14/دسممبر تجزیہ اشہر ہاشمی
ساکشی مہراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے ساددھو سنت سماج کے دیگر لیڈران جیسے سادھوی نرنجن جیوتی، کو جیسے پورے ملک میں خلفشار مچانے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندراور باہر دونوں جگہ بی جے پی کے صدر امت شاہ سمیت بہت سے لیڈر سوائے تنازعات کھڑا کرنے کے اور کچھ نہیں کررہے ہیں۔ جیسے ملک کو بھیانک قسم کے نراج کر طرف لے جانے کے مخصوص ایجنڈے کے تحت یہ لوگ کام کررہے ہیں۔ اور انہیں سب بی جے پی آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، سودیشی جاگرن منچ سمیت تمام تنظیموں کی پوری تائید حاصل ہے۔ ابھی چند مہینے پہلے تک کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر کوئی ممبر مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کی تعریف میں کچھ کہے گا۔ لیکن ساکشی مہراج نے ایسا کیا گو کہ فورا معافی مانگ لی ۔ معافی مانگنا سیاست دانوں کا پرانا وطیرا ہے لیکن بی جے پی کے لیڈران جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مودی سرکا ر کے برسراقتدار آنے کے بعد سوائے نریندر مودی کے کسی کے بھی اچھے دن نہیں آئے۔ مہنگائی اور بدعنوانی دو معاملات پر کانگریس کو نشانہ بنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی اورنریندر مودی نے انتخابی مہم چلائی تھی اور واضح اکثریت حاصل کرکے اقتدار تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چونکہ بی جے پی کے پاس کبھی کوئی ترقیاتی ایجنڈا نہیں تھا۔ اس لئے اقتدار میں آنے کے بعد وہ گمشدگی بڑھ گئی جو بصیرت نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس گمشدگی میں کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کی مجبوری ان لیڈروں سے وہ کام کرارہی ہے جو عام طور پر مجذوب کیا کرتے ہیں۔ یعنی بڑھ۔ ایک ہذیان گوئی کاسلسلہ جاری ہے۔ جس میں شدت جذبات کی وجہ سے الفاظ پوری طرح سے ادا بھی نہیں ہورہے ہیں۔ اور جو الفاظ کانوں تک پڑتے ہیں وہ ایک پس روی کی طرف مائل سماج کی پرچھائیاں دکھا رہے ہیں۔ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ اس ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف مذہبی عقائد پر عمل کرنے والے، مختلف کلچر کے لوگ، مختلف آب وہوا میں زندگی گذارنے کے عمل میں بھی ہندوستانیت کے دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی قوم پرستی ہندوتوا نہیں ہے۔ ہندوستانی قوم پرستی میں ہر علاقے ، زبان،مذہب، رہن سہن، کھانے کے پینے کے طور طریقوں اور زندگی کرنے کے آداب کا باہمی احترام ایک لازمی جزء ہے۔ مودی سرکار اسی لازمی جزء کے جوہر سے ہندوستان کو محروم کرنے پر تلی ہے۔ ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی عام سی چیز ہے۔ مذہب کسی کا ذاتی فعل ہے وہ اپنے مذہب کے قاعدوں کے مطابق اپنے معبود کو کیسے یاد کرتا ہے اس کا کوئی تعلق سماجی زندگی سے نہیں ہے۔ کچھ فرقہ پرستوں عناصر کو چھوڑ کر پورا ہندوستان دوسرے مذاہب کا بھی اتنا ہی احترام کرتا ہے جتنا کہ اپنے مذہب کا۔ یہ ایک قدیم تہذیب کا ورثہ ہے کہ ہندومسلمان ایک دوسرے سے میل جول کیلئے نمشکار اور السلام علیکم سے الگ ہو کر ایک ایسی اصطلاح وضع کرنے میں کامیاب ہوئے جو مذہبی تشخص سے اوپر سماجی میل جول کا حوالہ بن گیا۔ ہندوستانی کی گنگا جمنی تہذیب میں دو الگ مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ علیک سلیک کیلئے \"آداب عرض ہے\" کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے بچھڑنے والے دو الگ زبانوں کے لوگ الگ مذاہب کے نمائندے ایک سیکولر مرکب لفظ \"خدا حافظ\"استعمال کرتے ہیں۔ ابھی حال تک شیروانی ایک مشترکہ لباس تھی۔ ان تمام چیزوں کو بی جے پی سرکار میں منہدم کیاجارہا ہے۔ آزاد ہندوستان کے 67برسوں میں جتنے بھی ادارے اور عقائد مسلّم ہوئے ہیں ان سب پر ضرب لگائی جارہی ہے۔ نریندر مودی کی لال قلعہ کی فصیل سے خود پہلی تقریر ہندوستان میں مسلّمہ اداروں کے انہدام کی تمہید بن کر آئی۔ انہوں نے پلاننگ کمیشن کا متبادل بنائے اور سوچے بغیر کمیشن کو توڑنے کا اعلان کیا۔ پلاننگ کمیشن کا توڑنے کا مطلب نہرووین لائن سے ہندوستان کو الگ کرکے ترقی پسند فکر کی بجائے رجعت پسند سوچ کی جانب لے جاناتھا۔ وزیر اعظم کا اشارہ دوسرے لیڈروں کیلئے کافی ہوا۔ ہندو مسلم اتحاد پر تقسیم سے بھی زیادہ کاری ضرب لگانے کیلئے بی جے پی کے لیڈروں نے خاص کر سادھو سنت سماج کے لیڈروں نے لو جہاد کانعرہ بلند کیا۔ مودی سرکار بننے سے اب تک پورا ہندوستان فسادات کی مار جھیل رہا ہے۔ بابری مسجد کا تصفیہ ہوجانے کے باوجود بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر بنانے کیلئے کچھ لیڈر بیتاب ہیں۔ ساکشی مہراج نے پارلیمنٹ میں جس دن گوڈسے سے متعلق اپنے بیان پر معافی مانگی اسی دن ایک نیا تنازعہ یہ کہ کر کھڑا کر دیا کہ بابری مسجدپررام مندر کو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سادھوی نرنجن جیوتی پورے ہندوستان کو حرام زادہ کہ رہی ہیں۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے شاہی امام سید احمد بخاری کا نام لے کر یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ پروین توگڑیا اور وی ایچ پی کے دوسرے لیڈران حسب سابق زہر افشانی کررہے ہیں۔ اور اب منصوبہ بند تبدیل مذہب کے ذریعہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تقریبات کا اعلان ہورہا ہے۔یہ پوری صورتحال ہندوستان کو ایک ایسے ہیجان میں مبتلا کررہی ہے جو ذرا شکل بدل کر نراج میں تبدیل ہوجائے گی۔ مودی سرکار ، بی جے پی اور سنگھی تنظمیں ایک بنیادی بات بھول رہی ہیں کہ ہندوستان کبھی بھی ہندو راشٹر نہیں رہا۔ ٹوٹنے ، بکھرنے اپنی مملکت اور اپنا الگ پرچم بنانے کا رجحان بہت پرانا ہے۔ مغل شہنشاہ اکبر سے پہلے ہندوستان کے پاس وفاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ وہی وفاقیت اس وقت زیادہ خطرے میں ہے کیونکہ نریندر مودی کی حکومت غیر بی جے پی حکومتوں اور یاستوں کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے وہ مختلف علاقوں میں مرکز سے درو جانے کا رجحان بنانے کوکافی ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی، جھارکھنڈ میں ہمنت سورین اس کی عام مثالیں ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بے لگام ہذیان گو لیڈروں کے زبان پر لگام لگایا جائے اور مرکزی حکومت وفاقی آدرشوں کا احترام کرتے ہوئے حکمرانی کا کام کاج چلائے ۔
***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
|
اشہر ہاشمی |
Anarchism and social unrest in the country under Modi govt. Article: Ash'har Hashmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں