پاکستان میں سزائے موت - 8 ہزار قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ معلق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-19

پاکستان میں سزائے موت - 8 ہزار قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ معلق

اسلام آباد
پی ٹی آئی
پاکستان میں سزائے موت یافتہ قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ اب معلق ہوگیا ہے کہ پشاور فوجی اسکول پر طالبان کے حملہ میں132طلباء اور سولہ ارکان عملہ کی ہلاکت کے بعد حکومت نے خود ساختہ عارضی معطلی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے ۔ ملک میں60سے زائد جیل ہیں جن میں تیس فیصد قیدیوں کو دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خاطی قرار دیاگیا ہے ۔ عہدیداروں نے بتایا کہ خصوصی عدالت نے2003-04کے دوران ان کے خلاف فیصلہ صادر کیا تھا ۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت نے سزائے موت کے فیصلہ پر عمل آوری شروع کی تو آئندہ چند ہفتوں میں بیشتر قیدیوں کو پھانسی دے دی جائے گی کیونکہ وہ تمام دروازے کھٹکھٹانے کے باوجوف فیصلہ میں ترمیم کی کوشش میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ پاکستانی حکام2004سے اب تک235قیدیوں کو پھانسی دے چکے ہیں ۔ عجیب و غریب اور حیرتناک بات یہ ہے کہ2008کے بعد سے اب تک صرف دو سزائے موت یافتہ قیدیوں کو ہی پھانسی دی گئی ۔ انسداد دہشت گردی عدالت یا اسلام آباد پولیس کی جانب سے خاطی قرار دئیے گئے سزائے موت یافتہ 991قیدی مفرور ہیں اور باور کیاجاتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردگروپس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔
یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے سزائے موت کے فیصلہ پر عمل آوری پر عارضی معطلی کا خود ساختہ فیصلہ واپس لے لیا ہے ، درایں اثناء حقوق انسانی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے حکومت پاکستان سے پشاور اسکول سانحہ پر غم و غصہ اور اظہار خوف کے عالم میں سزائے موت یافتہ قیدیوں کے فیصلہ پر عمل آوری معطلی کے احکامات واپس نہ لینے اور اسے برقرار رکھنے کی درخواست کی ہے ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈپٹی ڈائرکٹر برائے ایشیا پیسفک ڈیوڈ گریفتھس نے وزیر اعظم نواز شریف کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو فوجی اسکول پر طالبان حملہ کی مذمت جس قدر بھی کی جائے کم ہے اور خاطیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی ضروری ہے تاہم اس سانحہ کا جواب سزائے موت پر عمل آوری نہیں ۔ گریفتھس نے مزید کہا کہ ایسے حملوں نے بلا شبہ حکومت اور عوام کو خوفزدہ کردیا ہے اور ملک کے طول و عرض میں غم و غصہ اور شدید برہمی کا ماحول ہے ۔ تاہم ایسے جذبات کے آگے سپر ڈالنے اور سزائے موت پر عمل آوری سے متعلق معطلی کے احکامات سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ ایسے فوری رد عمل کے اظہار سے مسئلہ کا تہہ تک پہنچا نہیں جاسکتا ۔ شمال مغربی پاکستان میں عوام کا تحفظ لازمی ہے ۔ حکومت کو اپنی توانائیوں کو ایسے اقدامات پر بروئے کار لانا چاہئے۔
پھانسی کی سزا پر عمل آوری سے تشدد میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے اور ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے کے اقدامات ضروری ہیں ۔ پشاور اسکول حملہ کے علاوہ ایسے تمام پر تشدد واقعات کی تحقیقات ضروری ہے اور حکومت خاطیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کو یقینی بنائے ۔ سزائے موت حکومت پاکستان کے قانونی نظام کی صورتحال کا جواب نہیں کیونکہ اس طرح ملک میں انسدادا جرائم و عسکریت پسندی ناممکن ہے ۔ دریں اثناء آئی اے این ایس نے پاکستانی میڈیا کے حوالہ سے بتایا کہ وزارت داخلہ نے132درخواست رحم پر غوروخوض کا عمل شروع کردیا ہے ۔ وزارت داخلہ نے ان درخواستوں کو وزیر اعظم نواز شریف سے رجوع کردیا ہے جو اسے قطعی فیصلہ کے لئے صدر مامون حسین کو روانہ کردیں گے ۔ صدارتی فیصلہ سے وزارت داخلہ کو آگاہ کردیاجائے گا جو ان درخواستوں کو قبول یا مسترد کرنے کے موقف میں ہوگی ۔ مستر د درخواستیں متعلقہ صوبوں کی وزارت قانون کو روانہ کردی جائیں گی ۔ وزارت داخلہ ذرائع نے بتایا کہ ضروری کارروائیوں اور سزائے موت وارنٹس کی اجرائی کے بعد سزا پر عمل آوری ایک ہفتہ میں ہوجائے گی۔

death penalty in Pakistan Death row prisoners

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں