گذشتہ کافی وقت سے ممبئی جیسے شہروں میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو روکے جانے کا معاملہ حکومت و عدالت کی طرف سے سنائی دیتا رہا ہے۔ بلکہ فجر کی اذان کو اس شہر میں کئی سالوں سے لاؤڈ اسپکیر پر دینے کی ممانعت کر دی گئی، جب کہ چھ بجے سے قبل ہو۔ ملک میں حکمراں ہندوانتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی تنگ نظر ہندو تنظیموں نے ملک بھر میں اذان فجر کی پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ اب موصول حالیہ اطلاعات (سنیچر تک)کے مطابق مہاراشٹر میں وشو ہندو پریشد نے تمام مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے اور اذان لاؤڈ اسپیکر پر دینے پر پابندی عائد کرنے کی مہم چھیڑ دی ہے، چند روز قبل مہاراشٹر کے وزیر اعلی فرنویس سے وشو ہندو پریشد نے اس سلسلہ میں مطالبہ کیا تھا اور وشو ہندو پریشد کے اراکین وزیر اعلی سے ملے تھے اور کہا تھا کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے سے صوتی آلودگی ہوتی ہے، اس لیے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو روک دیا جائے اور پورے مہاراشٹر کی مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹا لیے جائیں۔ وشو ہندو پریشد کے سنٹرل کمیٹی کے رکن وینکٹیش اپ دیو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا کہ" پورے سال مسجدوں سے لاؤڈ سپیکر پر اذان دی جاتی ہے اور اس سے سال بھر صوتی آلودگی ہوتی ہے، لیکن جب جب ہندو تہوار آتے ہیں، گنپتی نوراتری وغیرہ، تب کچھ لوگ عدالت میں چلے جاتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ہندو تہواروں سے صوتی آلودگی ہوتی ہے"۔ ان جناب کے اس بیان سے بخوبی واضح ہے کہ جناب اصلاً اس بات کے لیے فکر مند نہیں کہ اذان سے صوتی آلودگی ہوتی ہے، بلکہ وہ تو اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں کہ ان کے تہواروں کے بارے میں یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اُن سے صوتی آلودگی ہوتی ہے۔ جب کہ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ واقعی ان دونوں میں سے کس سے صوتی آلودگی ہوتی ہے۔ اذان چند منٹ کی ایک مختصر عبادت ہے اور گنپتی اور نوراتری ایسے تہوار ہیں، جن میں جان بوجھ کر زور و شور سے ڈی جے بجائے جاتے ہیں، جس سے اسکول کے طلبہ اور مریضوں کا خاص طور سے بڑا حرج ہوتا ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا ہندو۔ یوں سمجھیے کہ اذان جزء وقتی صوتی آلودگی کا باعث ہے تو ان تہوراوں میں مروجہ طرز پر ہونے والا شور و گُل کُل وقتی۔ یہ بھی آپ کا مان رکھتے ہوئے ہم نے جسارت کی، ورنہ اذان دو تین منٹ میں کب پوری ہو جاتی ہے، اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہر بات میں تعصب سے کام لینا اور دوسروں کی صحیح اور درست باتوں کو بھی غلط ٹھہرانا عقل مندوں کا شیوع نہیں۔ کیا آپ ان بے جا مطالبات سے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمان ملک کے دوسرے درجے کے شہری ہیں یا آپ رفتہ رفتہ ان کی مذہبی آزادی کو صلب کرکے اس ملک کے سیکولر نظام کو تبدیل کرنے کے در پے ہیں ؟
اسی کے ساتھ یہ ایک اچھی بات ہے کہ پرمود تیواری وغیرہ نے مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مانگ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں کسی مذہب کے شعار کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا واقعۃً قانون کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت و عدالت کو اس معاملہ میں ذرا کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کا مظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اذان ایسی چیز تو نہیں، جو نئی نئی شروع کی گئی ہو اور جس سے ہونے والی صوتی آلودگی، بقول آپ کے، کل کی اختراع ہو، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ حکومت ابھی ابھی قائم ہوئی ہے، جس نے آپ کو سرخاب کے پر لگا دیے ہیں، لیکن ہرگز فراموش نہ کیجیے کہ وقت ہر دم تغیر پذیر ہے۔
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
![]() |
مولانا ندیم احمد انصاری |
Demand for ban on Adhaan is Violation of the Constitution. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں