عالمی یوم حقوق انسانی - سسکتے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-10

عالمی یوم حقوق انسانی - سسکتے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل

International-Human-Rights-Day-10-December
10/دسمبر 1948 سے ہر سال پوری دنیا عالمی یوم حقوق کا بڑے ہی دھوم دھام سے اہتمام کرتی ہے۔
چند رپورٹیں شائع ہوتی ہیں، کچھ شہیدوں کو یاد کیا جاتا ہے اور کچھ عہد و پیما ں ہوتے ہیں اور پھر یہ طرفہ تماشا اگلے سال کیلئے محفوظ ہوجاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور جنون کی حد تک سفاکیت، ظلم و تشدد، قتل و غارت گری کی وجہ سے جب دنیا بلبلا اٹھی تھی تو 1945 میں اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان کافی بحث و مباحثہ کے بعد 10/دسمبر/1948 کو 30 دفعات پر مشتمل بین الاقوامی امن چارٹر منظور کیا گیا۔جس میں شخصی، شہری آزادی، سیاسی آزادی،معاشی آزادی اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے لئے معاشی، سماجی وتہذیبی حقوق تسلیم کیے گئے۔
حقوق انسانی کیلئے سرگرم تنظیموں نے مختلف ممالک میں حقوق انسانی کی تلفیوں سے متعلق جو رپورٹیں جاری کی ہیں اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ بین الاقوامی امن چارٹر کے نفاذ کے 7 دہائی بعد بھی حقوق انسانی کی صورت حال بدترین ہے۔ بھکمری سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی حقوق انسانی کی صورت حال بدتر ہے۔غریب طبقہ کا امراء کے ہاتھوں استحصال ہورہا ہے۔ خواتیں کے خلاف جنسی و جسمانی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ آج بھی طاقتور ممالک پسماندہ ممالک کی شخصی آزادی پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔
اظہاررائے کی آزادی کے نام پر طاقت سے محروم طبقات پر اپنی تہذیب و ثقافت اور کلچرکو تھوپ رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اظہار رائے کی آزادی اور روشن خیالی کے نام پر جس ثقافت و کلچر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اس سے انسان خاندانی نظام سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ پوری دنیا کثرتِ زنا کی وجہ سے انسانیت کے مقدس جذبے سے محروم ہوچکی ہے۔ آج انسانیت کا راگ الاپنے والے انسانیت سے عاری ہوچکے ہیں،نسلی،علاقائی،لسانی اور مذہبی تعصب نے انسان کو انسان تسلیم کرنے سے انکار کر دیاہے۔ دولت کی ہوس اور سودی نظام نے ہمدردی،پیارمحبت اورانسان شناسی کی قوت کو ختم کردیا۔
طاقتور قوموں کی وسعت پسندانہ رویہ نے سمندروں کو خون آلود کردیا ہے۔ عالمی امن کے نام نہاد ادارے سامراجی قوتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے خراب صورت حال خواتین کی ہے۔ خواتین کی آزادی اور مساوات کے نعروں کے درمیان سب سے زیادہ ظلم و تشدد کا شکار صنف نازک ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں عالمی امن چارٹر اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام ہوچکی ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اگر اس عالمی منشور کا نفاذ صدق دلی اور ایمان داری سے کرتے تویقیناً دنیا امن و امن کا گہوارہ ہوجاتی، ظلم و تشدد کے بازار بند ہوجاتے،صنف نازک کے استحصال کا سلسلہ رک جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں اپنے آپ مر جاتیں مگرجن لوگوں نے اس عالمی منشور کے نفاذ کی ذمہ داری لی تھی وہ صادق دل نہیں تھے، ان کے ارادے ناپاک تھے انہوں نے اس عالمی منشورکو اپنے وسعت پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا۔ خود کو عالمی امن کا ٹھیکیدار بتانے والوں نے سب سے زیادہ حقوق انسانی کی پامالیاں کی ہیں۔ گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات یہ چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ مغرب نے عالمی منشور کے نفاذ کی سنجیدہ کوشش کبھی بھی نہیں کی۔ اس عالمی منشور کو ہر اس قوم اور ملک کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جو اس کے سیاسی و معاشی مفادات کی راہ میں روکاوٹ بن گئے۔

آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔ ایک طرف لوگ زندگی کے اعلیٰ معیار سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تودوسری طرف کثرت سے لوگ بھوک، پیاس، غربت، جہالت، کم علمی، سیاسی شعور کی کمی، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کے شکار ہیں۔ طاقتور قومیں آج بھی غریب ملکوں پر اپنا تسلط قائم کی ہوئی ہیں۔ گویا اقوام متحدہ کا امن چارٹرانسانوں کو فائدہ پہنچانے میں بالکل ناکام ہوچکا ہے بلکہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اس سمت میں جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں سب کی سب رائیگاں ہی گئیں۔
ایسے حالا ت میں اس وقت دنیا کو ایک ایسے عالمی منشور کی ضرورت ہے، جو انسان کو انسان کے مظالم سے محفوظ کر دے، خواتین کی عزت بر سر بازار نیلام ہونے سے محفوظ کردے۔
ایک ایسا منشور جو غریب اور کمزور طبقات کو ان کے حقوق دے سکے۔ جو غریبی اور امیری کے درمیان بڑھتے فاصلے کو کم کردے۔
ایک ایسا منشور جو وسعت پسندانہ ذہنیت پر لگام کس سکے۔
ظاہر ہے کہ اس خلا کو صرف ایک ہی عالمی منشور پر سکتا ہے جسے 14 سو سال قبل محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں اپنے آخری خطبہ کے دوران پیش کیا تھا۔

محمد عربیﷺ نے ایک ایسے وقت میں انسانیت کا پیغام دیا تھا جب یورپ تو مکمل اندھیرے میں تھا ہی، اس وقت کی ایران و روم جیسی روشن خیال ریاستیں بھی حقوق انسانی کی اصطلاحات سے ناآشنا تھیں اور اسلام نے دنیا کے سامنے جو عالمی منشور پیش کیا وہ کسی فکری کشمکش، انقلاباتِ زمانہ اور تحریکوں کے دباؤ کے نتیجے میں ظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ حقوقِ انسانی کے تمام اْصول و احکام وحی الٰہی کے چشمہ صافی سے پھوٹے ہیں۔
عالمی منشور کے سنہرے اصول، شاندار روایات اور اعلیٰ اقدار کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ محمد عربیﷺ کے عالمی منشور میں چند ایسی خصوصیات شامل ہیں جس سے اقوام متحدہ کا امن چارٹر اور دیگر حقوق انسانی کے اداروں کے قوانین محروم ہیں۔ کیوں کہ معلم کائنات ﷺ نے اپنی ساری توجہ انسان کے شعور کو بیدار کرنے اور اسے جھنجھوڑنے پر مبذول کی تاکہ انسان اللہ کی ذات پر ایمان لے آئے اور اسی کو اپنا حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ مان لے۔
اسلام کا دستور کائنات کو الٰہیاتی نظر سے دیکھتا ہے کہ کون سی چیزیں انسان کے لئے نفع بخش ہیں اور کون سی نقصان دہ۔ اسلام کے انسانی حقوق کے دستور کی دوسری نمایاں خوبی اس کا دوام اور استحکام ہے۔ حالاتِ زمانہ کی گردشیں ان پراثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ کیوں کہ اسلام میں حق سے مراد "وہ مسلمہ صداقت و و اقعیت ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا"۔ اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد "احسان" پر رکھی گئی ہے۔ اسلام میں انسانی حقوق ایسے چشمہ صافی سے پھوٹتے ہیں، جہاں ایک بندے کو ہر وقت اللہ کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ جہاں ہر وقت، ہر لمحہ انسان کو یہ خیال رہتا ہے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے اس مقام پر کھڑے ہوکر انسان حقوق کی پامالی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ احسان کی تعریف نبی نے یوں بیان فرمائی ہے:
"تو اس طرح اللہ کی عبادت کر جیسے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگرتو اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تو کم از کم یہ تصور ضرور کرے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔"

پھراسلام نے انسانی حقوق کا جو تصور دیا ہے،اس کے درمیان اور اس دین کی فطرت کے درمیان مکمل یکجہتی، یکسانیت اورہم آہنگی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اسلام نے حقوق کو یوں ہی مطلق اور بے مہار نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کے اوپر احکامِ شریعت اور مقاصدِ شریعت کا فریم چڑھایا۔ ان کو آداب، اخلاق اور دین کا پابند بنایا اور پھر ان آداب اور اخلاقیات اور دین کی پامالی کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا۔ گویا اسلام نے تمام حقوق کو الٰہی بنیادوں پر استوار کیا ہے اوراس بنیاد کو مکمل طور پر فطرتِ ربانیہ یعنی فطرتِ اسلام سے ہم آہنگ اور مربوط کر دیا ہے۔
اسلام میں حقوقِ انسانی کی بنیاد اس اصول پر قائم ہے کہ معاشرہ کی بالادستی فرع اور افراد کی بالا دستی اصل ہے۔ معاشرہ کی بالادستی کو اصل اور فرد کی بالادستی کو اس کے تابع قرار دینا اسلام کی رو سے غلط ہے۔ لیکن دور حاضر میں انسان کا خود ساختہ نظام اسی اصول کا مرہونِ منت ہے۔

افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ نے خود انسانیت کے اس درس کو فراموش کردیا ہے۔ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں ہے کہ دنیا کو جس قوم نے سب سے پہلے احترام انسانیت، اظہار رائے کی آزادی، فکر و عمل کی آزادی کی اصطلاحات سے باخبر کرایا، آج اسی قوم کو علمی کے لحاظ سے تہہ دست ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ اسی قوم کوحقوق انسانی کا غاصب، انتہا پسند، رجعت پسند قرار دیا جارہا ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ خود اس بات سے آگاہی حاصل کریں کہ اسلام نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ کونسی خصوصیات کا حامل ہے جو اسے باقی دنیا کے قوانین سے ممتاز کرتا ہے اور وہ کون سے اْصول اور اَقدار ہیں جن پر یہ دستور مشتمل ہے۔ پھر اسلام نے بنیادی انسانی حقوق کا جو جامع دستور دیا ہے، اس کو عالمی سطح پر نافذ کرنے اور دوسروں کو اس دستور کا قائل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مسلمان ان حقوق کو دنیا کے سامنے واضح کرنے کے بعد خود ان حقوق کو نافذ کر کے عملی نمونہ پیش کریں۔ یقینا ہم اپنے اس قدم سے سسکتی و بلکتی دنیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ خیر امت ہونے کے ناطے یہ ہمارا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کیلئے خود کو پیش کریں اور اس کی رہنمائی کریں۔

***
Nurullah Jawaid
Flat No 13, Second Floor, 115/1B Collin Street, kolkata-16
موبائل : 07890002880, 08334050572
--
نور اللہ جاوید

10th December, International Day of Human Rights. Article: Nurullah Jawaid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں