار پٹیل کی حرکات کا پتہ چلتا ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر بی سی رائے وزیر اعلیٰ مغربی بنگال کو18؍مئی 1950ء کے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’’ایودھیا میں ایک قدیم مسجد (جس کو بابر نے تعمیر کیا تھا) پر مقامی سادھووں اور پانڈوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ میں افسوس کے ساتھ بتارہا ہوں کہ اس معاملے میں یو پی کی حکومت نے اس معاملے سے نپٹنے میں بڑی کمزوری دکھائی ہےُُ (ص97۔ ایودھیا۔ دی ڈارک نائٹAyodhya The Cark Night کرشنا جھا اور دھربندرجھا)
اسی کتاب کے (ص96) کے مطابق 17؍اپریل کو پنڈت جواہر لال نے پنڈت پنت کو لکھا تھا ’’میں اپنے پرانے ساتھیوں سے تنازعات میں الجھنا نہیں چاہتا ہوں میں اس بات سے سخت مضطرب ہوں کہ فرقہ پرستی ان لوگوں کے ذہن اور دل پر چھا گئی ہے جو ماضی میں کانگریس کے اہم ستون مانے جاتے تھے۔ ایودھیا میں جو ہوا وہ بے حد خراب تھا لیکن اس سے بھی بدتر یہ بات ہے کہ ایسی چیزیں ہمارے ہی لوگوں کی مرضی سے ہوں اور اسے جاری رہنا دیا جائے‘‘۔
اسی کتاب کے مطابق پنڈت جواہر لال نہرو کو پنڈت پنت کی نیت اور عزائم پر شبہ تھا وہ پنت کے تاخیری حربوں کو سمجھ چکے تھے ۔ بابری مسجد پر ناجائز قبضہ سے نہرو بے حد مایوس اور مضطرب تھے۔ پنت نے جس طرح کا رویہ اختیارکیا تھا وہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتے اور جواہر لال یہ بات بخوبی سمجھ گئے تھے۔
پنڈت نہرو کے ان خیالات سے ہی بابری مسجد میں مورتیوں کے رکھے جانے میں اور دسمبر 1949ء کے بعد انتظامیہ، سادھو سنتوں اور پنڈت پنت کی حکمت عملی اور اقدامات میں ان کی بدنیتی اور فرقہ پرستی کے بارے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
بابری مسجد کے حل کے سلسلہ میں سنگھ پریوار کو عدالتی کارروائیوں سے زیادہ بات چیت اور مذاکرات سے دلچسپی رہی ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ یہ اڈوانی اور دوسرے قائدین کا حربہ ہے کیونکہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دینے والوں کا قانونی موقف کمزور تھا۔ مذاکرات اور بات چیت سے مسئلہ کے حل سے واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمان بابری مسجد خاموشی سے رام مندر بنانے کے لئے حوالہ کردیں لیکن یہ حربہ تو سنگھ پریوار کے مردآہن سردار پٹیل کا ہے جو کہ انہوں نے پنڈت پنت کو اپنے مراسلے مورخہ 9؍جنوری 1950ء کو لکھا تھا ’’میرا خیال ہے کہ یہ ایسا تنازعہ ہے جس کا حل باہمی طور پر دونوں فرقوں کی باہمی خیر سگالی اور رواداری کے جذبہ سے نکالا جانا چاہئے مجھ کو احساس ہے کہ جو قدم اٹھایا گیا ہے اس میں جذبات کا زیادہ دخل ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے معاملات کو اس صورت میں نمٹایا جاسکتا ہے کہ ہم کو مسلم فرقہ کی رضامندی حاصل ہوجائے۔ سردار پٹیل کا مکمل خط ’’بابری مسجد ۔ شہادت کے بعد‘‘ مرتبہ محمد عارف اقبال (ص457,456)بہ حوالہ اے جی نورانی ’’بین اسٹریم‘‘ 4؍اگست 1990۔ بات چیت سے مسئلہ کو حل کرنے کی اختراع کے علاوہ پٹیل نے غاصبانہ قبضہ کو بھی تنازعہ بتایا۔ کسی کارروائی پر پٹیل نے زور نہیں دیا بلکہ غیر قانونی وناجائز کارروائی پر سزا کی جگہ تصفیہ کی منطق سردار پٹیل کی اس ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے جس کے لئے وہ بدنام ہیں۔
23؍دسمبر کے بعد کے نائر اور ان کی بیوی شکنتلا نائرنے ماحول تو نہ صر ف گرمادیا بلکہ یوں ظاہر کیا کہ مندر سے مورٹیاں ہٹانا عملاً ناممکن ہے حد تو یہ ہے کہ 26دسمبر کو پنت کے نام پنڈت نہرو کا وہ ٹیلی گرام جس میں کہا گیا تھا کہ مورتیاں فوراً ہٹاؤ بے اثر ہوکر رہ گیا اس میں نائر سے زیادہ غلطی پنت کی ہے جس نے عمداً بے عملی کا مظاہرہ کیا۔ اس مسئلہ پر نہرو کی بے چینی اس سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک مرحلہ پر اپنے خط مورخہ 5؍فروری میں پیشکش کی کہ وہ ایودھیا آنا چاہتے ہیں لیکن پنت نے ان کو روک دیا۔ پنت فی الحقیقت کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے اسی پالیسی پر نرسمہا راؤ نے مسجد کی شہادت کے وقت عمل کیا تھا۔ پنت کی بے عملی وکی وجہ ان کو سردار پٹیل سے ملی حمایت اور تائید تھی اور نہرو پٹیل کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ پنت کو اس سلسلے میں نائر کے علاوہ گرودت (سٹی مجسٹریٹ فیض آباد اور سیول جج فیض آباد، بیرسنگھ (جو اس سازش میں انتظامیہ کے مہرے تھے) سے بڑی مدد ملی تھی۔ مسجد میں مورتیاں بٹھانے والے بابا ابھی رام داس جن کا اصل نام ایف آئی آر میں درج تھا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مورتیاں ہٹانے کے سلسلہ میں ہندومہاسبھا کے قائدین کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ کرشن کمار نائر ڈپٹی کمشنر فیض آباد نے پولیس کی ابتدائی کارروائی میں سٹی مجسٹریٹ گرودت اور بعد میں سیول جج فیض آباد بیرسنگھ کی مدد سے بابری مسجد کا سارا مقدمہ ہی بگاڑ دیا تھا مسجد کو قرق کرکے تالا ڈالنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ 23دسمبر کی اصل ایف آئی آر میں شامل دفعہ 145جس کا تعلق جائز اور ناجائز قبضہ سے تعلق رکھتا ہے جس سے بابری مسجد پر ناجائز قبضہ مجسٹریٹ برخواست کرسکتا تھا کو نظر انداز کرکے اس کو حق ملکیت کا مقدمہ بنالیا گیا جس کے نتائج آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ دفعہ 145کا ہٹانا زبردست بے قاعدگی تھی۔ ان بے قاعدگیوں کو وزیر اعلیٰ پنت نے نظر انداز کیاکیونکہ ان کو سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی جب جواہر لال نہرو کچھ نہ کرسکے اور مولانا حسین احمد مدنی، ابوالکلام آزاد اور رفیع قدوائی خاموش رہے ہوں تو جو بھی نہ ہوتا وہ کم تھا۔ تاہم یہ بات حیرت انگیز ہے کہ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک ملک کے عوام بابری مسجد اور رام مندر کے سلسلے میں خاموش رہے۔ پنڈت پنت، سردار پٹیل، راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے رویوں کو مورخ ہرگز معاف نہ کرے گا۔ ساتھ ہی مسلمان زعماء، اکابرین، قائدین، علماء قانون دانوں اور دانشوروں کا رویہ بھی شروع سے آج تک تسلی بخش کبھی بھی نہیں رہا۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

The first martyrdom of the Babri Masjid, by Pant & Patel?. Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں